عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ
ماہ رمضان اپنی تمام ترجلوہ سامانیوں کے ساتھ آیا اورخوب رحمتیں،برکتیں اورسعادتیں بکھیرکر نہایت تیزی کے ساتھ اختتامی منازل کی طرف گامزن ہوگیا۔ وبائی مرض کے سبب مساجدمیں جمع ہونے پر پابندگی کے باوجوداللہ کے نیک بندوں نے حسب توفیق اپنے آپ کو عبادتوں میں مصروف رکھا۔کچھ کے حصے میں مسنون اعتکاف کی فضیلتیں آئیں،کچھ نے انفرادی اعمال کے ذریعہ رضائے الہی کی کوششیں کی،ہرسمت قرآن مجید سننے سنانے کااہتمام رہا،ہرطرف خیرات و حسنات میں سبقت کا سماں رہا، ذکروتلاوت،تہجد و نوافل،دعاء وبکاء، انفاق و عطیات اورمختلف طاعات وعبادات کاایک دل کش ماحول دکھائی دیا،اس نورانی فضاء میں ہرکسی نے وسعت بھر اپنے اپنے دامن کوبھرلیا اورہر کوئی رمضان کو قیمتی بنانے کی فکر میں لگا رہا؛ مگرہائے حسرت کہ وقت کودوام نہیں،اب ان لمحوں کو بھی گزرجاناہے،پھر دیکھتے ہی دیکھتے چندساعتوں میں شوال المکرم کا چاندبھی نظر آجائے گا اور ہم مغموم دلوں کے ساتھ ماہ مبارک کورخصت والوداع کریں گے اور خوشی ومسرت کے ساتھ عید سعید کے استقبال میں منہمک ہوجائیں گے۔
ادھرلاک ڈاؤن میں نرمی کی وجہ سے ا س بات کا قوی امکان؛بل کہ موجودہ صورت حال دیکھ کر یہ یقین ہوچلاہے کہ ہلال عیدکے ساتھ ہی ہرطرف ہلچل شروع ہوجائے گی،خریدوفروخت،تجارت و سوداگری، بام عروج کوپہونچ جائے گی اور ہرکوئی عید کی تیاری میں اس طرح مست ومگن ہوجائے گا کہ نہ دنیوی اعتبار سے حکومتی کارندوں کے مواخذے اور میڈیا کی دوغلی پالیسی کا ڈر اور خوف رہے گا نہ ’’لیلۃ الجائزہ‘‘ یعنی انعام و بخشش کی رات کااحساس و تصور۔سب کچھ ذہن ودماغ سے حرف غلط کی طرح محو ہوجائے گا،سادگی سے عید منانے اورغیر ضروری خریداری سے باز رہنے کے سلسلہ میں اکابر کی دردمندانہ اپیلیں اورتنظیموں کی مسلسل درخواستیں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ائے کاش کہ ایسا نہ ہواور مسلمان حالات کے پیش نظراپنے عمل سے بیدارمغزی کا ثبوت پیش کریں۔۔۔۔۔۔
یوں تو عام حالات میں بھی چاند رات بہت زیادہ عظمت و اہمیت کی حامل ہے،پھر ان حالات میں جبکہ ساری انسانیت ایک سخت ترین آزمائش سے دوچار ہے،اس کی اہمیت دوچندہو جاتی ہے۔ سرکار دو عالم ﷺنے ارشاد فرمایا، پورے رمضان میں جس قدر لوگوں کی مغفرت ہوتی ہے صرف اس ایک رات میں اتنے لوگوں کی بخشش کر دی جاتی ہے۔ اندازہ لگائیں کہ اس رات، رحمت الٰہی کی کس قدر فراوانی رہتی ہے!
