بجرنگ دل پر اب تک پابندی کیوں نہیں؟

شاہین نظر

پورا ملک اس وقت بھگوا دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب گھر واپسی، لو جہاد، گئورکشا اور اب بچہ چوری کے نام پر کسی کو جان سے نہیں مارا جاتا ہو، کسی کی سرِ راہ پٹائی نہ کی جاتی ہو، کسی کی عزت نہ اتار دی جاتی ہو، کسی کو سوشل میڈیا پر دھمکی نہ دی جاتی ہو۔ اب تو حد یہ ہو گئی ہے کہ ملک کی وزیر خارجہ، جو کہ خود بھگوا تحریک کی پروردہ ہیں، کو بھی ایسی گالیاں دی جا رہی ہیں جنہیں چھاپا نہیں جاسکتا۔ ان کے شوہر کو یہ لکھا جا رہا ہے کہ اپنی بیوی کو پیٹو کیونکہ اس نے ایک ہندو-مسلم جوڑے کی حمایت میں کھڑے ہو کر ہندو دھرم کو نقصان پہنچایا ہے۔ کانگریس پارٹی کی ایک خاتون لیڈر کے حوالے سے ایک فیک نیوز جاری کی جاتی ہے اور پھر اُسے ٹوئٹ کیا جاتا ہے کہ اپنی دس سالہ بیٹی کو میرے پاس بھیجو میں اس کا ریپ کروں گا۔ یہ تمام طرح کی دہشت گردیاں ڈھکے چھپے نہیں ہو رہی ہیں۔ باضابطہ کسی نہ کسی تنظیم کے بینر تلے ہو رہی ہیں۔ جو لوگ انفرادی طور پر ان دہشت گردیوں میں ملوث ہیں وہ بھی عام طور پر کسی بھگوا تنظیم سے منسلک ہیں اور اس کا اظہار کھلے عام کر رہے ہیں۔ پھر بھی نہ ان کے خلاف، نہ ہی ان کی تنظیم کے خلاف کوئی کارروائی ہو رہی ہے۔ اکّا دکّا معاملے میں اگر ہو بھی رہی ہے تو محض دکھاوے کے طور پر کیونکہ اُن پر معمولی قسم کی دفعات لگائی جاتی ہیں تاکہ انھیں آسانی سے ضمانت مل سکے۔ زیادہ تر دہشت گردیاں آر ایس ایس کی ذیلی تنظیمیں جیسے وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل انجام دے رہی ہیں۔ کچھ کے پیچھے مخصوص ریاستوں میں سرگرم عمل تنظیمیں ہیں جیسے گوا، مہاراشٹرا اور کرناٹک کی حد تک سناتن سنستھا؛ جنوبی کرناٹک میں سری رام سینے؛ اور اتر پردیش میں ہندو یوا واہنی۔ بعض جگہوں پر نئے نام بھی سامنے آرہے ہیں جیسے ہریانہ میں مسلمانوں کو جمعہ کی نماز نہ پڑھنے دینے کے لئے بھگوا تنظیموں کا ایک متحدہ محاز ‘سنیُکت ہندو سنگھرش سمیتی’ کا نام سنا گیا۔ “پدماوت” فلم کی مخالفت کے نام پر کھڑی کی گئی تحریک کے وقت ‘کرنی سینا’ کا بینر استعمال ہوا جس نے ہریانہ اور راجستھان وغیرہ میں آتنک مچایا۔ تنظیمیں چاہے کوئی بھی ہوں ان سب کی فکر ایک ہی ہے: ہندو دھرم کی رکشا کے نام پر مسلمانوں، عیسائیوں اور دلتوں سے بے انتہا نفرت کا اظہار اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے جھوٹ اور فریب کے ساتھ تشدد اور دہشت گردی کا استعمال۔ قاعدے سے ان سب پر پابندی لگنی چاہیے، خاص طور پر بجرنگ دل پر کیونکہ سب سے زیادہ فعال یہی تنظیم ہے جس نے ایک طرح سے ملک میں دہشت گردی کی کمان سنبھال رکھی ہے۔ کہیں یہ براہ راست میدان میں اترتی ہے اور کہیں اس کے زیر اثر افراد یا گروپس سامنے آتے ہیں۔ ماضی میں بجرنگ دل پر پابندی لگائے جانے کی مانگ تمام اہم پارٹیوں کے لیڈران کرتے رہے ہیں جن میں دیوے گوڑا، شرد پوار، لالو پرساد، رام ولاس پاسوان، مایاوتی، ویرپّا مائلی اور منیش تیواری کے نام قابل ذکر ہیں۔ جب منموہن سنگھ وزیراعظم تھے تو سابق وزیراعظم دیوے گوڑا نے انہیں ایک خط لکھ کر شکایت کی تھی کہ بجرنگ دل کرناٹک اور اڑیسہ میں اقلیتوں کے خلاف جنونی انداز میں تشدد کر رہا ہے۔ ویرپا مائلی نے کہا تھا کہ آر ایس ایس کی اس ذیلی تنظیم پر پابندی اس لئے لگنی چاہیے کیونکہ عام دہشت گرد تو چھپ کر حملہ کرتے ہیں جبکہ بجرنگ دل کے لوگ کھلے عام دہشت پھیلا رہے ہیں۔ مائلی نے یہ بھی کہا تھا کہ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں پارٹی بجرنگ دل کو اپنی بقاء کے لئے آکسیجن سمجھتی ہے۔ نیشنل کمیشن فار مائناریٹیز بھی ایک زمانے میں بجرنگ دل سے عاجز رہی ہے اور اس پر پابندی لگائے جانے کی مانگ کرتی رہی ہے۔ کمیشن کے وائس چیئرمین مائیکل پنٹو نے کرناٹک حکومت پر، جب وہ بی جے پی کے تحت تھی، الزام عائد کیا تھا کہ بار بار کی یاد دہانی کے باوجود بجرنگ دل کو چرچ اور عیسائیوں پر حملے سے باز نہیں رکھا جا سکا ہے۔ وشو ہندو پریشد، جو کہ خود آر ایس ایس کی ایک ذیلی تنظیم ہے، نے 1984 میں بجرنگ دل قائم کیا تھا اپنے یوتھ ونگ کے طور پرہندو پریشد کو اس کی ضرورت یو پی میں ہندو نوجوانوں کو بابری مسجد پر قبضہ کے لئے چھیڑی گئی تحریک میں شامل کرنے کے لئے پڑی تھی۔ ان کی یہ پیش کش اتنی کامیاب رہی کہ جلد ہی اسے وسعت دے کر پورے ملک میں پھیلا دیا گیا۔ رام جنم بھومی کے حوالے سے جتنی بھی ریلیاں سنگھ پریوار نے نکالیں ان سب میں بجرنگ دل کے کارکن پیش پیش رہے۔ 1992 میں بابری مسجد گرا ئے جانے سے لے کر 2002 کے گجرات فسادات تک ہر ایک میں بجرنگی کارکن براہ راست ملوث رہے ہیں۔ نرسمہا راؤ کی حکومت نے بابری مسجد منہدم کئے جانے کے بعد اس پر پابندی عائد کی تھی مگر ان پر اس قدر دباؤ پڑا کہ صرف ایک سال بعد پابندی اٹھا لی گئی۔ اس کے بعد سے رہ رہ کر مختلف قومی اور عالمی اداروں کی طرف سے اس پر نکیل کسنے کا مطالبہ ہوتا رہا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، پیپلس یونین فار سول لبرٹیز اور پیپلس یونین فار ڈیموکرٹک رائٹس جیسی انسانی حقوق کی تنظیمیں ہر تھوڑے دن پر بجرنگ دل کے کالے کرتوتوں پر روشنی ڈالتی رہتی ہیں اور حکومت ہند سے اس پر پابندی لگانے کی مانگ کرتی ہیں۔ مگر اب تک بی جے پی، اور اس سے پہلے کانگریس کی سرکار پر ان مانگوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ سرکاری سرپرستی نے بجرنگ دل کے حوصلے کافی بلند کر دیے ہیں۔ پچھلے ایک ہفتے میں دو مرکزی وزراء اس انتہا پسند تنظیم کے ساتھ کھڑے نظر آئے ہیں۔ نوادہ میں گری راج سنگھ فساد بھڑکانے کے الزام میں گرفتار بجرنگ دل کے ذمّہ داروں سے ملنے جیل گئے اور اس بات پر باضابطہ آنسو بہائے کہ وہ ان کی مدد نہیں کر پا رہے ہیں۔ اسی طرح ہزاری باغ میں جینت سنہا نے ماب لنچنگ کے ملزموں کی میزبانی کی جو حال ہی میں ضمانت پر رہا ہوئے تھے۔ یہ کام انہوں نے خاموشی سے نہیں کیا بلکہ مٹھائی کھلاتے ہوئےان کے ساتھ تصویریں اتروائیں اور پھر انھیں مشتہر کیا۔ جس بےشرمی سے یہ سارے کام ہو رہے ہیں انہیں دیکھتے ہوئے مودی سرکار سے بھگوا دہشت گردوں کے خلاف کسی کارروائی کی قطعی امید نہیں۔ پھر بھی ایک جمہوری ملک کا باشندہ ہونے کے ناتے حکومت پر دباؤ بنانے کا کام ہمیں کرتے رہنا چاہیے۔ بجرنگ دل کے کارکن پہلے صرف لاٹھی کا استعمال کرتے تھے اب یہ ہر طرح کے ہتھیار کا بے دھڑک استعمال کر رہے ہیں۔ اس سال رام نومی کے کے موقعے پر سنگھ پریوار کی طرف سے انہیں کھلے عام ترشول اور تلوار بانٹے گئے۔ اس سے پہلے یہ خبر بھی آئی کہ انہیں ہتھیار چلانے کی ٹریننگ دی جا رہی ہے۔ 26 مئی 2016 کو روزنامہ ہندوستان ٹائمز نے خبر دی کہ نوئیڈا میں آر ایس ایس کے ذریعہ چلنے والے ایک اسکول میں بجرنگ دل کے سینکڑوں کارکنوں کو مارشل آرٹ کی ٹریننگ دی جا رہی ہے جس میں انہیں ترشول اور تلوار کے علاوہ دیگر ہتھیار چلانا سکھایا جا رہا ہے۔ 13 جون 2017 کو نیوز پورٹل فرسٹ پوسٹ نے انکشاف کیا کہ ملک کے مختلف مقامات پر بجرنگ دل اور ہندو پریشد اسکولی بچوں کو آرمز ٹریننگ دے رہے ہیں۔ 28 فروری 2015 کو پندرہ روزہ ملی گزٹ نے اطلاع دی کہ بجرنگ دل نے “ملیٹنٹ ہندو فورس” تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت ملک کے تمام ضلعوں میں “شکتی آرادھنا کیندر” قائم کیا جائے گا جہاں اس کے کارکن لاٹھی اور پستول چلانا سیکھیں گے۔ سرکاری سرپرستی میں ہونے والی سنگھی کارروائیوں اور وارداتوں کا نوٹس انٹرنیشنل میڈیا لے رہا ہے۔ عالمی ادارے بھی ہندوستان پر انگلی اٹھا رہے ہیں۔ اسی سال فروری میں جاری ہوئی ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں حکومت ہند کی زبردست تنقید ہوئی ہے کیونکہ وہ اقلیتوں اور دلتوں پر ہونے والے ظلم اور جبر کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پچھلے مہینے جاری ہوئی امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی ایک رپورٹ ذرا مایوس کن ہے۔ گو کہ بجرنگ دل کے لیڈروں نے اس پر خوب واویلا مچایا اور امریکا کو قانونی نوٹس دینے کی بھی دھمکی دے ڈالی مگر دیکھا جائے تو اس رپورٹ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جس کا دباؤ وزیراعظم نریندر مودی یا اُن کے حواریوں پر پڑے۔ سی آئی اے کی”ورلڈ فیکٹ بُک” جو ایک طرح کا سالانہ دستاویز ہے میں وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کو ملیٹنٹ یعنی عسکریت پسند یا جنگجو قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں تنظیموں کو دہشت گرد کے خانے میں رکھا جانا چاہیے تھا۔ کوئی بھی اگر کھلے دل اور دماغ کے ساتھ ہندوستانی اخبارات کا مطالعہ صرف ہفتہ دو ہفتہ کر لے تو اسے وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل جیسی تنظیموں کے بارے میں یہ سمجھنا مشکل نہیں ہوگا کہ یہ صرف ‘ملیٹنٹ’ تنظیمیں نہیں ہیں بلکہ وہ تمام شرائط پوری کرتی ہیں جو انہیں دہشت گرد قرار دینے کے لئے کافی ہیں۔ امریکی انتظامیہ اس کے باوجود اگر دونوں کو دہشت گرد کہنے میں تامل کرتی ہے اور صرف ‘ملیٹنٹ’ گرداننے پر اکتفا کرتی ہے تو یہ خالص سیاست ہے۔ جو بات تشویشناک ہے وہ یہ کہ امریکا ایک کھلی حقیقت کا اعتراف کرنے سے تو کترا ہی رہا ہے خود اپنے خفیہ ادارے کو بھی گمراہ کر رہا ہے۔ اس سے امریکا کی نیت صاف ہو جاتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ محض ایک ڈھونگ ہے۔ یہ یہاں بھی اپنا قومی مفاد دیکھ رہا ہے۔

(مضمون نگار کی رائے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )

10/جولائی2018(ادارہ فکروخبر)

«
»

’’ریپ ‘‘پر سیاست یا سیاست کی عصمت ریزی ایک ملک میں انصاف کے دوپیمانے کیوں؟

خوش رہنے کا قیمتی نسخہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے