بنگال کے انتخابات ۔۔۔۔یوپی الیکشن کا پیش خیمہ ثابت ہو!!

 از : ڈاکٹر آصف لئیق ندوی  (عربی لیکچرار مانووصدر رابطہ خیر امت ، انڈیا)

پورے ملک کو بنگال کے اسمبلی اور ضمنی الیکشن اور ممتا بنرجی کی بھوانی پورحلقہ سےہیٹ ٹرک والی شاندار جیت نے انگشت بدنداں کردیا!یقیناً۲۰۲۱ء میں بنگال کے اسمبلی اور ضمنی الیکشن میں ممتا بنرجی کی جیت جہاں جمہوریت پسند لوگوں کے لئے حوصلہ افزا اور نیک تمناؤں کا باعث ہے، وہیں فرقہ پرست پارٹیوں کی زبردست ہار انکی غلط پالیسیوں پر ایک بدنما داغ بھی ہے، اسی طرح شرپسند عناصر اور شدت پسند تنظیم کے لئے ایک بڑا سبق ہے اور ان تمام سیاسی لیڈروں اور نیتاؤں کیلئے بھی بڑا لمحہ فکریہ ہے جو ملک میں انسانیت، رواداری، امن و چین اور یکجہتی و یگانگت کا گلا گھونٹ کر رکھ دینا چاھتے ہیں! ملک کے دستور کیساتھ مذاق اور آئین کیساتھ کھلواڑ کرنا چاھتے ہیں اور جو اپنی ہی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کیساتھ ناانصافی و حق تلفی کو روا رکھنا چاھتے ہیں!یہانتک کہ ملک میں ہوتے ہوئے انکے خلاف ظلم و زیادتی اور خونی وارداتوں کو بند کرانے کے بجائے اسے مزید ہوا دے رہے ہیں، کیونکہ ملک کے ارباب اقتدار کی بہت بڑی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ انصاف کے توازن کو برقرار رکھے اورمظلوموں کے ساتھ عدل و انصاف کوزیادہ فروغ دے، انکے قتل و خون کے خلاف کوئی ٹھوس اقدامات اٹھائے اورکوئی مناسب  اورمستحکم قانون وضع کرے، جس سے ظلم و زیادتی پرمکمل قدغن لگ سکے اور یہ سلسلہ بالکلیہ بند ہو جائے! مگر…برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا۔۔۔۔ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا؟

افسوس کہ موجودہ ارباب اقتدار کی ہی پشت پناہی میں بعض ایسے کام انجام دئے جارہے ہیں اور ایسے ایسے قوانین بن رہے ہیں  جن کو سنکر اور دیکھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ شرپسند عناصر کیساتھ گودی میڈیااور پولیس محکمے اور حفاظتی دستے کے بعض افراد نفرت وعداوت کی آگ میں پھنس کر انسانیت سے  بالکل عاری ہوگئے ہیں۔ یا انکے اندرسے انسانیت ہی مر چکی ہے، جو اقلیتوں کی آبادی پر اسطرح گولیاں چلاتے ہیں جیسے کوئی کسی جانور کا شکار کررہے ہوں جہاں تڑپتے جسم اور لاش کو ایک انسان اپنے پیروں سے اسطرح روندتا ہے! وہاں ایک جانور بھی اپنے بچے پر لاشعوری طور پر بھی پیر رکھنا بھی گوارہ نہیں کرتا۔جیسا کہ ابھی آسام میں یہ تازہ سانحہ پیش آیا، جس میں معین الحق کی تڑپتی باڈی کیساتھ  بے حرمتی کی گئی ،کئی بے گناہ مسلمانوں کی جان چلی گئی اور کتنے افراد زخمی ہوگئے  اوراکثریت کے گھروں کو اجاڑ دیا گیا۔  کلیم عاجز کے اشعار سے اسکی صحیح عکاسی  ہوتی ہے کہ

اب انسانوں کی بستی کا یہ عالم ہے کہ مت پوچھو

لگے ہے آگ اک گھر میں تو ہمسایہ ہوا دے ہے

افسوس تو اسوقت اور مزید بڑھ جاتا ہے جب حکومت بھی ان کاموں میں شریک ہو، مظلوموں کو آسرا دینے کے بجائے انکے خلاف آئین مخالف اور اقلیت مخالف قوانین وضع کرے، جن سے شرپسندوں کو مزید تقویت پہونچے۔ سی اے اے  اور یگر انسانیت مخالف کالے قوانین سےآخر کیا ثابت ہوتا ہے؟ کہ حکومت اپنی اقلیت کیساتھ مخلص نہیں ہے، اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ ظلم وستم اور عدم رواداری کو فروغ دینا چاھتی ہے، انکی شہریت کو ہی خطرے میں ڈالنا چاھتی ہے، انکی جائیدادوں کو ضبط اور حق شہریت سے انہیں محروم کر دینا چاھتی ہے، حتی کہ دوہرے معیار جیسے رویے اور دستور مخالف قانون کے ذریعے اقلیتوں سے ووٹوں  کا دستوری حق بھی چھین لینا چاھتی ہے تاکہ ملک کی بڑی اقلیت بالخصوص مسلمانوں کو کسطرح غلام بنا کر رکھا جا سکے اور ہندو راشٹریہ کے قیام کی راہ بالکل ہموار ہوجائے!!مگر اللہ جسکو رکھے اسے کون چکھے۔۔۔قدرت کو بھی یہ ناانصافیاں ناگوار لگیں، ملک میں کورونا جیسے بلا کی شروعات ہوئی،اس بیماری اور دیگرمصائب میں کتنے معصوم لوگوں کی جان گئی!ملک کی معیشت کی کمر ٹوٹ کر رہ گئی۔ مہنگائی آسمان کو پہونچ گئی۔ بے روزگاری کادور دورہ ہوا، نوکریاں ضائع ہوئیں،جن پریشانیوں سے  یہی پتہ چلتا ہے کہ حکومت کی بدنیتی کیوجہ سے خدا سخت ناراض ہے، مظلوموں کی آہ ،حق تلفی و ناانصافی کی آوازکا حامی اللہ ہوتا ہے یازمین پر اسکے مخلص بندے ہوتے ہیں، جب بنگال کی کھاڑی میں یہ آواز سنی گئی تو فرقہ پرستوں کا وہاں کی اکثریت نے جو حال کیا وہ آپ سب کے سامنے ہے۔ جب کہ معارضین نے ممتا بنرجی کو حکومت سے بے دخل کرنے کی ہرممکن کوشش کر ڈالی۔

 مگر ممتا لہر اورجادو نے اپنا کام کیااورہر جگہ انکا اثرورسوخ باقی رہا، صوبہ میں پھر دیدی جی کو سیاسی غلبہ حاصل ہوا، جب کہ فرقہ پرست پارٹیوں نے ممتا لہر کو دبانے اور دیدی کو ہرانے کا لاکھ جتن کیا، جمہوریت مخالف طاقتوں نے اپنی جیت کیلئے ساری توانائیاں صرف کردیں، مگر ممتالہر کے سامنے سب چت لیٹ گئے، نہ کسی کا کوئی دعویٰ ثابت ہوا اور نہ ہی کوئی حربہ وہاں کامیاب ہوا، نتیجہ یہی ہوا کہ محترمہ ممتا بنرجی کو اسمبلی الیکشن کیساتھ ساتھ بھوانی پورحلقہ کے ضمنی الیکشن میں بھی بھاری اکثریت اور ہیٹ ٹرک کیساتھ جیت حاصل ہوئی، بنگال کے عقلمند لوگوں نے الیکشن کے موقع سے تمام سازشوں کو پرکھا اور فرقہ پرستوں کے کسی بھی جال میں پھسنے سے اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو بچائے رکھا اور اپنے ایک ایک ووٹ کی طاقت و قوت کے ذریعے تمام فتنوں کا مقابلہ اور سرکوبی کیا اور اپنی حکمت عملی سے حالات کا رخ ہی پھیر دیا، فرقہ پرستوں کو وہاں ایسا سبق سکھایا کہ شاید وہ فرقہ پرستی کے قول وفعل کے ذریعے طویل عرصے تک جہاں اپنا سر نہ اٹھا سکیں!! اور دیدی اورانکی انسانی ہمدردی،یکجہتی،رواداری،اخوت،مودت اور جمہوریت پسندی کو فوقیت حاصل ہوئی جن کے نتیجے میں دیدی اسمبلی اور ضمنی دونوں الیکشن میں شاندار ریکارڈ کیساتھ کامیاب ہوئی۔