شبِ عیدکی عبادت،روایات کی روشنی میں:
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:‘‘جو شخص عید الفطر اور عید الاضحی کی راتوں میں عبادت کی نیت سے قیام کرتا ہے، اس کا دل اس دن بھی فوت نہیں ہوگا جس دن تمام دل فوت ہو جائیں گے۔‘‘(ابن ماجۃ، باب فیمن قام فی لیلتی العیدین)
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺنے فرمایا:جو شخص پانچ راتیں عبادت کرے، اس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے۔ وہ راتیں یہ ہیں: آٹھ ذو الحجہ، نو ذوالحجہ، دس ذوالحجہ، عید الفطر اور پندرہ شعبان کی رات۔(الترغیب والترہیب للمنذری)
حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے موقوفاً مروی ہے:پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعاء کو ردّ نہیں کیا جاتا:جمعہ کی شب، رجب کی پہلی شب، شعبان کی پندرہویں شب، اور دونوں عیدوں (عید الفطر اور عید الاضحی)کی رات۔(مصنف عبد الرزاقٌ)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رحمۃ للعالمین، امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”میری امت کو رمضان شریف کے بارے میں پانچ چیزیں مخصوص طور پر دی گئی ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں ملیں:
۱:یہ کہ ان کے (روزے دار کے) منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
۲:یہ کہ ان کے یعنی روزے دار کے لئے مچھلیاں تک دعا کرتی ہیں اور افطار کے وقت تک کرتی رہتی ہیں۔
۳:جنت ہر روز ان کے لیے آراستہ کی جاتی ہے، پھر حق تعالی شانہ فرماتے ہیں کہ قریب ہے کہ میرے نیک بندے دنیا کی مشقتیں اپنے اوپر سے پھینک کرمیری طرف آئیں۔
۴:اس میں سرکش شیاطین قیدکردیے جاتے ہیں۔
۵:رمضان کی آخری رات میں روزے داروں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔
اس کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا:ائے اللہ کے رسول!کیا یہ شب مغفرت شب قدر ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہیں؛ بلکہ اللہ کا دستور یہ ہے کہ مزدور کا کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دے دی جاتی ہے۔(الترغیب والترہیب للمنذری)
ہماری حالتِ زار:
اس اہمیت وفضیلت کے باوجود بہت درد کے ساتھ یہ لکھناپڑرہاہے کہ گذشتہ چند دہائیوں سے ہماری زندگی کی یہ سب سے اہم،قیمتی، بخشش اورمغفرت والی رات بازاروں،مارکیٹوں اور لغو ولایعنی کی نذر ہو جاتی ہے۔ گھر کے مصلے خالی ہو جاتے ہیں، شاپنگ مال اور خریدوفروخت کے مراکز آباد ہو نے لگتے ہیں،ویسے رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتے ہی راتوں کو بازاروں اوردکانوں میں ایک ہجوم امنڈ آتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سال بھر کی خریداری ان ہی مبارک راتوں میں کرنی ہے۔ اس طرح جو وقت عبادت، دعا ء، تلاوت اورذکرواذکار میں گذرنا چاہئے، وہ اللہ کے ہاں سب سے مبغوض اورناپسندمقامات میں بغیرکسی احساس کے صرف ہوجاتاہے۔
علاوہ ازیں بے پردہ،مخلوط اور گناہ والے ماحول کی وجہ سے رمضان المبارک کے مقدس وروح پرور ماحول میں جو کچھ باطنی پاکیزگی اور نورانیت حاصل ہوتی ہے، وہ ساری کی ساری غارت ہو جاتی ہے۔ یقیناً گھر اور بچوں کے لئے عید کی مناسبت سے خریداری کرنی چاہیے اور شریعت کی رو سے اس میں کوئی ممانعت بھی نہیں؛مگر اوّل تو خریداری کا شیڈول ہی ایسا بنانا چاہیے کہ رمضان کے مبارک ماہ کا کوئی ایک لمحہ بھی اس میں صرف نہ ہو، رمضان سے پہلے ہی ضرورت کی خریداری سے فراغت حاصل کی جائے؛ لیکن اگر رمضان ہی میں خریداری کی نوبت آبھی جائے تو اس کے لئے ایسے اوقات رکھے جائیں جن میں کوئی نماز متاثر نہ ہو اور رات کے قیمتی اوقات کو تو ہر حال میں مارکیٹ اور بازاروں کے لہوولعب سے بچانا چاہیے۔
ایک صاحب قلم دیدہ ور عالم دین لکھتے ہیں کہ:‘‘ ایک حقیقی مسلم معاشرے میں رمضان کی راتوں میں مارکیٹیں اور بازار نہیں، بلکہ صرف مسجدیں آباد رہتی ہیں، بوڑھی اور کم عمر خواتین گھر میں مصلوں کو آباد رکھتی ہیں، عبادت ہوتی ہے، تلاوت ہوتی ہے، دعائیں ہوتی ہیں، مرادیں مانگی جاتی ہیں اور رب کی طرف سے فیاضی اورکرم فرمائی کے جوش کا یہ عالم ہوتا ہے کہ بس رحمت الٰہی کو ایک بہانہ کی تلاش رہتی ہے، کوئی مانگے اور وہ عطا کر دے … کوئی جھولی پھیلائے اور وہ بھر دے … کوئی بخشش کا نالہ بلند کرے او ر وہ مغفرت کا پروانہ تھما دے … اس لئے ہمیں چاہئے کہ اس قیمتی رات کی قدر کریں، عید کی خریداری بقدر ضرورت کریں اور عید کی رات کو قدرت کا انمول تحفہ سمجھ کر عبادت ومناجات، ذکر واذکار سے آباد رکھیں، اپنی انفرادی زندگی کی کدورتوں کو ندامت کے آنسوؤں سے صاف کرنے کی فکر کریں اور ملک و ملت اور عالم اسلام کو بحرانوں اور مصائب سے نکلنے کے لئے دعاؤں کا اہتمام کریں کہ یہ وقت، وقتِ دعا ہے اور ہماری فانی زندگیوں کا انمول اثاثہ ہے ’’۔
خلاصہئ کلام:
شب عیدوہ رات ہے؛ جس میں رمضان بھر کے اعمال کی مزدوری دی جاتی ہے، اجر و ثواب کے خزانے اور مغفرت و رحمت کی بیش بہا دولت بکھیری جاتی ہے۔کس قدر محرومی اور خسارے کی بات ہے کہ پورے مہینے روزے رکھ کر جب اَجر ملنے کا وقت آئے تو بندہ اُس سے اِعراض کرنے لگ جائے، یہ تو ایسا ہی ہوگیا جیسے کوئی مزدور دن بھر کام کرنے کے بعد شام کو جب مالک کی جانب سے اجرت ملنے کا وقت ہو تو مزدوری لینے سے اِنکار کردے۔لہٰذا پوری کوشش کریں کہ یہ مبارک رات کسی قیمت خرافات کی نذر نہ ہونے پائے۔ ہم نے مہینے بھر رب کریم کے ساتھ جو تعلق استوار کرنے کی سعی مسلسل کی ہے اس کے ذریعہ اللہ تعالی سے معافی، بخشش مغفرت اور جہنم سے آزادی کے پروانے حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مہینے بھر کی ہماری محنت اور جدوجہد جو ہم نے روٹھے رب سے ٹوٹے رشتے کو استوارکرنے میں صرف کی،اب جبکہ ہمارا رب ہم سے راضی ہورہا ہے،ہم مومن بندوں اور بندیوں پر انعامات کی بارش برسانے والا ہے،ہماری مغفرت کا سامان کرنے والا ہے، ہمارے کسی معمولی نافرمانی والے عمل سے ساری محنت و ریاضت ضائع ہوجائے۔اللھم احفظنا منہ
مختصر یہ کہ شب عیدالفطر کو اللہ تعالیٰ سے امن و سلامتی، مغفرت و رحمت اور ہر بلا و مصیبت سے عافیت طلب کرتے ہوئے خوب یاد الہی میں گذارناچاہیے اور نفس امارہ کو شکست دے کر اپنے رب کو راضی کرنا چاہیے۔حق تعالی ہم سب کو توفیق عمل نصیب فرمائے۔آمین یارب العالمین
مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
22 مئی 2020(ادارہ فکروخبر)
جواب دیں