بقا کی فکرکرو خودہی زندگی کے لئے

ہاشم پورہ سانحہ کے متعلق 30ہزاری کورٹ کایہ فیصلہ آیا ہے کہ عدالت ثبوتوں کی عدمِ موجودگی کی بنا پر ملزمین کوباعزت بری کرتی ہے ۔ عدالت کے اس فیصلہ نے یقیناًمہلوکین کے اہل خانہ کے علاوہ دیگرتمام انصاف پسندعوام کوسکتے میں ڈال دیا ۔ جگہ جگہ احتجاجی پروگرام ہونے لگے اورانصاف انصاف کی صدائیں بلندہونے لگیں ۔اس ضمن میں حکومت اترپردیش کے کئی وزراء اور خود وزیر اعلیٰ جناب اکھلیش یادو صاحب بھی بیان آئے۔ سماجوادی پارٹی کے معزز رہنما اورمسلمانوں کے سیاسی قائد جناب اعظم خاں صاحب نے بھی ہاشم پورہ کے اس سانحہ کے تعلق سے عدالتی فیصلے کے خلاف مؤثر رد عمل کا اظہار کیا اور انصاف کی آواز بلند کی ۔اعظم خاں کی ہی کوششوں سے اتر پردیش حکومت نے قابل ذکرتوجہ دی اور فوری مہلوکین کے اہل خانہ کو 5-5لاکھ روپے معاوضہ دینے کا اعلان کیا گیا ۔ اس سلسلے میں قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ 23مئی کوہاشم پورہ کے مظلومین کوانصاف دلانے کے لئے یوپی کے سینئر کابینہ وزیرجنا ب اعظم خاں صاحب کی قیادت میں دہلی میں ایک احتجاجی پروگرام رکھاگیا جس میں مسلم رہنماؤں کے ساتھ ساتھ کئی ہند ورہنما بھی شامل رہے۔ خصوصی طورپر شنکراچاریہ ادھوکشانندجی مہاراج کانام قابل ذکر ہے۔ شنکر اچاریہ جی نے اس احتجاجی پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مظلوموں کوانصاف کانہ ملنا نظام عدل پرایک بدنما داغ ہے ۔ سیکولر طبقہ عدلیہ کے حالیہ فیصلے کو اسی نقطۂ نظر سے دیکھ رہا ہے اور حکومت سے انصاف کی مانگ کر رہا ہے۔واضح رہے کہ عدلیہ کا غیر منصفانہ فیصلہ یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے ۔اس سے پہلے بھی اس طرح کے فیصلے آتے رہے ہیں ۔ جس کے پیچھے پولیس انتظامیہ کی جانب سے ثبوتوں کو مٹانے کا عمل کار فرما ہوتا ہے ۔ پولیس انتظا میہ کی جانب سے مسلم اقلیتوں کے تعلق سے اس غیر منصفانہ عمل ہی کی وجہ سے مسلم اقلیت کو عدالتی نا انصافی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ؛لیکن بہر حال ہمارا ملک ایک سیکولر ملک ہے ۔لہذا مسلمان عدالتی فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔حالیہ فیصلے میں بھی مسلمانوں بالخصوص سیکولر طبقے کو عدالت کے منصفانہ فیصلے کا انتظار ہے۔ہمارے سیاسی قائدین خصوصا اعظم خاں اس سلسلے میں انصاف کی لڑائی کے لیے پیش پیش نظر آرہے ہیں جو یقیناًہاشم پورہ مظلومین کے انصاف کے لیے امید کی کرن ہے۔
لیکن یہاں ایک سوال یہ پیداہوتا ہے کہ آخر کیوں حکومتی سطح سے لیکرعدلیہ تک ہمیں نظرانداز کیاجاتا ہے ؟جواب ہمیں خود ہی ڈھونڈنا ہوگا کسی دانشور نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ ؂
بقا کی فکر کروخودہی زندگی کے لئے 
زمانہ کچھ نہیں کرتا کبھی کسی کے لئے
کسی بھی قوم یاملک کی ترقی کی کنجی تعلیم ہے اورہمارے یہاں تعلیمی میعار کیا ہے دنیاجانتی ہے دوسری سب سے اہم چیز ہمارے یہاں صلاحیت مندقائدیں کافقدان ،بغیر قائد کے قوم شتربے مہار کی طرح ہوتی ہے ۔جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی ، نہ کوئی نصب العین ہوتا ہے اورنہ کوئی لائحہ عمل۔
