اسی سرزمین کے متعلق پنے فرمایا کہ ’’جب فتنوں کا دور ہوگا تو وہاں ایمان کی روشنی باقی رہے گی ‘‘اور یہ کہ ’’میری امت میں سے ایک گروہ اس سرزمین ( فلسطین) میں غلبہ حق کے لیے برسرپیکاررہے گی یہاں تک کہ قیامت واقع ہوجائے گی اس اعتبار سے دیکھا جائے تو القدس کی سرزمین مسلسل توحید پرستوں کے لہو سے سیراب مقام کے متعلق یہ خبر سن رہے ہیں کہ غزہ پر سعودی عرب اور مصر مشترکہ طور پر حملہ کا ارادہ رکھتے ہیں جسے اسرائیل نے یوں بھی دور حاضر کے شعب ابی طالب میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے ۔
حال ہی میں تنظیم تحریک اسلامی (فلسطین) کے سربراہ شیخ رائد صلاح نے بھی انکشاف کیا ہے کہ ’’اسرائیل مسجد اقصی کے اطراف مسلم بادی کو ختم کرکے 2020ء4 تک اسے فلسطینیوں سے پاک علاقہ قرار دینے کے منصوبہ پر عمل پیرا ہے تاکہ وہاں سے اسلامی تاریخ کے ثار کو معدوم کردیا جائے اور مقامی باشندوں کی جائیدادوں کو ہتھیا لیا جائے۔ اس سے قبل اعتراف کیاتھا کہ مسجد اقصی کی بنیادوں کو کمزور کرنے کے لیے سرنگوں کے ذریعہ کیمیائی مادوں کا استعمال کررہاہے۔ UNESCOنے حسب سابق اس پر خاموشی اختیار کررکھی ہے ۔ یواین او ظاہر ہے اب کوئی زنگی کہاں سے جسے خواب میں اس سے ا?گاہ کیا جاتا۔ البتہ سعودی عرب نے سلامتی کونسل کی ہنگامی میٹنگ کا مطالبہ کیا ہے۔
مگر جو سعودی خود غزہ پر حملہ اور حماس کی منتخب حکومت کے خاتمہ کا عزم رکھتاہو اسے فلسطینی کاز سے دلچسپی کیسے ہوسکتی ہے ؟اسرائیل کا تو وجود ہی عرب سربراہوں کی غفلت اور قومیت کے نشہ میں چور رہنے کی بناء4 پر ہواہے۔ جیسا کہ 1930ء4 کی اسلامی کانفرنس میں شرکت کے بعد علامہ اقبال نے (ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام ) میں کہاتھا:۔
اگر یورپ کی جانب سے یہودی مملکت کے قیام کا وعدہ سب سے پہلے 1798ء4 میں نپولین نے کیا جو انقلاب فرانس میں یہودیوں کے رول کی وجہ سے ان کا زیربار تھا تو دوسری جانب سعودی عرب حکمراں فیصل بن شریف حسین مسلمانوں کا پہلا فرمانرواتھا جس نے یہودیوں کی ترقی کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھنے اور ان کے لیے ایک آزاد مملکت کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ کیا وہ یہودی عزائم سے بے خبر تھا جن کے مطابق عظیم تر اسرائیل کی سرحدیں دجلہ سے فرات تک پھیلی ہوئی ہوں گی۔ کیا وہ اس بات سے واقف نہ تھا کہ یہودی خود کو اللہ تعالی کے وجود یا مادہ سے پیدا ہونے والی خصوصی مخلوق اور دیگر تمام اقوام کو شیطانی مادے سے وجود پانے والا کہتے تھے۔
جن کا خیال تھاکہ دیگر اقوام محض ان کی تعظیم و تکریم کے لیے پیدا ہوئی ہیں۔ اللہ تعالی نے اگر اس قوم کو راندہ درگاہ بنا کر رکھ دیا تھا تو اس کا سبب ان کے اپنے عقائد و اعمال تھے جس پر مسلمانوں کو بیجا ترس کھانے کی ضرورت نہ تھی۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ عالمی صہیونی کانفرنس کے دوران پچاس سالوں کے اندر صہیونی مملکت کو حقیقت میں بدلنے کا دعوی تھیوڈور ہرٹزل کی زبانی کیاگیا وہ تو عالمی سطح کی سازشوں کے سہارے پورا ہوگیا مگر سلطان عبدالحمید 1909ء4 میں جو تاریخی اعلان کیاتھا کہ خدا کی قسم یہودی اگر کرہ ارض کی ساری دولت بھی میرے قدموں میں لا کر رکھ دیں تو میں فلسطین کی ایک بالشت بھر زمین بھی ان کے حوالے نہیں کروں گا۔
یہودی مملکت کے قیام کے لیے انہیں ہماری لاشوں سے گزرناہوگامگر عالم اسلام اپنے غیور حکمراں کے قول کی لاج نہ رکھ سکا۔ آج جبکہ سلطان کی معزولی کو ایک صدی گزر چکی ہے معرکہ القدس کامیابی کی منزلوں سے بہت دور ہے۔ خیال رہے کہ صلیبی جنگوں کی ابتداء4 میں جب فلسطین پر قبضہ ہواتھا تو صلیبی فوجوں کے گھوڑے گھنٹوں تک خون میں ڈوب گئے تھے اور 80ہزار مسلم فوجیوں نے جام شہادت نوش کیاتھا۔ مگر 1967ء4 القدس پر قبضہ محض چند گھنٹوں کے اندر ہوگیاتھا۔ 1948ء4 میں عرب افواج فلسطین میں صرف اس لیے داخل ہوئی تھیں کہ اسرائیل کا قیام پر امن طریقہ پر عمل میں آ سکے۔ 1956ء4 کی جنگ میں بھی عراقی افواج بغیر کسی کارروائی کے واپس آ گئی تھیں ، اردن فلسطین کو تقسیم کرنے کی راہ پر تھا اور مصری فوج مقامی قائدین انقلاب سے کھلواڑکرنے میں مصروف تھی۔
