ہم نہیں جانتے کہ دستورمیں صدرکی حیثیت کیا ہے اور چیئرمین کی کیا؟منورراناکا یہ جملہ کہ ’’منور رانا توایک مصنوعی شخصیت ہیں اختیارات توتمام چیئرمین کے ہی پاس ہیں ‘‘پڑھ کر یادآیا کہ جب اردو والوں کے ہزاروں مطالبوں کے بعد یہ اکادمی دی گئی تھی تواس کی صدربیگم حامدہ حبیب اللہ بنائی گئی تھیں اور چیرمین مسٹرآنند نرائن ملا اورسکریٹری صباح الدین عمر صاحب ،بیگم حامدہ صاحبہ نہ اردو کی ادیب ،نہ افسانہ نگار، نہ شاعرہ ،نہ مصنفہ ،نہ نقاد بس ایک بڑے تعلقہ دار گھرانے کی بیٹی اور اتنے ہی بڑے گھرانے کی بہوتھیں بس وہ کانگریس سے وابستہ تھیں اور مسلمان تھیں وزیراعلیٰ شری کملا پتی ترپاٹھی نے اسی کو کافی سمجھا اور انہیں صدر بنادیا انہوں نے جس سے بھی مشورہ کیا ہو لیکن یقین ہے کہ حیات اللہ انصاری جیسے کسی اردو والے سے مشورہ نہیں کیا ہوگا۔
کام شروع ہواتو خاکہ صباح الدین صاحب بناتے تھے کام سب چیئرمین ملاصاحب کرتے تھے بیگم صاحبہ کی حیثیت بقول منور رانا ایک مصنوعی شخصیت جیسی تھی جس نے اپنی کوٹھی کے دوکمرے اکادمی کو سرچھپانے کے لئے دے دئے تھے۔ اس کے بعد بھی جب اکادمی قیصرباغ کی ایک حویلی میں منتقل ہوگئی اور اسٹاف بھی ماشاء اللہ کافی ہوگیا اور وہ سب لعنتیں بھی آگئیں یعنی فائل کا ایک میز سے دوسری میز کے سفر کے لئے کرارے نوٹ کے پہئے لگنے لگے اورناشتہ میں بھی دائیں بائیں ہونے لگا تب بھی بات ہمیشہ چیئرمین کی ہی آئی ہم ان بدنصیبوں میں ہیں جنہوں نے اکادمی کے قیام کے پہلے دن ہی مخالفت میں لکھا تھا کہ ہم نے اردو مانگی تھی اکادمی نہیں اس پر بھی اعتراض کیا تھا کہ جب اردو کو نہ چاہنے کے باوجود مسلمانوں کی زبان قراردے کر اس کے ساتھ سوتیلا برتاؤ کیا جارہا ہے تو پہلاچیئرمین ایک ہندو کیوں ؟جب کہ اردو کے آفتاب وماہتاب مسلمان بھرے پڑے ہیں ۔ اس کے کافی دنوں کے بعد جب اکادمی نے ایک عالمی اردو کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا تب بھی ہم ہی سر سے کفن باندھ کر تنہا نکلے تھے کہ کانفرنس تو نہ ہونے دیں گے اور پھر ہمارے ساتھ اتنے آگئے کہ کانفرنس کا پروگرام ملتوی کرنا پڑا اس وقت بھی مقابلہ کے لئے صدر صاحب نہیں آئے چیئرمین ہی سامنے رہے۔
ہم نے اکادمی کے اندر ہونے والی بدعنوانیوں کے متعلق جب زیادہ سخت لکھا تواس وقت چیئرمین محمود الٰہی صاحب تھے انہوں نے ملک زادہ صاحب کو درمیان میں ڈال کر ہم سے بات کرناچاہی۔ انہوں نے تو مذاکرات کے ایسے پروگرام بنائے جیسے ہندپاک مذاکرات کے ہوتے ہیں لیکن ہم نے ملک زادہ صاحب سے کہا کہ ہم اکادمی چل کر ہی ان سے بات کریں گے۔ او رجب ایک گھنٹہ تک گرم اور ترش گفتگو ہوچکی تو ہم ان کے ہاتھ میں بدعنوانی کے ثبوت دے کر اٹھے اور ان سے کہا کہ بے ایمانی کہ سربراہی اپنی جگہ لیکن ان کی صفائی کاذمہ آپ نہ لیجئے۔ منوررانا تو جانتے ہیں کہ اس وقت اپنے پریس کا کام میں خودہی دیکھتاتھا اورپوری اکادمی جانتی ہے کہ میں نے کبھی اکادمی کی کوئی کتاب نہیں چھاپی ۔ ایک کتاب رامائن فراقی میری عدم موجودگی میں میرے بیٹے کو کوئی صاحب دے گئے تھے اورکاغذ بھی ۔ میں نے واپس آکر فون کیا کہ اپنا سامان واپس منگوالیجئے میں چھاپ نہیں پاؤں گا الٰہی صاحب نے اصرارکیا تو میں نے کہہ دیا کہ پھر وقت کی قید نہیں جب بھی موقع ہوا چھپ جائے گی۔ آخر کارکئی مہینے کے بعد وہ بغیر چھپے واپس چلی گئی ۔
