فرعون نے بنی اسرائیل کے اوپر ظلم کی تمام حدوں کو پھلانگ دیا لیکن اس کے بعد بھی حضرت موسی علیہ السلام کو اللہ تعا لی کی طرف سے یہ حکم ہو تا ہے کہ فرعون سے نرمی کے ساتھ بات کرنا۔حضرت عیسی علیہ السلام کی قوم کے حوالے سے جب تثلیث کے با رے میں پوچھا جا ئیگا تو آپ علیہ السلام جواب دینگے :’’ اگر تو انہیں عذاب دینا چا ہتا ہے تو یہ تیرے ہی بندے ہیں تجھے اختیار ہے اگر تو انہیں بخشنا چا ہتا ہے تو تو غالب اور حکمت وا لا ہے‘‘ ( الما ئدہ: ۱۱۸) غرض یہی طریقہ رہا ہے تمام پیغمبروں کا، حضرت ایوب علیہ السلام ، حضرت براھیم علیہ السلام ، حضرت داودعلیہ السلام ،حضرت یوسف علیہ السلام ، اسی طرح دوسرے جلیل القدر انبیاکی مثالیں موجود ہیں اور آخر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی صبر و تحمل ، عفو ودر گزر کا عملی نمو نہ ہے ،آ پ اور آپ کے صحا بہ کے ساتھ کفار ومشرکین نے وہ سب کچھ ظلم کیا جس کی مثال پوری انسانی تا ریخ میں نہیں ملے گی ،انسان آ خر انسان ہے اس کے پا ؤں ظلم و ستم کے سا منے بشری تقا ضے سے ڈ گمگا سکتے ہیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ایک مثال بھی پوری زندگی میں بے صبری اورعدم تحمل کی نہیں ملے گی۔ طائف کے میدان میں آپ کا جسم مبا رک خون سے لبریزہے ،آپ کی قوم پتھر برسا رہی ہے ،رحم کے لیے کو ئی فرد تیا ر نہیں ،فرشتے آپ کے پاس آتے ہیں اور عذاب کی اجا ز ت چا ہتے ہیں، آپ صبر و تحمل اور برداشت کا مظاہرے کرتے ہیں۔ بدعا کا لفظ آپ کی زبان پر نہیں آتا۔ ایسے واقعات آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی میں بہت سی مرتبہ آ ئے جہاں صبر اور ضبط ہا تھ سے چلا جا تا ۔ لیکن آ پکی تمام زندگی اس با ت پر گواہ ہے کہ آپ ہمیشہ صابر رہے ۔کہیں آ پ نے کبھی کسی حال میں بے صبری نہیں کی۔دشمن سے انتقام کبھی آپ کے تصور خیال میں بھی نہیں آیا۔ نہ اس وقت جب آپ مکی زندگی میں تنہا تھے اور نہ اس وقت جب آپ کے پاس حضرات صحابہ کی بڑی جماعت تھی۔ اس سے بڑھ کر اللہ کی مدد ہر وقت آپ کے ساتھ تھی، کیا نہیں ہو سکتا تھا انتقام کے لیے، لیکن کفار کی اذیتوں پر آپ کو اللہ کی طرف سے حکم ہو تا ہے ’’اے پیغمبر جیسی جیسی با تیں یہ کافر کہتے ہیں ان پرصبر کر و ‘‘ ( طہ : ۱۳۰)
دوسری جگہ فرمایا:’’اے پیغمبر مخا لفین کی ایذ ا پر صبر سے کام لوجو بغیر توفیق الٰہی کے نہیں ہو سکتا ہے ان لو گوں کی حالت پر غم نہ کرواور جو چالیں یہ لوگ تمہا ری مخالفت میں سو چتے ہیں ان سے تنگ دل نہ ہو کیو نکہ جو لوگ پر ہیز گا ر ہیں اور دوسروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے ہیں خدا ان کا ساتھی ہے۔ ‘‘( النحل : ۱۲۸) کچھ طاقتوں نے ہمیشہ اپنے ظلم وجبرسے مظلوم انسانوں کو مشق ستم بنا یا حتی کہ ان کے ناپاک ہاتھو ں سے اللہ کے معصوم بندے انبیا ء بھی محفوظ نہیں رہے ،ہمہ شما تو کہاں ،لیکن اس کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ جہاں ان مظلوموں کی فلک دوز آہیں ان سے انتقام لیتی رہی وہیں مظلومین کا صبر، انکی قربانی اور ان کا خون اسلام کی وسعت کا اضافہ بنتا رہا ۔ اقبال نے کہا تھا:
بارش خون شہیداں سے وہ آئے گی بہار
ساری دھرتی ہمیں گل رنگ دکھائی دے گی
تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں موجودہیں۔ تاتاری قوم جن کی انسانیت سوزی سے پوری دنیا واقف ہے لیکن اللہ نے اسی قوم سے دین کی حفاظت کا بڑا کام لیا،روس نے افغانستان کے اندر افغان کے معصوم انسانوں پر مسلسل آٹھ سال تک آگ برسائی، ان کا خون اللہ نے ضائع نہیں ہونے دیا،اس کی برکت سے روس کے ٹکڑے ہوے اورچھ بڑی مسلم ریاستیں روس کے قبضے سے آزاد ہوئی ماہرین کے مطابق اگر روس افغانستان کے اندر جنگی جنون کے ساتھ داخل نہ ہوتا تو وہ مسلم ریاستیں روس سے آزادی حاصل نہیں کرپاتی آج یہی صورت حال برما کے روہنگیا مسلمانوں کی ہے دنیا کے تمام ظالم لوگ بھوکے جا نوروں کیطرح ان کے خون کوچوس رہے ہیں ،شاید انسا نی تاریخ میں ا یسے واقعات بہت کم انسانوں کو پیش آئے ہونگے جب انسانوں نے انسانوں کے ساتھ ایسا معاملہ کیا ہو جو برما میں دیکھنے مل رہا ہے ،ایک ہی خون ایک ہی روح اور ایک ہی باپ کی اولاد یہ انسان پھر ایسا کیوں ہو گیاہے بس یہ اسی آخری صورت میں ممکن ہے جب انسان انسان نہ رہے وہ حیوان بن جا ئے اور انسانی مخلوق سے اس کا رشتہ ختم ہو جائے ۔
اس وقت برما سمیت دنیا میں مسلمانوں کے جو حالات ہیں ،ان کے حوالے سے مسلم دنیا کی بے حسی پر جو بہت سے خدشات اور سوالات سامنے آئے ،وہ عالم اسلام کی قیادت اور مسلمانوں کے مستقبل کے لیے مایوس کن ہیں۔وجہ اس کی یہ ہے کہ جو مسلم قیا دتیں اس وقت مو ثر کردار ادا کرسکتی ہیں ،وہ اس قدر مصلحت شناس ہیں ،کہ دنیا میں ان کو صرف و ہی کام کرنے ہیں جو ان کے اقتدار کے تحفظ کو یقینی بنا سکے ،اس میں بات صرف کسی ایک ملک کی نہیں یا ٖصرف اس کی ذمہ داری سعودی حکو مت پر ہی نہیں بلکہ تمام مسلم حکومتیں اس کی برابر کی ذمہ د ا ر ہیں۔
ہو سکتا ہے اس مجرمانہ خاموشی کے پیچھے کچھ مسلم حکومتوں کی یہ سوچ ہو کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے ہو نے دو ہمیں کو ئی مطلب نہیں ،تو پھر کچھ کہنا فضول ہے۔لیکن یہ مسلمانوں کا کام نہیں کہ وہ اپنے مسلم بھا ئیوں سے راہ فرار اختیا ر کریں ،ان کے دکھ درد میں شریک نہ ہو ، وہ بھی صرف اقتدار کی خاطر، جبکہ حکومت اور اقتدار کی جہاں تک بات ہے تو اللہ جب تک چاہے گا اس وقت کو ئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے ، لیکن جب زوال آئیگا تو تما م تد بیرں تمام مصلحت شنا سی تما م خموشیاں رکھی رہ جا ئیں گی ،کو ئی بچانے نہیں آئیگا ،حال کی دنیا کی تاریخ اس بات پر شاہد اور گواہ ہے،صدام حسین، معمر قذافی حسنی مبارک، کچھ اور حکمراں جن میں نواز شریف اور پر ویز مشرف وغیرہ شامل ہیں ۔ان تمام پر گذرے ہو ے برے حالات موجودہ حکمرانوں کی ،عبرت کے لیے کافی ہیں ،مولا نا ابوالکلام آزاد ؒ نے کہا تھا کہ جس طرح ہمارے جسم کے اندر ہر سانس ایک انقلابی حیثیت رکھتا ہے یعنی ایک سانس آ نے بعد دو سرے کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے ،یہی صورت حال دنیا اور اس کے نظام کی ہے کب کہا ں کیا ہو جا ئے کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے ۔
اس وقت جو حالات مسلمانوں کو دنیا میں در پیش ہیں ،ان کے حوالے سے دل برداشتہ ہو نے کی ضرورت نہیں ،بلکہ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ غور وفکر کے ذریعہ اس کا پتہ لگا یا جائے کہ یہ حالات اور مشکلات کیوں آئے ان کے پیچھے کیا وجوہات ہیں جب تک اصل مرض کی طرف رجوع نہیں کیا جا ئیگا اس وقت تک بیما ری کا علاج ممکن نہیں چاہے کتنے ہی ہا تھ پا ؤ ں ما ر لیے جا ئیں،ا س موقع پر غزوہ احد کا ذکر نا گزیر ہے ،غزوہ احد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ ؑ کے تمام صحابہ شدید مشکلات سے دوچار ہوے ،آپ خود بھی شدید زخمی ہوے ،آپ کے چچا حضرت حمزہ سمیت تقریباً پچھتر صحابہ شہید ہو ے ، تو اس موقع پر غم کا ہو نا فطری تھا ،اللہ کی طرف سے آ پ ؐ کو غمگین دیکھ کر تسلی دی گئی اور یہ آیت نازل ہو ئی’’ اور تم ہمت مت ہا رو ،اور رنج مت کرو،اور غالب تم ہی رہو گے ا گر تم پورے مومن ر ہے‘‘( سورہ آل عمران آیت ۱۳۹) پھر اللہ نے آپ کی مدد فرمائی اور فتح وکامرانی آپ کے اور کے صحابہ کے حصہ میں آئی۔بہرکیف اللہ کی مدد اسی صورت میں آئی گی جب صبر شکر اور تقوی اختیار کیا جا ئیگا ،
جواب دیں