باعث تسکین خاروں کی چبھن ثابت ہوئی

ہوگئے محروم اپنے نور سے تارے تمام 
صبح کی پہلی کرن ہی راہ زن ثابت ہوئی 
آسماں کی قدرکرتے ہیں زمیں والے بہت 
چاند پر لیکن زمیں اپنی گگن ثابت ہوئی 
تخت دِلی پر ستم رانوں کی یہ جلوہ گری 
یاتراؤں سے بھی بڑھ کر پُرفتن ثابت ہوئی 
چیخ اُٹھیں گے ایک دِن سارے دھرم کے ٹھیکیدار
زعفرانی رنگ کی چادر کفن ثابت ہوئی 
کھیل پاتے جان پرکیسے یہ کھیلوں کے غلام 
بزدلی ان کی جوانی کا کفن ثابت ہوئی
آپ نے جس کو غزل کہہ کر سنایا تھا ابھی 
وہ ترنّم کے حوالے سے بھجن ثابت ہوئی 
موت کیا؟ آرام کرنے کی اجازت ہے عزیزؔ 
اپنے رب پر زندگی بھر کی تھکن ثابت ہوئی

«
»

ابھی انصاف بہت دور ہے

’’کن فیکون‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے