بنگلہ دیش میں ناگہانی صورت حال ہے

دو ر کنی وفد نے اقلیتوں کے سر کردہ لیڈروں اور بڑی سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کے علاوہ سماجی اور دینی جماعتوں کے ذمہ داروں سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔بنگلہ دیش پہنچنے پر اقلیتوں کے لیڈروں نے ارکان وفد کا خیر مقدم کیا ۔عوامی لیگ اور بی ا این پی کے اقلیتی فر قہ کی کئی ذ مہ دار شخصیتوں نے قیام گاہ پر ملاقاتیں کیں اور تین بڑی نشستوں کا اہتمام کیا ۔ مائنور یٹی پارٹی آف بنگلہ دیش نے وفد کو اپنے دفتر میں مدعو کیا۔تفصیل سے ان کے لیڈروں نے اقلیتوں خاص طور سے ہندؤں کے حالات پر روشنی ڈالتےء ہوئے کہا کہ ملک کے کسی حصّہ میں بھی فرقہ وارانہ فساد ہوتا ہے توساری سیاسی جماعتیں ایک ہو جاتی ہیں اور ہندؤں کی جان ومال،عزت و آبرو پر جو حملہ ہوتا ہے کسی کی طرف سے مزاحمت نہیں ہوتی ۔پولس تماشائی بنی رہتی ہے ۔ہندؤں کی کوپریٹو سوسائٹی کے سکریٹری ہیرا لال بلہ نے جو حکومت بنگلہ دیش میں جوائنٹ سکریٹری رہ چکے ہیں۔تین جلدوں پر مشتمل ایک کتاب دکھا ئی جسمیں ہندؤں کے حالات درج ہیں ۔کتاب میں مصنف کا نام ہمایوں کبیر لکھا ہوا تھا۔بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی )کے تر جمان ، جوائنٹ سکریٹری جنرل اور بنگلہ دیش سپریم کورٹ کے وکیل محمد روحل کبیر رضوی نے ارکان وفد کو اپنے دفتر میں بتایا کہ عوامی لیگ اور ان کے حلیفوں کو محض ۵ فیصد ووٹ ملے ہیں یہی وجہ ہے کہ ملک میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی ہے۔ایک معمولی جلسہ یا میٹنگ اپوزیشن کی کوئی پارٹی نہیں کر سکتی ہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کا دفتر تو کھلا ہے مگر بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کا دفتر بند ہے توانہونے کہا کہ جماعت پر حکومت کا نشانہ شدیدہے ۔ا نہوں نے کہا کہ ان کے تمام بڑے لیڈران جیلوں میں ہیں۔کارکنان کو ہر طرح سے خوف زدہ کیا جا رہا ہے ۔حکومت ہند کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ایک ملک کو عوام سے عوام کا رابطہ ہونا چاہئیے نہ کہ کسی مخصوص پارٹی سے تعلق خاص رکھنا چاہئے اس سے ایک جمہوری ملک کی شان بڑھتی نہیں بلکہ گھٹتی ہے۔ ہندوستان میں الیکشن کے بعد آنے والی نئی حکومت سے انہوں نے امید ظاہر کی کہ وہ بنگلہ دیش کے عوام سے بے تعلق نہیں رہے گی بلکہ عوام سے تعلق پیدا کرے گی۔
عوامی لیگ کے ایک سرکردہ لیڈر نے وفد کو ایک ملاقات میں بتایا کہ اپوزیشن کے الزامات صحیح نہیں ہیں جب ان سے پوچھا گیا کہ اپوزیشن کے اخبارات اور ٹی وی چینل بند کر دئے گئے ہیں اپوزیشن کے لیڈروں کی اندھا دھند گرفتاریاں ہو رہی ہیں تو انہوں نے جواب میں کہا کہ یہ امن و امان کے لئے کیا گیا ہے ۔ اسی روز اخبار میں حقوق انسانی کے چیرمین میزان ا لرحمٰن کا ایک بیان شائع ہوا تھا کہ اقلیتوں پر حملہ زیادہ تر عوامی لیگ کے لوگ کرتے ہیں اس بیان کی طرف جب عوامی لیگ کے لیڈر کی توجہ مبذول کرائی گئی تو انہوں نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔
بی این پی کے جوائنٹ سکریٹری جنرل سے جب اس بیان پر پوچھا گیا کہ آخر ان ناگہانی حالات میں میزان الرحمٰن نے کیسے بیان دیا تو انہوں نے کہا کہ وہ ڈھاکہ یونیورسٹی کے پروفیسر رہ چکے ہیں انکے بھی ٹیچر تھے ۔عوامی لیگ کے قریب ہونے کے باوجود وہ اچھے آدمی ہیں ۔بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے لیڈروں سے بمشکل وفد کی ملاقات ہوئی ان لوگوں نے بتایا کہ ان کی نقل و حرکت آزادانہ(freemovement)نہیں ہے کیونکہ جماعت کے لیڈروں کو دیکھتے ہی گرفتار کر لیا جاتا ہے ۔چند لوگ ضمانت پر ہیں باقی تمام بڑ ے لیڈران جیل میں ہیں ۔جماعت کے پچاس ہزار سے زائد افراد قیدوبند کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ جماعت کے لٹریچر پر پابندی عائدہے یہاں تک کہ تفہیم القرآن کو بھی پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔جماعت کی ساری کتابوں کو جہادی بتا کر پڑھنے شائع کرنے اور خریدو فروخت کی اجازت نہیں ہے ۔جماعت کے اخبارات اور ٹی وی چینل بند ہیں ۔ ایک روز نامہ سنگرام سینسر شپ سے گذر کر کسی طرح شائع ہو رہا ہے ۔جماعت کے سب سے بڑے لیڈر پروفیسر غلام اعظم اسپتال میں زیر علاج ہیں ان پر پولس کا پہرا ہے ۔
وفد کے ارکان نے بتایا کہ بنگلہ دیش میں مصنوعی طور پر اسلام اور اینٹی اسلام (Anti -Islam) کی فضا بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ شاہ باغ اسی کوشش کی ایک کڑی تھی ۔ ہندؤں میں سے صاف ستھرے ذہن کے لوگ اسکو ناکام بنانے کے لئے آگے آ رہے ہیں کیونکہ اس سے جتنا اسلام کا نقصان ہو رہا ہے اس سے کہیں زیادہ غیر مسلموں کا ہے۔ اترپردیش کے جوائنٹ ایڈیٹر س سنجیب چودھری نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ حفاظت ا سلام حفاظت انسان ہے انہوں نے لکھا کہ چھ اپریل کو شپلا چھاتر ( لوٹس اسکوائر ) جو ڈھاکہ شہر کا سب سے بڑا میدان ہے انسانوں کا سمندر نظر آرہا تھا مگر اسلام کی حفاظت کے نام پر ایک ایک ایسا فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا اجتماع تھا کہ ہندو نوجوان ریلی میں موجود شرکاء کی ہر طرح سے مدد کر رہے تھے ا نہیں پانی پلا رہے تھے اور کھانے کے پیکٹ تقسیم کر رہے تھے ۔یہ مضمون بنگلہ دیش کے چار بڑے اخباروں میں سے ایک’’ امر دیش ‘‘میں ۱۱ اپریل ۲۰۱۳ ؁ء کوشائع ہوا تھا۔ اب اس مضمون کو کتابچہ کی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔

«
»

کیا یہی ہے تہذیبوں کی جنگ

ممبرا میں پولیس کی دہشت گردی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے