اور جب عقیدت مند بڑی تعدادمیں زیارت کے لئے کاشی آنے لگے تب یہاں پرمندروں اور گھاٹوں کے اطراف طرح طرح کے کاروبار کا سلسلہ شروع ہوا۔میلے اور تہواروں کا منظر روز نظر آنے لگا۔ایسے میں طرح طرح کے فنکارموسیقاراور شاعرحضرات نے اس میں شرکت کرنا شروع کردیا۔ان لوگوں کی زائرین کے ذریعہ حوصلہ افزائی ہوئی اس طرح تمام قسم کے فنکار اور ادیب یہاں جمع ہونے لگے۔مقامی زبان میں ان کے فن کو اس کا نام دیا گیا اور اس اس سے سرشار ہو کر سب لوگ یہی کہتے کہ بنا رہے یہ رس اور پھر اس شہر کا نام ہی بنارس پڑ گیا۔بنارس شہر اپنی فطرت میں مختلف قسم کے تصورات خیالات کو تہذیب اور ثقافت کو سمیٹے ہوئے ہے یہاں پر بسم اللہ خاں کی شہنائی کی تان مندروں پر گونجتے ہوئے مل جائیں گے ۔سارناتھ میں بدھ مت کے عقیدت مند مل جائیں گے مندروں میں گھنٹے اور مسجدوں میں اذان کی آواز ایک ساتھ مل جائے گی۔اور سبھی لوگ ایک دوسرے کا ادب اور سمان کرتے مل جائیں گے۔بنارس کے عوام اپنے مزاج سے ہمیشہ مست رہنے والے رہیں ہیں ۔اور یہاں پر ہر قسم کے نظریات اور خیالات کی پذیرائی ہوئی ہے ۔جب گنگا کے گھاٹ پر بیٹھ کر تلسی داس نراکار اور سکار ایشور کو جوڑکر راجہ دشرت کے بیٹے رام کے کردار کو گڑھ رہے تھے تو وہیں سے تھوڑی دور پر ہی کبیر داس جی اس کی تردید کر رہے تھے وہ رام کو نراکار مانتے تھے۔اور اسی بنارس نے تلسی اور کبیر کو ایک ساتھ قبول کیا اور متضادقسم کے نظریات کو ایک ساتھ تسلیم کرکے خیالات کی آزادی کو تسلیم کیا۔ہندوستان کی تاریخ میں جب بھی سچ کا ذکر ہوتا ہے تب راجہ ہریس چندر کا نام ہوتا ہے اور مہاتما گاندھی اپنی زندگی میں سب سے زیادہ ہریس چندرسے متاثر تھے جو بنارس کے تھے اسی طرح ہم بنارس کے عوام ان کے مزاج کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں آج بھی بنارس کاپان اور چھورا گنگا کنارے والا گانا اپنی انفرادیت بنائے ہوئے ہے۔آج کل بنارس پھر ایک امتحان میں مبتلا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ اس امتحان میں پاس ہو گا۔
آج بنارس میں ایک بار پھر مختلف قسم کے لوگ پنی دفلی اور اپنا راگ لیکر بنارس کے رس کو نیا فلیور دینے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس بات یہ کام سیاست داں کر رہے ہیں کہاوت ہے کہ سیاست ہمیشہ دوستی کی بنیاد میں مٹھا ڈالنے کا کام کرتی ہے۔اور یہ کام اس بار شاید ہندوستان کے سب سے ماہر شخص وزیر اعلیٰ گجرات نریندر مودی نے اپنے ہاتھوں میں لے رکھا ہے ۔اب بنارس کے پھکڑ عوام بھولے جولاہے جو زمانے کی ہر ادا کو پہچانتے ہیں اپنی دیرینہ روایت کے مطابق اس کا جواب دیتے ہیں یا نہیں زمانہ دیکھے گا کہ کا بناررس کے پا ن میں اب بھی وہی جادو ہے جو گنگا کے کنارے کے ہر چھورے کا اپنی الگ پہچابن دیتا ہے۔یا دوسروں سے اپنی پہچان ادھار لیتا ہے۔اس وقت پورے ہندوستان میں خاص طور پر یو پی میں بنارس سیاست کا میدان جنگ بنا ہوا ہے ایک طرف نریندر مودی فرقہ پرستی کو وطن پرستی کے لباس میں اور ترقی کا عطر لگا کر پیش کر رہے ہیں تو وہیں پر اروند کجریوال ہندوستانی سیاست کے جمود کو توڑ کر اس کو ایک نیا رخ دینے کی کوشش کر رہے ہیں ۔کانگریس بنارس کی اس لڑائی کو اپنی طاقت کے بجائے امیدوار کی طاقت کے ذریعہ لڑنا چاہتی ہے سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی جیسی سماجی انصاف کی لڑائی لڑنے والی پارٹیاں اس لڑائی کو صرف الیکشن فرض سمجھ کر لڑ رہی ہیں ۔ایسے میں بنارس کے عوام کے سامنے بڑے امتحان کا مرحلہ درپیش ہے۔مگر کانگری سکے عوام کو اس بار موقع ملا ہے کہ وہ یہ طے کر یں کہ کیا وہ نریندر مودی کو فتحیاب کرکے پورے ہندوستان کو ایک بار پھر 1992اور2002کے ماحول کو آج کے ہندوستان میں واپس لے آئیں گے۔کیوں کہ اس زمانے میں بی جے پی کا نعرہ تھا کہ اجودھیا تو جھانکی ہے متھرا کاشی باقی ہے۔اسی بقائے ہوئے ہیں اور آئے بھی ہیں تو بہت اہتمام کے ساتھ اور روپ بدل کر آئے ہیں اور اس کے چاہنے والے کسی کنفیوزم میں نہ رہیں اس لئے اس کی پرانی زبان توگڑیااوراس جیسے بی جے پی کے لیڈران بولتے رہتے ہیں ۔میڈیا اس وقت مودی کی ہوا بنانے میں اسی طرح مصروف ہے جیسے1992میں رام مندر تحریک کے لئے کیا تھا۔اور پورے ملک کو یہ بتانے کی کوشش ہو رہی ہے کہ ملک کے سارے مسائل کا حل نریندر مودی کے پاس ہے اور اس معاملے میں بڑا عجیب کھیل کانگریس پارٹی کا ہے جو حکمراں ہوتے ہوئے بھی الیکشن کو ایسے لڑ رہی ہے جیسے اس کو اپنی شکست کا پورا یقین ہے اس لئے اس نے بی جے پی کے لئے راستے خالی کر دئے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کے حوصلے بلند ہیں اسی لئے ہندوستان کی ساری سیاسی جماعتیں مودی سے ڈری ہوئی ہیں اور وہ نریندر مودی کے راستے میں براہ راست آنے کی کوشش نہیں کر رہی ہیں لیکن ایسے ماحول میں ایک آدمی ہے جس کا نام اروند کجریوال ہے۔جس نے یہ فیصلہ کیاہے کہ وہ نریندر مودی کا مقابلہ وارانسی میں کرے گا ۔آج پورے ہندوستان میں اگر بی جے پی کو کوئی آدمی کھٹک رہا ہے تو وہ کجریوال ہی ہے ۔کیونکہ وہی شخص ہے جو بی جے پی کا کھیل بگاڑ سکتا ہے اس کے پاس نئی اور بڑی سوچ ہے اسی لئے عام طور پر لوگوں کو کجریوال کو سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے آخر کوئی سوچ سکتا ہے کہ دلی کی وزیر اعلیٰ کو کجریوال ہرا سکتے ہیں اور اس وقت شیلا دکشت کے سامنے الیکشن لڑنا بڑے بڑے سیاسی پنڈتوں کے گلے نہیں اتررہا تھا۔لیکن الیکشن کے رزلٹ نے سب کو چونکا دیا آخر اسی ملک میں اندرا گاندھی اور اٹل بہاری بھی الیکشن ہارے ہوئے ہیں۔کجریوال اور دیگر پارٹیوں میں ایک فرق یہ ہے کہ دیگر جماعتیں مودی اور فرقہ پرستی سے دور سے ہی لڑائی لڑ رہے ہیں جب کہ کجریوال مودی کے سامنے دودو ہاتھ کرنے کے لئے بنارس پہونچ گئے ہیں جب کہ دیگر پارٹیاں اپنا وجود بھی وہاں پر نہیں ثابت کر پا رہی ہیں ۔اگر بنارس کے الیکشن میں کجریوال نہ ہوتے تو وہاں الیکشن ایک فارمیلٹی بن کر رہ جاتا اور مودی پتہ نہیں کتنی بڑی جیت جیتتے مگر کجریوال ان کے سامنے سربکف ہیں اس لئے ان سے یہ امیدکی جا سکتی ہے کہ وہ سیکولر ازم کی لڑائی کو آئندہ بھی ایمانداری سے لڑ سکتے ہیں کیوں کہ کانگریس جس انداز سے یہ لڑائی لڑ رہی ہے اس سے تو سیکولر ازم اور کمیونلزم کا فرق ہی ختم ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو وہ اب تک سبھی سیکولر جماعتوں کو کئی کئی بار آزما چکے ہیں اور سبھی سے زیادہ یا کم مایوس بھی ہیں ۔ایسے میں ایک متبادل کجریوال بھی ہیں جہاں جہاں ان کی پارٹی مضبوط ہے وہاں وہاں پر ان کو بھی ایک موقع دیا جا سکتا ہے کیوں کہ اب تو آپ کے پاس کھونے کے لئے بھی بہت کچھ نہیں ہے اور کجریوال سیاست میں ایک تازہ ہوا بن کر آئے ہیں جن کا کہنا ہے کہ سیاست میں سب سے ضروری ہے انصاف اور مساوات اور یہ سب سبھی کے لئے یکساں ہو مسلمانوں کو ان پہی چیزوں کی ضرورت آج کے ہندوستان میں سب سے زیادہ ہے۔ اور ان کے مسائل کا حل بھی انہیں سے ہو گا ۔ویسے بھی کجریوال بہت حد تک ایماندار آدمی لگ رہے ہیں اس لئے ان پر بھروسہ کرنا برا نہیں ہو گا ۔ویسے بھی آج تک مسلمانوں نے ان لوگوں پر بھی بارباربھروسہ کیا ہے جن سے باربار دھوکہ کھایا ہے اس لئے کجریوال پر بھروسہ کرنا گھاٹے کا سودانہیں ہو گا۔
جواب دیں