اس سلسلے میں بنگال کی غیور اور ہوشمند عوام کی جتنی تعریف کی جائے وہ بہت کم ہے کہ انہوں نے پھر سے مسلسل تیسری بار ایک جری اور انصاف پسند خاتون کو اپنا لیڈر منتخب کیا اور نفرت کی فضا قائم کرنے والوں کو الٹا سیاسی پاٹ پڑھا دیا۔ اسمبلی الیکشن میں تقریبا 213 نشستوں پر دیدی کو کامیابی ملی، جسکے بعد وہ پھر سے بنگال کی ہردلعزیز سی ایم کے عہدے پر فائز ہوگئی۔۔ ضمنی الیکشن میں بھی بھاری اکثریت سے ممتا جی نے اپنی ہیٹ ٹرک والی جیت درج کرائی  اور اپنے حریف کو تقریبا 59 ہزار ووٹوں سے شکست فاش دی،تقریبا 90 ہزار حضرات و خواتین نے اپنا قیمتی ووٹ دیدی کے حق میں ڈال کر ایک شاندارتاریخ رقم کی۔ ظاہر ہے اسمبلی اور ضمنی الیکشن میں بی جے پی، آر ایس ایس اور اسکی اوچھی سیاستوں کو وہاں جتنا بڑا جھٹکا لگا اور بنگال کے حالیہ انتخابات میں جتنی بڑی شرمناک ہار ہوئی یا یہ کہئے کہ انکی بڑی سیاسی رسوائی ہوئی، جو اپنے آپ میں اور بطور خاص معارضین کیلئے اس ہار جیت میں بہت بڑا سبق ہے، کاش کہ سمجھنے ولاجب سمجھے اور نصیحت حاصل کرنے والا کچھ نصیحت حاصل کرے، اب تو ان کو یوپی اور دیگر صوبوں میں ہونے والے انتخابات میں درست ہو جانا چاھئے اور اپنے تمام ناپاک منصوبہ اورجمہوریت مخالف رویوں کو بالکلیہ ترک کردینا چاھئے، خدا کرے!کم ازکم  ملک کی امن پسند عوام بنگال کی طرح ہر جگہ بیداروہوشیارہوجائے، اور اپنے سیاسی شعور بیداری کابنگال سے بڑھ کر ثبوت فراہم کرے اور انسانیت کے بہی خواہوں کا ہر انتخابات میں سلکشن کرے، ملک مخالف طاقتوں کو سمجھتے ہوئے انکے تمام حربوں، ہندومسلم پروپیگنڈوں اور گندی سازشوں کو ہر جگہ اور اسی طرح ناکام و نامراد کردے، جسطرح بنگال کی غیور عوام نے انکے تمام پروپیگنڈوں اور ناپاک سازشوں کو ہر طرح سے ناکام بنادیا، دیدی جیسی جمہوریت پسند شخصیت کوحکومت کا تاج پہنایا اور  کھلم کھلاانکاساتھ دیا اورمحبت واخوت کے بجائے نفرت وعداوت کی فضا ہموار کرنے والوں کو سخت سزا دیا۔ جس کے نتیجے میں انہیں وہاں پاوں پسارنے اور حکومت تشکیل کرنے کی جگہ نہیں مل سکی، حالانکہ انہوں نے اپنی کامیابی کا واویلا گوڈی میڈیا کے ذریعہ اس طرح مچایا کہ اچھے اچھے لوگوں کو بھی یہی وہم وگمان ہوگیا تھا کہ شاید اس بار دیدی جی ہار جائیں، مگر دشمنوں کی ساری خوش فہمیاں خاک آلود ہوگئیں، گودی میڈیا کے تمام حربے بھی نامراد ثابت ہوئے، آرایس ایس کے لاکھ حربوں اور کوششوں کے باوجود بھی انکا سارا خواب چکنا چور ہو کر رہ گیا، بنگال کی کھاڑی میں ان کی سیاسی اکڑ اور نخوت کا ایسا جنازہ  نکلا کہ ملک کے بڑے بڑے سیاسی لیڈر مودی – شاہ بشمول تمام سیاسی وسماجی تنظیموں کی سرگرمیوں اور انتھک کوششوں کے باوجود انکے تمام حربے اور سرگرمیاں ناکام ثابت ہوگئے اور انکے تمام دعوے نامراد ہوئے اور انکا سیاسی تکبر و عناد ٹوٹ کر رہ گیا!

بنگال کی غیور عوام اور دیدی کے جملہ محبین نے دشمنوں کے تمام فتنوں اور سازشوں کو بھانپتے ہوئے انکی تمام گندی سیاستوں کا کرارا جواب دیا اور بنگال کو نفرت کی آگ میں جھونکنے سے بالآخر بچالیا.ہمیں بھی دوسرے صوبوں  کے انتخابات بالخصوص یوپی میں ہونے والے اسمبلی  انتخابات کے لئے اپنا مثالی کارنامہ پیش کرنا چاھئے اور بنگال کے الیکشن کو پیش خیمہ بنا لیناچاھئے، تاکہ ہمارا طریقہ بھی دیگر صوبوں کے لئے بڑا آئیڈل ثابت ہو، جس پردنیافخر کرےجوسب کے لئے قابل تقلید بھی ہو، بلکہ پورے ملک اور اس کے تمام صوبوں کی عوام کے لئے ایک نمونہ سے کم نہیں ہو۔ تاکہ فرقہ پرستوں کو وہاں  بھی ایک سبق ملے پورے ملک میں امن و امان اور خوشحالی و خیر سگالی بحال ہو، کاش! کہ مخالفین کو بھی اب یہ بات سمجھ میں آجائے!! پھر بھی ہمیں یوپی اور دیگر صوبوں کے الیکشن میں بہت ہوشیار رہنے کی شدید ضرورت ہے اور بنگال کی عوام کی حکمت عملی سے کہیں بڑھ کرحکمت  اپنانے کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ گرگٹ کا رنگ حالات اور موقع  کے حساب سے بدلتا ہے جسکو پہچاننا اور اس کا ادراک کرنا سب کے بس کی بات نہیں۔ اسلئے علما ودانشوران کے مشوروں کے مطابق کام کرنا ہماری بڑی حکمت عملی اور کامیابی و کامرانی کی بات ہوگی، یوپی کا الیکشن اور اچھے امیدواروں کا انتخاب اب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ آپ کا ایک ایک ووٹ بہت قیمتی ہےجس سے ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے  یا اسکے غلط استعمال سے بگڑ سکتی ہے! فیصلہ اب آپکے اور یوپی کی غیور عوام کے ہاتھوں میں ہے، بٹن دباتے وقت آپ ضرور بالضرورجمہوریت ، انسانیت، اقلیت اور اپنی نسل کی بقا و تحفظ کا بھی ضرور خیال فرمائیں گے۔خدا آپکااور ہمارا  حامی و ناصر ہو۔

راقم الحروف کا ایک تازہ شعر ہے جو پورے ملک کی عوام کیلئے بنگالی عوام کیطرف سے نذرانہ کے طور پر پیش ہے تاکہ ہمیں بھی خوب قوت ملے اور ہماری مزید حوصلہ افزائی بھی ہو۔۔نفرت کی سیاست کو دیکر مات آپ بھی۔۔۔۔۔۔محبت کی سیاست میں پورا ملک ڈھال دو

«
»

آہ! مولانا حفظ الرحمن صاحب ندوی رحمۃ اللہ علیہ

احمد آباد کی پیر محمد شاہ لائبریری کے ناظم پروفیسر محی الدین صاحب سے ایک یادگار ملاقات (سفر گجرات 7)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے