بنگلوربم دھماکے کے حوالے سے

یہ شائع کیا گیا کہ یہ پانچوں دسمبر۲۰۱۳ء سے لے کرستمبر۲۰۱۴ء تک فرضی شناخت ناموں کے ساتھ کرناٹک کے مختلف علاقوں میں مقیم تھے۔انگریزی اخباروں میں شائع شدہ خبروں میں یہ بھی بتایاگیا کہ وہ پانچوں پہلے سے بھی مختلف معاملوں میں ملزم ہیں،۱؍فروری ۲۰۱۴ء میں تلنگانہ کے کریم نگر ضلع کے ایک ایس بی آئی برانچ سے ۴۶؍لاکھ روپے چوری کی واردات ان ہی لوگوں نے انجام دی تھی،۱؍مئی ۲۰۱۴ء کو بنگلور۔گوہاٹی ایکسپریس میں چنئی سینٹرل پر ہونے والے دھماکے میں ان ہی کا ہاتھ تھا،۱۰؍جولائی۲۰۱۴ء کو پونے کے گنیش مندرکے نزدیک ہونے والے بم بلاسٹ میں بھی اُن پر شبہ ہے ،۶؍دسمبرکورُڑکی میں وشو ہندو پریشد کے اجلاس کے دوران جلسہ گاہ کے قریب ایک بم پھٹا،جس میں ایک ۱۲؍سالہ طالبِ علم کی موت ہوگئی تھی،اس میں بھی کالعدم تنظیم سیمی کے ان ہی پانچ لوگوں پر الزام ہے اور ۱۲؍ستمبر۲۰۱۴ء کویوپی کے بجنورمیں حادثاتی طورپر ہونے والے ایک بم بلاسٹ میں بھی ان ہی پانچوں کاہاتھ تھا،جس کاپتا تفتیشی ایجنسیوں کوبجنورکے اُس گھرمیں ملنے والے موبائل فون سے چلاتھا،جہاں وہ لوگ ٹھہرے ہوئے تھے، ہمارے ملک کی تفتیشی ایجنسیوں کی کمالِ ہوشیاری ملاحظہ ہوکہ اتنے ہی پر بس نہیں کیاگیا؛بلکہ موبائل فون کے ساتھ اس کلینک کا بھی اُنھیں پتاچل گیا، جہاں سیمی کاایک رکن(محبوب)اچانک بم پھٹنے کی وجہ سے زخمی ہونے کے بعد مرہم پٹی کروانے گیا تھا،اسی طرح مذکورہ ایس بی آئی برانچ سے بھی اُنھیں کچھ ثبوت ملے،جوان ہی پانچوں کی جانب اشارے کر رہے تھے، تفتیشی ایجنسیوں کے حوالے سے ۳۰؍ دسمبر کو انگریزی اخبار’دی انڈین ایکسپریس‘میں شائع شدہ خبر کے مطابق ان کے کال ڈاٹااورسیم کارڈس کی چھان بین سے معلوم ہواکہ ان لوگوں کا رابطہ ایک بڑے وسیع اور مضبوط دہشت گردنیٹ ورک سے ہے،جوکم ازکم ملک کی بارہ ریاستوں میں سرگرم ہے۔ان ہی فون نمبروں میں سے ایک ریلائنس کمپنی کا نمبرہے،جوکرناٹک میں استعمال کیاجارہاتھااوروہ دھروادکے مکان مالک شیواجی راؤکولکرنی کی آئی ڈی پر حاصل کیا گیاتھا،تفتیش کاروں کو ’ذرائع ‘سے معلوم ہواہے کہ دسمبر۲۰۱۳ء سے لے کر مارچ ۲۰۱۴ء تک مذکورہ شخص کے گھرپرسیمی کے ان ہی پانچ ارکان میں سے تین فرضی ناموں اور فرضی آئی ڈی کے ساتھ قیام پذیر تھے۔ مذکورہ اخبارنے اپنے ۳۱؍دسمبرکے شمارے میں کرناٹک کے ایک سینئرپولیس افسرکے حوالے سے لکھا کہ’این آئی اے اور دوسری تفتیشی ایجنسیاں،جومسلسل ہمارے رابطے میں ہیں،ان کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ چنئی،پونے اور رڑکی بم بلاسٹ میں جوکیمیکل اورطریقہ استعمال کیاگیا تھا،وہی بنگلورکے حالیہ بم بلاسٹ میں بھی استعمال کیاگیاہے‘۔تفتیش کایہ عمل ابھی جاری ہے اورابھی اُن آلات،ذرائع اور طریقوں کی پوری کھوج بین ہورہی ہے اورہمارے ملک کی نام نہاد تفتیشی ایجنسیوں کا پورازوراس پر ہے کہ چاہے جتنی بھی دورکی کوڑی لانی پڑے ،لاکریہ ثابت کرکے رہناہے کہ بنگلوربم دھماکے میں سیمی کے اُن ہی پانچ لڑکوں کا ہاتھ ہے اوراس کا تاربھی،گزشتہ چنئی،پونے،بجنور اور رڑکی کے بم دھماکوں سے ہی جڑا ہوا ہے۔یہ سب چل رہاہے،مگر اس کے ساتھ ساتھ اِس پورے معاملے میں ایک نیا Twist تب پیدا ہوگیا ،جب ۳۰؍ دسمبرکوانگریزی کے ایک اور بڑے اخبار’ہندوستان ٹائمس‘نے ایک خبر شائع کی،جوایک دم سنسنی خیز؛بلکہ دھماکہ خیزتھی،اخبار نے لکھاکہ سموارکوایک نابالغ ہندولڑکاسٹی پولیس کے ذریعے گرفتار کیا گیا، جو ٹوئٹرکے ذریعے بنگلورمیں مزید بم دھماکوں کی دھمکی دے رہاتھا۔اخبار نے اس لڑکے اوراس کے ٹوئٹس کے حوالے سے مزید تفصیل فراہم کرتے ہوئے لکھاکہ وہ لڑکاانجینئرنگ کے پہلے سال کا طالب علم ہے، اس نے ’عبدل خان‘کے فرضی نام سے ایک ٹوئٹراکاؤنٹ بنارکھاتھا،اس نے بنگلورچرچ اسٹریٹ میں اتوارکے روز(۲۸؍دسمبر)ہونے والے بم دھماکے کی ذمے داری بھی قبول کی ،اس نے اپنے ایک ٹوئٹ میں مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھاتھاکہ اگر سابق آئی ایس آئی ایس ٹوئٹراکاؤنٹ ہولڈرمہدی بسواس کورہانہیں کیاجاتا ہے،تومزید بم بلاسٹ ہوں گے،وہ اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھتاہے’میرانام عبدل ہے اور میں کل ہونے والے بنگلوربم بلاسٹ کے ذمے داروں میں سے ایک ہوں،اگلے دودنوں میں دواوربم بلاسٹ ہوں گے،یہ میراچیلنج ہے، اگر تم مجھے پکڑسکتے ہو تو پکڑ لو‘۔ اخبارنے آگے یہ بھی لکھاہے کہ اس کے والدین کا کہناہے کہ ان کالڑکا دماغی خلل کا شکار ہے اور اس کا علاج چل رہاہے۔پولیس نے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کیاہے اوراب وہ اپنے ’روایتی طریقے ‘ سے یہ پتالگانے میں جٹ گئی ہے کہ وہ لڑکا واقعی نابالغ ہے یانہیں؟اوردماغی طورپر واقعتاً اس کوکوئی پرابلم ہے یانہیں؟
یوں بھی بی جے پی کے حکومت میں آنے کے بعد سے جہاں آرایس ایس،وشوہندوپریشد،بجرنگ دل،ہندویواواہنی اور نہ جانے ہندواتواکے سرطان میں مبتلا کتنی ہی شدت پسندہندوجماعتیں ہیں،جن پر اس ملک کو ہندواسٹیٹ بنادینے کا جنون سوارہے،مگر خود یہ حکومت بھی اس ملک کی اقلیتوں کو’سلوپوائزن‘کے ذریعے قریب المرگ بنادینے کی پوری تیاری میں ہے۔قومی سلامتی کے مشیراجیت ڈوبھال ہیں،جن کی جانب دارانہ؛بلکہ متعصبانہ شبیہ کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے اورتیسری جانب ہمارے ملک کی تفتیشی ایجنسیاں ہیں،جوماضی میں بھی مفروضوں کی بنیاد پر حقائق کی عمارتیں چنتیں اور بے قصور مسلم نوجوانوں کو بلی کا بکرابناتی رہی ہیں،مالیگاؤں بم دھماکے سے لے کرحیدرآبادکی مکہ مسجد اوراجمیرشریف کی درگاہ تک پر ہونے والے بم دھماکوں اُن ایجنسیوں کے سفاک و عیار تفتیش کاروں نے نہ جانے کتنے مسلم نوجوانوں کوکٹہرے میں کھڑاکیا،ان کی شبیہ کو داغ دار،ان کی زندگی کو اجیرن،ان کے خاندان کو تباہ و برباد اوران کے بہانے سے ہندوستان بھر کے مسلمانوں کو شکوک و شبہات کے دائرے میں لاکھڑاکیا۔ان کے پاس اپنی ناکامی و ناکارگی کوچھپانے کا معقول راستہ یہی ہے کہ وہ ہربم دھماکے کے بعدچندمسلم نماچہروں کا اسکیچ جاری کرتے ہیں،پھرملک کے کسی بھی خطے اور گوشے سے ان سے ملتے جلتے معصوم مسلم نوجوانوں کو اٹھالیتے ہیں اور پھرظلم و بربریت اور وحشت و درندگی کے نت نئے حربوں کے ذریعے اُن سے وہ سب بھی اُگلوالیتے ہیں،جن کا اُن بے چاروں کے دل دماغ میں کبھی خیال بھی نہیں گزراہوتا،’سیمی ‘تو عرصہ ہوا کالعدم ہوچکی ،مگرانڈین مجاہدین کا تواب تک وجودبھی مشکوک و مشتبہ ہے؛لیکناس کے باوجوداس قسم کے فرضی ووہمی گروپ ہمارے ملک کی تفتیشی ایجنسیوں کوبم دھماکوں کے ماسٹرمائنڈفراہم کرتے ہیں۔ ہمارے ملک کی تفتیشی ایجنسیوں کایہ’ذرائع‘والامعمہ بھی خوب ہے،ان کی تمام تر معلومات ’ذرائع‘ہی پر منحصرہوتی ہیں؛کیوں کہ جوجانچ افسران ہوتے ہیں،انھیں آفس اٹینڈ کرنے سے ہی فرصت نہیں ہوتی!
مثال کے طورپر حالیہ بنگلوربم بلاسٹ کے معاملے میں تفتیشی ایجنسیوں کودیکھیے کہ وہ کہاں کاتارکہاں سے ملانے اوربھان متی کا کھمباجوڑنے میں کس قدر عرق ریزی سے مصروف ہیں اور جو کہانی ان کے ذریعے ’ذرائع‘کے حوالے سے اخباروں میں شائع ہوئی ہے،وہ ایسی مرتب ہے کہ دیکھنے ،سننے اور پڑھنے والے کو پہلی نظر میں ہی لگے کہ واقعتاً اس حادثے کے پسِ پشت ان ہی پانچوں کا ہاتھ ہے،مگرپھراُس فرضی ’عبدل خان‘کاکیا،جوپوری دلیری کے ساتھ ملک کی پولیس حتی کہ وزیر داخلہ کوبھی چیلنج کر رہاہے اوریہی نہیں؛بلکہ وہ واضح طورپربنگلور بم بلاسٹ کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے یہ دھمکی بھی دے رہاہے کہ اگلے دنوں میں مزید دھماکے کیے جائیں گے؟بنگلوربم بلاسٹ کے تعلق سے سامنے آنے والے اِس نئے پہلو پر ہمارے قومی میڈیانے اُس طرح فوکس نہیں کیا،جس طرح کہ اس نے متعصب تفتیشی ایجنسیوں کی گھڑی ہوئی دلیلوں کی بنیاد پراس واقعے میں سیمی کے ملوث ہونے کی بات گلا پھاڑپھاڑکرکی۔ اس لڑکے کااپنے ٹوئٹ میں وزیرداخلہ سے مہدی بسواس کی رہائی کا مطالبہ کرنابھی اِس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ ہونہ ہو نام نہاد آئی ایس آئی ایس کاسابق ٹوئٹر اکاؤنٹ ہولڈربھی ہندوہی ہو اور مزیدگہرائی میں جانے کے بعدکچھ اور ہی حقیقت سامنے آئے،اُس حقیقت کے برعکس، جو بظاہر پھیلائی گئی ہے۔ جہاں تک بات اس ۱۷؍سالہ لڑکے کے دماغی طورپر غیر متوازن ہونے کی ہے،تویہ سراسر بکواس ہے اوراس کے ماننے کی کوئی بھی معقول وجہ
نہیں ہوسکتی۔مگرافسوس اور حیرت ہے ہمارے ملک کی تفتیشی ایجنسیوں کے طریقۂ کارپرکہ اگرانھیں کسی مسلمان کے بارے میں ذرابھنک لگ جائے،چاہے وہ واقعتاً پاگل ہی کیوں نہ ہو،کہ اس کا فلاں بم دھماکے سے تعلق ہوسکتاہے،تواس بے چارے کوزدوکوب اور جسمانی ،دماغی و ذہنی اذیتوں کی کتنی ہی ہلاکت ناک وادیوں سے گزاراجاتااوربالآخراُسے ایک بھیانک دہشت گردبناکررکھ دیاجاتا ہے،مگراب تک اُس لڑکے کو پوچھ تاچھ اور تفتیش کے ابتدائی مراحل سے بھی نہیں گزاراگیا ،اب ع
آپ ہی بتلائیں ہم بتلائیں کیا؟
کیااسی قسم کے دوہرے تفتیشی رویے سے ہم یہ امید رکھیں کہ قومی سلامتی میں بہتری آئے گی،کسی ہندودہشت گرد کے مسلم نام یا مسلمانوں والی شبیہ اختیار کرکے دہشت گردانہ واقعہ انجام دینے کی یہ کوئی پہلی مثال نہیں ہے،پہلے بھی اس طرح کی دسیوں وارداتیں ہوچکی ہیں،مگرجانچ کے نام پربے قصوروں کوٹارگیٹ کرنے والی اِن تفتیشی ایجنسیوں کاکیاکیجیے کہ یہ ہربم دھماکے،دہشت گردانہ واقعے کے بعداس واقعے کی واقعیت پسندی کے ساتھ جانچ کی بجاے پہلے سے تیارشدہ کہانی میڈیاکے حوالے کرنے اورچندمعصوم و بے داغ چہروں کوپابندِ سلاسل کرنے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتیں اور جب کبھی کسی واقعے کا اصل رخ سامنے آتاہے،تواُسے اِس طرح اَن دیکھاکردیاجاتا ہے کہ گویا وہ’لاشء‘ہے،ذرۂ بے مقدار ہے اوراس واقعے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ویسے توہندی مسلمانوں کے ساتھ جابرانہ تفتیش کاری کایہ کھیل ایک عرصے سے جاری ہے،یوپی اے حکومت کے زمانے میں بھی جاری تھا،مگر ایسا لگتاہے کہ اَب یہ کھیل کھل کر کھیلنے کی تیاری کی جاچکی ہے،ع
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟ 

«
»

سنگھ پریوار کی ہٹلری کے خلاف نئی نسل کا اعلان جنگ

جدید اردو صحافت کے معمار کا انتقال

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے