کسی سنت، مہاتما کی طرح راستے کے کنارے کھڑاہر آنے جانے والے کو بِن مانگے آشیرواد دیتارہتاتھا،یا کسی ناگاسادھو سا لگتا تھاجواپنی لمبی لمبی جٹاؤں کے ساتھ اپنے بدن پر بھبھوت ملے ،ایک ٹانگ پر کھڑا اپنے پیدا کرنے والے کے دھیان میں مگن ہو۔ہر ساون کے ساون جب کجراری گھٹاؤں کی دیویاں نہلاکر اسے صاف ستھراکردیتیں تو لگتاکہ ابھی ابھی گنگا اشنان کرکے پوِتر ندی سے باہر نکل کر جٹائیں سکھا رہا ہے۔ بسنت کے موسم میں ہواؤں کے دھن پرجھومتی ،گنگناتی پتیاں گیت چھیڑدیتیں اور پوراماحول مستانہ ہوجاتا۔چڑیوں کی چہکار ویسے تو روزانہ ہی سنائی دیتی تھی مگربسنت میں کوئل کی کُوکُو اورہرے ہرے طوطوں کی ٹائیں ٹائیں سے سماں بند ھ جاتا۔ کنویں پر لگے ہوئے رہٹ کی آوازیں اس سماں کو اور بھی سنگیت مئی بنادیتیں اورپاس ہی گیہوں کے ہرے بھرے کھیت بھی ناچتے ہوئے دکھائی پڑتے۔پھاگن میں پھگواکھیلنے والوں کی ٹولیاں جب ناچتی گاتی اور عبیر،گلال اُڑاتی اِدھر آتیں تواُن کا سواگت بھی گرم جوشی سے ہوتا۔ہمارے خاندان کے بزرگوں کی طرف سے مسجد کے سامنے چٹائیاں بچھائی جاتیں،مٹھائیاں بانٹی جاتیں اور گلال کا انتظام کیا جاتا۔ یہاں اصل ہندستان نظر آتا۔ملی جلی تہذیب کا سنگم،اندردھنش کے سات رنگوں سے سجا بھارت۔جہاں تمام دھرم مل جل کر ایک رنگ میں رنگ گئے ہوں۔کسی کے مذہب اور ذات کی پہچان نہیں رہتی، سب بھارت ماتاکے سپوترہوتے۔سب آپس میں بھائی بھائی ہوتے۔ ایسے بھائی جو ایک دوجے سے پیار کرتے ہوں، ایک دوسرے کی بھاؤناؤں اور جذبات کا خیال رکھتے ہوں، ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شریک ہوتے ہوں۔ محبت اور بھائی چارہ کا جو انداز میں نے یہاں دیکھا پھرکبھی، کہیں دیکھنے کونہ ملا۔ اسی طرح جب محرم کا مہینہ آتا توتمام تعزئیے اسی برگد کے نیچے جمع ہوتے اور غمِ حسین میں مسلمانوں کی طرح ہندوبھی شریک ہوتے۔ مرثیہ خوانی کی دردبھری آوازوں سے ان کی آنکھیں بھی بھیگ جاتیں۔ دیوالی میں ایک طرف سے پکوان آتے تو دوسری طرف سے عید میں سویوں کے تحفے بھیجے جاتے۔برہم استھان کے پرشاد ہمیں اتنے ہی لذیذ لگتے، جتنی جمعے کو مسجد میں تقسیم ہونے والی فاتحہ کی کھیر ہندو بچوں کو مزیدار لگتی تھی۔
یوں توگاؤں میں بہت سے برگدکے پیڑ تھے مگربرگد کا یہ پیڑگاؤں کا سنٹرل پوائنٹ تھا۔عام دنوں میں یہاں گاؤں کے لوگ دھوپ سے بچنے کے لئے بیٹھا کرتے۔یہ سب کو سایہ دیتا۔دھرم اور ذات کی بنیاد پر کسی کے ساتھ بھید بھاؤ نہیں کرتا۔راستہ چلتے مسافر بھی کچھ دیر کے لئے یہاں رک کر آرام کر لیتے۔کنویں کا ٹھنڈاپانی پی کر پیاس بجھاتے اور پھر آگے کاسفر کرتے۔برہم استھان اور کالی استھان کی طرف جانے والی عورتوں کی ٹولیاں،چہرے پر لمبے لمبے گھونگھٹ ڈالے ،گیت گاتی ہوئی ادھر سے گزرتیں توان کی آواز ماحول میں رس گھول دیتی۔برگد کی چھاؤں میں بیٹھنے والے ایک دوسرے کی خیر خبر لیتے اور جب کبھی گاؤں والوں میں کوئی اختلاف ہوجاتا تو یہیں پنچائت کرکے اس کاحل ڈھونڈنے کی کوشش بھی کرتے۔ گاؤں کے ان سیدھے سادے لوگوں کا ماننا تھا کہ پنچ بھگوان کا روپ ہوتا ہے، اس کے کنٹھ میں بھگوان بولتاہے، اس لئے زیادہ تر مسائل اور سمسیاؤں کاحل بات چیت سے ہی نکل جاتا تھا، تھانہ پولس اورکوٹ کچہری تک جانے کی نوبت کم ہی آتی تھی۔آپسی پیار ہی تھا کہ اس گاؤں سے کوئی بھی دیش کے بٹوارے کے بعد پاکستان نہیں گیا۔ بزرگوں کا کہنا تھا کہ گاؤں کے کچھ لوگوں نے پاکستان جانے کا ارادہ کیاتو ان کے پاس کچھ ہندو بھائی آئے اور پوچھا کہ کیا آپ لوگوں کو ہم سے کوئی شکایت ہے؟ مسلمانوں نے جواب دیا نہیں! پھر انھوں نے کہا ہم سے کوئی تکلیف ہے تو مسلمانوں کا جواب تھا بالکل نہیں۔پھر ہندو بھائیوں نے کہا جب آپ کو ہم سے کوئی پریشانی نہیں اور نہ ہی ہم سے کوئی شکایت ہے تو صدیوں کے پریم اور بھائی چارے کو چھوڑکر پاکستان جانے کے بارے میں کیوں سوچ لیا؟ اس جذباتی سوال کا کسی کے پاس کوئی جواب نہ تھا اور پھرکوئی پاکستان جانے کی ہمت نہ کر پایا۔
اسی گاؤں ’لدّھی‘(سیوان،بہار)میں میری پیدائش ہوئی اور گاؤں کے اسی ماحول میں اپنی زندگی کے قیمتی سات سال گزارے۔ وہ بچپن کے دن تھے اس لئے جو کچھ دیکھا، پتھر کی لکیر کی طرح میرے دل ودماغ میں بیٹھ گیا۔پھر گاؤں سے نکل گیا اور آج تک باہر ہوں البتہ ہر دوتین سال بعد ہفتہ ،دس دن کے لئے ضرور جاتاہوں۔اس مٹی میں میرے بچپن کی یادیں بسی ہوئی ہیں۔ اس مٹی کی سوندھی خوشبو پرچندن اور کستوری کی سگندھ قربان۔ اس مٹی سے تلک تونہیں کیا جاتا،البتہ میں نے بارہاعورتوں کو شیمپو کے طور پر بالوں میں استعمال کرتے ہوئے دیکھا ہے۔جب بھی گاؤں گیا کچھ نہ کچھ بدلاہوا محسوس ہوا۔ایک بار گیا تو وہ برگد بھی نہیں تھا۔ مجھے بہت افسوس ہوامگر کرکیاسکتاتھا؟اس کی چھاؤں میں بیٹھنے والے بزرگ بھی اب نہ رہے۔اکّا دکّا لوگ بچے ہیں وہ بھی اب اپنی زندگی کے آخری دن گن رہے ہیں۔اب گاؤں کا ماحول بھی پہلے جیسا نہ رہا اورنہ ہی وہ بھائی چارہ بچاہے۔ بُراہو دھرم کے نام پرہونے والی راجنیتی کا اور مسجد،مندر کے نام پر ہونے والی سیاست کا جس نے بھائی بھائی کو ایک دوسرے کے خون کاپیاسا بنا دیا۔ صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ میل محبت سے رہنے والی قوموں کے دلوں کو بانٹ دیا۔آج وہ ایک دوسرے کو شک کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں اور پریم ، بھائی چارہ کی دولت جو صدیوں کی کمائی کے طور پر جمع ہوئی تھی اُسے گنوارہے ہیں۔یہاں سرسوں کے پیلے پیلے پھول آج بھی کھِلتے ہیں،مگر ان کی مسکراہٹ میں اب وہ بات کہاں؟ مدھ مکھیاں آج بھی شہد جمع کرتی ہیں مگراس میں اب وہ لذت کہاں؟گنوں کی کھتیاں آج بھی ہوتی ہیں مگر مٹھاس میں کچھ کڑواہٹ بھی شامل ہوگئی ہے۔چڑیوں کی چہچہاہٹ اور مرغوں کی بانگ سے اب بھی سویرا ہوتاہے، مگر۔۔۔
خیر آج حالات جو بھی ہوں ،میں اسی بیتے دور میں جینا چاہتاہوں،جہاں قدرت کاحسن ہو،جہاں پیار ہو ،محبت ہو،بزرگوں کی دعاؤں کاسایہ ہو۔ حالانکہ یہ درشیہ اب کہیں دکھائی نہیں دیتے، بس اسے اپنے خیالوں میں ہی دیکھاجاسکتاہے۔آج میں بھارت کی راجدھانی دلّی میں رہتاہوں۔جہاں نئے دور کی بھاگ دوڑ اور مشینی زندگی نے انسان سے قدرتی ماحول کا سکون چھین لیا ہے۔ہرجگہ، ہروقت ایک میلہ سا دکھائی دیتا ہے۔انسان کی شکل میں جومخلوق دکھائی دیتی ہے اس میں تہذیب اور سنسکار جیسی باتیں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ میں اپنے ماضی میں جیناچاہتاہوں۔اُسی بیتے دور میں لوٹ جاناچاہتاہوں جو،اب کل بن چکا ہے مگر یہ ممکن نہیں۔ شہرمیں دم گھٹتاہے مگرضرورت اسے چھوڑنے کی اجازت نہیں دیتی۔میرادل باربار یہ سوال پوچھتاہے۔
پوربی پون نہیں، بگیا نہیں کویل نہیں
کیوں تمہارے شہر میں برگدنہیں، پیپل نہیں
جواب دیں