میں صرف یہ عرض کرنا چاہتاہوں کہ مجھے نہیں معلوم کہ کس کے اختیارات کیا ہیں؟لیکن ہم نے جب کبھی قلم کو لاٹھی بنا کر چلایا تو اس وقت کے چیئرمین ہی مقابلہ پر آئے کبھی کسی صدر سے ہماراسامنا نہیں ہوا۔ اب جوکچھ منوررانا نے کہا ہے تویہ سوچنا پڑاکہ ہرتنظیم کاصدر ہی حرف آخرہوتاہے پھر یہ بات کیوں سامنے آئی کہ تمام اختیارات تو چیئرمین کے ہی پاس ہیں ۔ میرے لئے یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ صدر باربار چیئرمین کے پاس جائے اور چیئرمین صدر سے مشورہ کرنے نہ آئے منوررانانہ صرف میرے بھتیجے جیسے ہیں بلکہ مجھے بہت عزیز بھی ہیں اورمیں اپنے معمولی سے علم کی حدتک یہ مانتاہوں کہ اس وقت ملک میں ان سے اچھا شعر کوئی نہیں کہہ رہا ہے ۔ رہے نواز دیوبندی تومیں انہیں صرف پہچانتاہوں جانتانہیں اس لئے کہ شاید کبھی ان سے ملاقات نہیں ہوئی ۔ اور میراجب دیوبند آنا جاناتھا توہ اتنے مشہور بھی نہیں تھے لیکن جب ان کا انتخاب ہواتو مجھے یقین تھا کہ وہ منوررانا کے بہت اچھے رفیق ثابت ہوں گے اس لئے کہ دونوں کا میدان ایک ہی ہے لیکن دوتین ہفتہ پہلے یہ منحوس خبر سنی تھی کہ حالات اچھے نہیں ہیں ۔
ہمیں مزید حیرت اعظم خاں صاحب کے رویہ سے ہوئی ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جیسے ہی انہیں دونوں کے درمیان معمولی سی دوری کی خبر ملی تھی اسی وقت وہ دونوں کوچائے پر بلانے اورمسئلہ کو اتنی خوبصورتی سے حل کرتے کہ اردوکے محل میں منوررانا کا بم نہ پھٹتا ۔ منور نے تو یہ لکھ کر مایوس کردیا کہ انہوں نے اعظم خاں صاحب سے متعدد بار ملاقات کاوقت مانگا نہیں ملا ۔ ٹیلی فون کئے جن کا جواب نہیں ملا ایس ایم ایس کئے وہ بھی ہوامیں تحلیل ہوگئے تو ۔پھر ہم کیسے کہیں کہ منور خدا کے لئے اکادمی نہ چھوڑو ہم نے اکادمی کی عمر میں پہلی بار سنہرے مستقبل کا اس وقت خواب دیکھا تھا جب منور اورنواز کی جوڑی نے اکادمی کو سنبھالا تھا ۔ اور جو کچھ لکھا تھا وہ دوچاربرس پرانی بات نہیں ہے ۔ ہم بھی بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ کمالؔ جائسی بہت قیمتی شاعر ہیں اوراکادمی کے دستورمیں کوئی گنجائش نہیں ہے تو اس کے لئے اعظم خاں صاحب کسی بھی مد سے ایک لاکھ روپیہ بھجواسکتے تھے ۔ منوررانا کا استعفیٰ صرف ایک فیصلہ نہیں ہے بلکہ یہ اس اکادمی کا مرثیہ ہے جو پیدائش سے اب تک اردو کو جتنا نقصان پہنچاسکتی تھی اس نے پہنچادیا ۔اور اب پھر ایسے ہی ہاتھوں میں جاتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے جواس کی بچی ہوئی ہڈیوں کو جلا کر اپنی روٹی سیکیں گے۔
حیرت اس پر ہے کہ ہندوستان کے دستورمیں سوبار ترمیم ہوچکی ہے پھر اکادمی کے دستورمیں ترمیم کیوں نہیں کی جاتی اگرواقعی صدرسے چیئرمین کے اختیارات زیادہ ہیں جوملا صاحب کے لئے بناہوگا ۔
جواب دیں