اسی جنگ کے بعد اسرائیلی بحری جہازوں کو تحفظ ملااور شرم الشیخ میں بین الاقوامی مشاہدین متعین کئے گئے۔ قیام اسرائیل سے پہلے بھی عرب فوجوں کے سربراہ شاہ عبداللہ نے کئی مرتبہ فلسطینی بغاوت کو اپنے منطقی نتیجہ تک پہنچنے سے روک دیا۔ ان کا رول ہمیشہ مشکوک رہا ۔ 19494ء4 میں ثالثی کمیٹی کے سربراہ سامون نے اسرائیلی وزیر خارجہ موشے شاریت کو لکھاتھاکہ عرب سربراہ جب ہم سے خفیہ گفتگو کرتے ہیں تو ان کا انداز الگ ہوتاہے اور سب کے سامنے الگ عرب سربراہوں نے عبدالقادرحسینی کی جہاد مقدس فوج کی طرح اخوانی جہادی دستوں کو بھی توڑا جو مصری فوجوں کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے مستعد تھے۔
اخوان نے 48ء4 سے 70ء4 تک فلسطینی آزادی کے لیے سرگرم جدوجہد کی ۔ قیام اسرائیل کے فوراً بعد اخوان کے مرشد عام ایک ہزار سپاہیوں کے ساتھ فلسطین میں ہونے کا ارادہ رکھتے تھے اس سے پہلے ہی انہیں شہید کردیا گیا۔ عرب سربراہوں نے فلسطین کے تحفظ کے لیے مسلح جدوجہد کی ہمیشہ مذمت کی۔نہ صرف فلسطین کی فوجی طاقت بلکہ پناہ گزین کے کیمپ بھی اسرائیل ہی نہیں عرب ممالک کے ذریعہ تباہ کئے جاتے رہے۔ 18ستمبر1980ء4 کو فلسطینی آج بھی سیاہ ستمبر کی حیثیت سے یاد رکھتے ہیں۔
جب اردن کے شاہ حسین نے فلسطینی رضا کاروں سے رپار جنگ کی۔ انہوں نے پہاڑوں میں منظم ہونے کی کوشش کی جہاں اردن کی فوجوں نے ان کا کام تمام کردیا۔ اس دوران تین ہزار فلسطینی شہید کردیئے گئے اور ان کے پناہ گزین کیمپ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیئے گئے۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کے ذریعہ مصر نے سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔ حالانکہ 1973ء4 کی جنگ کے بعد فلسطینی فتح سے قریب ترہوچکے تھے۔ اس طرح مصر نے خود کو عرب اسرائیل معاملات سے بالکل الگ تھلگ کرلیا۔ اپنے مسلسل تجربات کے سبب فلسطینی اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ ان کی بقاء4 مسلح جدوجہد ہی میں مضمر ہیں۔
عبدالقادر حسینی کی جہاد مقدس اور عزالدین قسام کی عسکری جدوجہد کی طرح الفتح نے بھی شروع میں مسلح جدوجہد کو اپنا طریقہ کار بنایا۔ الفتح پر کیمونزم کے سائے گہرے ہوتے گئے تو اسلامی بیداری نے حماس کی شکل میں جنم لیا۔ جو ایک مبارک پودا ثابت ہوئی اور بہت جلد القدس
میں مسلمانوں کی عزت و کرامت کی علامت بن گئی۔ اس کے ذریعہ شروع کئے گئے انتفاضہ نے وہ کامیابی عطا کی جو گزشتہ 20سالوں کے دوران جہادی تجریکات بھی حاصل نہیں کرسکتی تھیں۔
مگر عین اس وقت جبکہ انتفاضہ عروج پر تھا اور اسرائیل کے لیے پریشان کن بن چکاتھا ایک سازش کے تحت اوسلو امن معاہدہ کیاگیا جس میں فی الواقع امن کی ضمانت اسرائیل کو دی گئی تھی ۔ انتفاضہ کو دہشت گرد قرار دیا گیااور اس سے تحفظ کی ذمہ داری خود فلسطینی اتھارٹی پر ڈال دی گئی مگر جب باقاعدہ الیکشن کے ذریعہ بھی عوام نے حماس کو اپنا نمائندہ منتخب کرلیا تو اسرائیل کی طرح عرب سربراہ بھی اس کو برداشت نہیں کرسکے۔
خیال رہے کہ حماس کی فکری جڑیں اخوان المسلمون اور خصوصاً سید قطب کی کتاب ’’معالم فی الطریق ‘‘ سے ماخوذ تھیں جو علامہ خمینی کی طرز پر فلسطین میں انقلاب کا خواب دیکھنے لگے تھے۔ عرب سربراہوں خصوصاً مصر اور سعودی عرب نے اپنے قرا رداد کلچر سے آگے نکل کر نہ کبھی کچھ کیا ہے نہ ان سے کوئی امید رکھی جاسکتی ہے البتہ القدس میں صحیح اسلامی مملکت کے قیام میں انہیں خود اپنے اقتدار کے لیے خطرہ نظر آتا ہے۔ بہرکیف ارض مقدس کبھی جیالوں سے محروم نہ رہی ہے اور نہ رہے گی اور اس کے حق میں آپ کی پیشین گوئی پوری ہونے سے کوئی روک نہیں سکے گا۔
جواب دیں