ہندوستان کی تاریخ تعلیم پراگر نگاہ ڈال جائے تواس حقیقت کاکھلے طورپر اقرار کرنا پڑتا ہے کہ جب ہندوستان میں تعلیم کے میدان میں نئی تبدیلی ہورہی تھی انگریز اپنی دوراندیشی کو بروئے کار لاتے ہوئے ہندوستان پراپنی حکومت کی جڑیں مضبوط کررہے تھے۔ ہندوستان کی سرزمین سے مسلمانوں کی خیرخواہی اورانہیں ترقی کی دوڑ میں اہل وطن اورحکومت کے ہمدوش رکھنے کا خیال اورجذبہ لے کرسرسید احمدخاں کی شکل میں ایک مرکزی شخصیت قوم کے سامنے آئی ۔اورانہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ذریعے تعلیم ، سیاست، فکر، بصیرت اورمعاش کے میدان میں اہل وطن کوبالعموم اورمسلمانوں کوبالخصوص ایسے قیمی افراد دیے جنہوں نے آگے چل کر ملک وقوم کی ترقی میں غیرمعمولی خدمت انجام دیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج سر سید کو قوم کا محسن، ہندوستان میں جدید تعلیم کا بانی، عہدساز مفکر خیال کیا جاتا ہے ۔ سرسید کے مذہبی نظریات سے قطع نظرکوئی بھی شخص مسلم امت اورملک ووطن کے لئے سرسید کی تاریخ ساز خدمات کاانکار نہیں کرسکتا ۔تحریک علی گڑھ کاملک وقوم اورمسلمانوں پرمشترکہ احسان ہے کہ اس نے ایک سے ایک اعلیٰ دماغ جیالے ہندوستان کے حوالے کیے اورآج بھی یہ تحریک اپنا کام بحسن وخوبی انجام دے رہی ہے ۔ 
مسلمانوں کی فلاح وبہبود ی کے لئے سرسید کی برپاکردہ اس تحریک کی کامیابی کے پیچھے ان مخلصین کابھی نمایاں رول ہے جنہوں نے سرسید کا دست و بازو بن کر ان کے اس مشن کو اپنا مشن سمجھ کرہرطرح کی قربانی پیش کی ۔ان محسنین کی قربانیوں کوبھی کسی طرح نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی اورعلمی سطح پر کامیابی کے پیچھے جن محسنین کانمایاں کردارہے ان میں ایک عظیم سیاسی اورفکری شخصیت مولانا محمدعلی جوہررام پور ی کی بھی ہے جنہوں نے پوری زندگی ہندوستان کی آزادی کے لئے ہرطرح کی قربانی کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ 
مسلمانوں کے موجودہ سیاسی قائدجنہوں نے اپنی حکمت عملی اورمسلمانوں اورملک کے لئے مثبت سوچ کے نتیجے میں سیاسی سطح پر مسلمانوں کو باوقارکرنے کے لئے غیرمعمولی جدوجہد کامظاہرکیا ہے وہ یوپی کے سینئر کابینہ وزیر محمداعظم خاں ہیں جن کی زندگی کی آئیڈیل شخصیت مولانا محمدعلی جوہرہیں۔چنانچہ مولانا محمدعلی جوہر کی شخصیت اوران کی خدمات کے اعتراف میں اپنی قائدانہ صلاحیت اور سیاسی اثرورسوخ کا استعمال کرتے ہوئے2006ء میں ملک کے اس عظیم محسن کی یاد میں ’’مولانا محمدعلی جوہریونیورسٹی‘‘کا قیام کرکے ملک وقوم کے لئے اہم کردار اداکیا ہے ۔ اقلیتوں کی فلاح وبہبود کے لئے سیاسی سطح پر اعظم خاں کے مخلصانہ کردار کاکھلے دل سے اعتراف کیاجانا چاہیے ۔ ابھی حال ہی میں انہوں نے یوپی کی موجودہ سیاسی قیادت سے مسلم اقلیتوں کے تعلق سے کئے گئے وعدے کورفتہ رفتہ پورا کرنے کی جانب بھی پیش قدمی شروع کر دی ہے چنانچہ خبرکے مطابق چند روز قبل ڈیڑھ سومدارس میں سے 99مدارس کوگرانٹ پرلینے کااکھلیش یادوحکومت کی جانب سے اعلان کیاگیا ہے ۔ اندازہ ہے کہ باقی دیگر مدارس بھی جلدہی گرانٹ پر لے لئے جائیں گے۔
یہاں اس امر کااظہار بھی مناسب ہے کہ سماجوادی پارٹی نے 2011ء کے انتخابی منشور میں مسلمانوں سے ریزرویشن دیے جانے کابھی وعدہ کیا تھا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے یہ سیاسی قائد اعظم جلدہی حکومت کومسلمانوں کے لئے کئے گئے وعدے کوپوراکرنے کی جانب اپنی توجہ مبذول کریں گے۔ حالیہ تیس ہزاری کوٹ کے فیصلہ کے خلاف انصاف کاجونعرہ اعظم خا ن نے بلندکیا ہے کہ ہمیں فیصلہ نہیں،انصاف چاہیے ۔ اپنے اس سیاسی قائد کی آواز پرلبیک کہتے ہوئے ان کی آواز کومضبوط کیا جانا چاہیے ۔

«
»

پرسنل لاء بورڈ کی مجلس عاملہ کی خدمت میں

کیا ارسطو کا فلسفہ اسلام کے خلاف ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے