محمد اظہر شمشاد مصباحی (برن پور بنگال)
ہندوستان ایک عظیم ملک ہے جس کی شان و شوکت عظمت و رفعت مشرق سے لے کر مغرب تک ہر فرد کے ذہن و دماغ کو جھنجھوڑ کر اپنے عظیم ہونے کی گواہی دینے پر آمادہ کر رہی ہے اور اس میں کوئی قیل و قال نہیں کہ آج جس حیثیت اور طاقت و قوت کے ساتھ امریکہ ساری دنیا میں سر فہرست ہے اس کہیں زیادہ آگے ہندوستان ہو سکتا تھا اگر ہمارے ہندوستانی لیڈران ایمانداری سے اپنے امور انجام دیتے اور ان کے ناکامیوں پر میڈیا کے ذریعہ پردہ پوشی نہ کی جاتی یوں تو اعلی فہم و فراست کے مالک لوگ ہمیشہ اپنا موازنہ اپنے سے بہتر لوگوں سے کرتے ہیں لیکن اگر آپ انڈین نیوز چینل دیکھیں تو وہاں مختلف پارٹیوں کے بڑے بڑے لیڈران اور ان کے ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے نیوز اینکر بڑے فخر کے ساتھ اپنا موازنہ پاکستان،بنگلہ دیش اور کمزور ملکوں کے ساتھ کرتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم ان سے بہتر ہیں بے شک ہم ان سے بہت سی چیزوں میں بہتر ہیں لیکن بہت سی چیزوں میں پیچھے بھی ہیں حالانکہ ہمارا ان سے یا کسی سے کوئی موازنہ نہیں علامہ اقبال نے بہت پہلے ہی ایک شعر کہا تھا" سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا" اب اگر کسی ملک سے ہم اپنا موازنہ کریں اور وہ بھی کمزور ملک سے تو یہ ہمارے لیے فخر کی بات نہیں بلکہ اس میں حد درجہ ہماری توہین ہے کیونکہ شیر بن کر تنہا گمنام رہنا بہتر ہے مشہور و معروف بھیڑیا ہونے سے جس دیش کو خوش حال،مضبوط اور ساری دنیا میں سر بلند ہونا چاہیے تھا آج وہ دیش خستہ حال ہے اور وہاں کے لوگ بھوک مری کے شکار ہیں رپورٹ کے مطابق ہندوستان بھوک مری کے معاملے میں پاکستان بنگلہ دیش سے بھی آگے ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے گیس سلنڈر پٹرول ڈیزل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے مظلوم غریبوں کا حال نا گفتہ بہ ہے ایک غریب اگر دن میں سو روپے کماتا ہے تو سرکار کی مہربانیوں سے اس کا خرچ ڈیڑھ سو ہوتا ہے جس کی تاب نہ لا کر عزت نفس کے خاطر بہت سے غریب خود کشی کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تازہ ترین رپورٹ کے مطابق امبانی اڈانی کی دولتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور وہیں غریب،مزدور اور کسانوں کی خودکشی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سرکار چند چنندہ امیر لوگوں کی تجوری بھرنے میں کس حد تک کوشاں ہے چاہے اس کے لیے ریلوے بیچنا پڑے یا ایئر پورٹ یا پھر غریب کے جسم کا آخری قطرہ خون ہی کیوں نہ چوسنا پڑے اگر اس کے خلاف کسی نے آواز اٹھائی تو حکومت اپنے مخالفین کی چاہے وہ سیاسی مخالفین ہو یا پھر ڈاکٹر ہو، بزنس مین ہو، اداکار ہو، وکیل ہو،صحافی ہو،یا عام آدمی ہو زندگی اجیرن کر دیتی ہے اور اس کے خلاف نہ صرف سی بی آئی بلکہ پولیس،انکم ٹیکس،نارکوٹک ڈپارٹمنٹ وغیرہ بھی لگا دیتی ہے جس کی وجہ سے کچھ شخصیات اپنی زبان کو جنبشِ نہ دینے میں ہی بھلائی گمان کرتے ہیں ابھی کچھ ہی دن پہلے ممتا بنرجی کے قریبی اور رشتہ دار ابھیشیک بنرجی نے امت شاہ کے خلاف ایک کیس کیا تھا جس پر عدالت نے امت شاہ کو حاضر ہونے کا حکم بھی دیا تھا اس کے کچھ ہی دن بعد سی بی آئی ابھیشیک بنرجی کے گھر پہنچ گئی اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت اپنے مخالفین پر لگام کسنے کے لیے کیا کر سکتی ہے کسی محقق نے بہت پہلے کہا تھا کہ اگر کسی بھی ملک پر حکومت کرنا ہے تو وہاں کے لوگوں کو دو گروہ میں بانٹ دو اور ایک دوسرے کو آپس میں متنفر کر دو جس پر عمل کرتے ہوئے انگریزوں نے ہم ہندوستانیوں کو سالہا سال غلام بناۓ رکھا آج اسی نقش قدم پر چلتے ہوئے ہمارے سیاسی لیڈران ہندو مسلم کا شوشہ کھڑا کر کے آپس میں لڑا کر بڑے آرام سے حکومت کر رہے ہیں اور اس کا شکار ہو کر کچھ لوگ اس قدر اندھ بھکت ہو چکے ہیں کہ پٹرول ڈیزل گیس سلنڈر اور دیگر اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہے اگر ان سے بڑھتی ہوئی قیمتوں کے متعلق گفتگو کی جائے تو بڑے فخریہ انداز میں جاہلانہ عقل سے پرے بات یہ کہتے ہیں کہ شیر پالا ہے تو خرچہ اٹھانا ہی پڑے گا یہ بات مضحکہ خیز ہے مگر سادہ لفظوں میں اس کا جواب یہ ہے کہ شیر پالنے سے جب کوئی فائدہ ہی نہ ہو تو ہم شیر کیوں پالے اس سے بہتر کتا پال لیں کیوں کہ اس کے اندر وفاداری بھی ہوتی ہے اور پھر یہ کہ شیر جنگل کا راجہ ہوتا ہے اگر وہ جنگل میں جنگلی جانوروں کے درمیان حکومت کرے تو بہت اعلی لیکن اگر وہ شہر آبادی میں انسانوں کے درمیان حکومت کرے تو اس کا انجام بہت برا ہوگا جو ہمارے قیاس اور غور و فکر سے باہر ہے غریب سادہ دل عوام لیڈران کے جھوٹے وعدے میں آکر اس امید پر ووٹ دیتے ہیں کہ یہ پارٹی ضرور ان کے زخم پر مرہم کرے گی پر بر سر اقتدار آنے کے بعد وہی پارٹی زخم پر مرہم کرنے کے بجائے زخم کریدنے میں لگ جاتی ہے جس کا ملاحظہ سب ہی لوگ کر رہے ہیں اب ایسے میں بنگال کے کچھ لوگ تشویش میں مبتلا ہے آخر وہ ووٹ دیں تو کسے مودی کو یا ممتا کو اگر ممتا کو دیتے ہیں تو مودی بھکتی جاتی ہے اور اگر مودی کو دیتے ہیں تو یہ ڈر ہے کہ کہیں وہ دیگر ریاستوں کی طرح بنگال کا بھی حال نہ کر دے بنگال انتخاب میں سب سے زیادہ توجہ کا مرکز مسلمان ہیں کیونکہ بنگال میں بہت ساری سیٹوں کا فیصلہ مسلمان کرتے ہیں ایسے میں مسلمانوں کو سوچ سمجھ کر عقلمندی سے اپنے حق کا استعمال کرنا ہوگا کیوں کہ اس بار کا الیکشن قدرے مختلف ہے ہر بار کے الیکشن میں ٹی ایم سی،بی جے پی،سی پی آئی ایم اور کانگریس کے درمیان گھمسان ہوتا تھا لیکن اس بار دو ایسی پارٹیاں بھی ہیں جو مسلمانوں کے خیر خواہ کے طور پر سامنے آئے ہیں ایک ایم آئی ایم اور دوسری فرفرہ شریف اور ان دونوں پارٹیوں کے ووٹ کا اصل مرکز مسلمان ہیں اگر بی جے پی کو بنگال میں آنے سے روکنا ہے تو مسلمانوں کو اپنا ووٹ تقسیم نہ کر کے کسی ایک پارٹی کو ووٹ دینا ہوگا اگر کچھ مسلمان ایم آئی ایم کو ووٹ دیں اور کچھ فرفرہ شریف کو تو ووٹ تقسیم ہوگا جس کا سیدھا فائدہ بی جے پی کو ہوگا اور جہاں تک میری ناقص رائے ہے ایم آئی ایم بہترین پارٹی بن کر لوگوں کے درمیان مقبول ہو کر ابھر رہی ہے مسلمانوں اور دیگر طبقہ کے لوگوں کے لیے فلاح و بہبود کا کام بھی کر رہی ہے لیکن بنگال انتخاب میں ایم آئی ایم کا حصہ لینا نقصان دہ ثابت ہوگا کیوں کہ اگر وہ بنگال میں انتخاب لڑے گی تو مسلمانوں کا ووٹ تقسیم ہوگا اور بی جے پی کو فائدہ ہوگا اور اگر زیادہ فائدہ ہوا تو وہ بر سر اقتدار بھی آ سکتی ہے جو کہ ایم آئی ایم کے صدر اسدالدین اویسی کبھی نہیں چاہیں گے اس لیے اس انتخاب میں انہیں حصہ نہیں لینا چاہیے کیونکہ بربادی روکنے کے لیے قدم پیچھے ہٹا لینا بھی عقلمندی کے دلیل ہے اس کے با وجود اگر وہ بنگال انتخاب میں حصہ لیتے ہیں تو مسلمانوں کو چاہیے کہ متحد ہو کر کسی ایک کو ووٹ دیں تاکہ ان کا ووٹ برباد نہ ہو اگر رپورٹ دیکھا جائے تو ریاست بنگال ان ریاستوں سے حد درجہ بہتر ہے جس میں بی جے پی کی حکومت ہے اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بی جے پی سے بہتر کوئی دوسری پارٹی ہو سکتی ہے حالانکہ بنگال انتخاب جیتنے کے لیے بی جے پی خوب محنت کر رہی ہے اور ہر ہفتے اپنے بڑے بڑے لیڈروں کو بھیج کر یہاں کے عوام کا دل جیتنے کی کوشش میں لگی ہے اور بڑے بڑے وعدیں بھی کر رہی ہے جب کہ ممتا بنرجی اپنے کام پر ووٹ مانگ رہی ہے نہ کہ جملوں پر اور اکیلے پورے بی جے پی کے سامنے شیرنی کی طرح سینہ سپر ہے اس کے باوجود کہ پارٹی کے کئی بڑے بڑے لیڈروں نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کر لی ہے تنہا بی جے پی جیسی بڑی پارٹی کا مقابلہ کرنا بہت بہادری کا کام ہے ان ساری سیاسی داؤ پیچ میں مسلمانوں کا رول بہت اہم ہے اس لیے مسلمانوں سے گزارش ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر عقلمندی سے متحد ہو کر جو سب سے بہتر اور بر سر اقتدار آ سکے اسی پارٹی کو ووٹ دیں اور اپنے حق رائے دہی کا صحیح استعمال کریں کیونکہ جو پارٹی صرف چند سیٹوں سے لڑ رہی ہے اس کے جیت جانے کے بعد بھی حکومت اس کی نہیں بن سکتی پر اس سے بی جے پی کو فائدہ ضرور ہو سکتا ہے
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں