آبادی کے لحاظ سے ہم کم نہیں ہیں۔ ہماری آبادی ہمیشہ سے کم رہی۔ اس کے باوجود ہم نے حکومت کی۔ ہم ہر دور میں مٹھی بھر رہتے ہوئے سینکڑوں ہزاروں کے لشکر پر غالب رہے… آج کروڑوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود کیڑے مکوڑے کی زندگی گذارنے کے لئے مجبور کیوں ہیں۔
ہماری اس حالت کے لئے ہم کیوں اوروں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ کیوں نہیں جائزہ لیتے اپنے آپ کا۔ اپنی کمزوری کیا ہے؟ اسے جاننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے… اتنا وقت کس کے پاس ہے جائزہ لینے‘ خود کا محاسبہ کرنے کے لئے… کوئی بات نہیں ہم کوشش کرتے ہیں اپنی کمزوری، بے بسی کی وجوہات کا پتہ چلانے کی۔
جب کبھی اچھے یا برے حالات سے گزرتے ہیں تو توفیق ملتی ہے تو ہم سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اس کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حیات مبارکہ کے دو ادوار ہیں۔ ایک مکی دور، دوسرا مدنی دور.. مکی زندگی کے بھی دو دور ہیں۔ اعلانِ نبوتؐ سے پہلے کا دور اور اس کے بعد کا دور۔ ایک صالح نوجوان، ہمدرد و ایماندار، امانت دار حق گو سچے انسان کی حیثیت سے آپؐ کی مکہ مکرمہ میں قدر ومنزلت رہی… لوگ آپؐ کے پاس اپنی امانتیں رکھ دیا کرتے… قبائلی، خاندانی تنازعات کی یکسوئی کے فیصلے کا آپ کو اختیار دیتے… یہ آپ کے کردار کی مضبوطی‘ اخلاق کی بلندی تھی جس نے مکہ کے تمام قبائل اور اس کے سرداروں کے درمیان آپ کی شخصیت کو سب سے اعلیٰ و افضل اور ارفع بنادیا تھا۔
اعلانِ نبوت کے بعد کا دور آزمائشی رہا۔ جو آپؐ کو صادق اور امین کہتے‘ آپؐ کی عزت کیا کرتے تھے وہی آپؐ پر پتھر برساتے… آپؐ کی تعظیم کرنے الوں نے توہین میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہر قسم کی اذیتیں دیں۔ معاشی بائیکاٹ کیا‘ حملے کئے… ہر طرح ستایا… اس کے باجود ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے پائے استقامت میں کبھی جنبش نہیں آئی۔ مظالم بڑھے تو اللہ رب العزت پر یقین اور بڑھ گیا۔ ایمان پختہ ہوتا گیا… سجدے طویل ہونے لگے… آہستہ آہستہ حق کا بول بالا ہوا۔ صحابہؓ مٹھی بھر تھے‘ غیر معمولی تعداد میں پہنچ گئے۔ اس کے باوجود ہجرت کے کربناک مرحلہ سے بھی گذرنا پڑا۔ مدنی دور طمانیت کا دور رہا۔ یہاں سے اسلام کی فتح و نصرت کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ جس مکہ سے ہجرت کے لئے آپؐ اور آپؐ کے صحابہؓ مجبور ہوئے… اس مکہ میں آپؐ فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے… آپؐ نے رواداری، ا خلاص، مروت، محبت کی مثال قائم کی۔ پھول کی پتی سے ہیروں کے جگر کٹنے لگے۔ زنگ آلود لوہے کی طرح سخت قلوب موم کی طرح پگھلنے لگے… نفرتیں، محبتوں میں، انتقامی جذبے سے عقیدتوں میں ڈھلنے لگے۔ دشمن دوست بننے لگے، کیسے… آپؐ اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ کے اخلاق و کردار سے متاثر ہوکر… خلفائے راشدینؓ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ پھر خلافت نے بادشاہت کا لبادہ اوڑھ لیا۔ تقویٰ پرہیز گاری کی جگہ قرابت داری کو ترجیح دی جانے لگی۔ سادگی… قناعت پسندی کی جگہ عیش و عشرت و اسراف نے لے لی۔ اللہ رب العزت نے ناتوانوں کو توانائی، بے کسوں کو اقتدار، محتاجوں کو نعمتوں سے نوازا تھا۔ جب اس کا غلط ا سعتمال ہونے لوگا تو خالق کائنات نے دی ہوئی نعمتیں چھین کر یاد دلایا کہ اس کا وعدہ ہے کہ تم شکر ادا کرو میں اور زیادہ عطا کروں گا اور اگر انکار کروگے تو یقیناًمیرا عذاب سخت ہے۔ جب ہم ناشکرے ہوگئے تو سب کچھ چھین لیا گیا۔
سرزمین ہند پر بھی امت مسلمہ کو اقتدار سے نوازا گیا… کئی سو سال حکومت کرنے کا موقع دیا گیا۔ مسلم بادشاہوں نے عالیشان عمارتیں تعمیر کروائیں۔ رفاہِ عامہ کے کام بھی کئے۔ مگر اپنی حرم سراؤں کو عیاشی کے مراکز بنادیا۔ طوائفوں کے کوٹھے آباد کئے… جھک جھک کر فرشی سلام کرنے والوں کو جاگیرات عطا کردیں۔ اگر یہ کوشش کرتے تو اپنے دین کی تبلیغ کرسکتے تھے۔ بہترے حکمرانوں نے اپنے اقتدار کے لئے دوسرے مذاہب کو بھی اختیار کیا… یا دوسرے مذاہب کی خواتین کو یا تو ملکہ بنایا یا حرم سراء میں داخل کیا۔ اور ان خواتین نے اپنے بھائی برادری کو ہر اہم شعبہ پر اہم منصب پر بٹھا دیا … ہندوستانی مسلمانوں کا اس پر اثر ہوا۔ حاکم مسلمان تھا۔ رعایا خود کو حاکم سمجھنے لگی۔ مذہب سے دوری، عیش پرستی کا چلن، علم سے دوری نے انہیں نسل درنسل لاچار، محتاج اور محکوم بنادیا۔ اس لاچاری، محتاجی، علم سے دوری کی وجہ سے وہ اخلاقی بحران کا شکار ہوتے گئے… اپنی بقاء کے لئے وہ ناجائز و حرام طریقہ اختیار کرنے لگے۔حرام غذاء، خون بن کر رگوں میں دوڑتی ہے تو اسے کہیں کا نہیں رکھتی۔ ذلالت رسوائی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت کے ساتھ ایسا ہوتا رہا… تباہی و بربادی، گمراہی کے اندھیروں میں اللہ کے نیک بندوں نے حق و حلال کے چراغ روشن رکھے.. مگر ہمارے کاہلوں نے ان اللہ والوں کے آستانوں کو بھی اپنے مفادات کا مرکز بنالیا۔ ان کی تعلیمات کو عام کرنے کی بجائے‘ ان سے دور کرتے ہوئے وہ راستے دکھانے لگے جو گمراہی کے اور تباہی کے غاروں تک ہی پہنچتے ہیں۔
بہرحال… گزرا ہوا کل ہو یا آج کا دور‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے ذریعہ اپنے دین کو قائم رکھا‘ بلکہ اسے ناسازگار حالات اور ماحول میں پھیلانے کے وسائل بھی فراہم کئے۔ جس کی بدولت صدیوں حکمرانی کرنے والے مسلمان جب محکوم ہوگئے تو اللہ کے اِن نیک بندوں نے ہی انہیں دوبارہ عزت اور وقار کے ساتھ جینے کا حوصلہ بھی دیا اور سلیقہ بھی سکھایا۔ آج اللہ رب العزت کے فضل و کرم سے سرزمین ہند پر لاکھوں مساجد ہیں جہاں سے اللہ اکبر کی صدائیں پانچوں وقت بلند ہوتی ہیں۔ یہ اور بات ہیکہ لبیک کہتے ہوئے ان مساجد کا رخ کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہوگئی ہے۔ اگر اللہ اکبر کی صدا پر ہر مسلمان لبیک کہتا ہوا خانہ خدا میں پہنچ جائے تو پھر کس کی ہمت ہے ہمارے آگے ٹکنے کی… ہم سے آنکھ ملاکر بات کرنے کی۔ مسجد میں باجماعت نماز کا اہتمام کیا ہی اس لئے جاتا ہے کہ اس کا اثر پورے سماج پر ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کے حالات سے واقفیت‘ سماجی حالات کا جائزہ‘ اپنی کمزوریوں کا جائزہ‘ دشمنوں کی تدبیروں کو ناکام بنانے کے منصوبے ایسے ہی بنائے جاسکتے ہیں۔ ہر جمعہ کو مساجد میں مسلمانوں کی تعداد دیکھ کر دشمنوں کے رونگٹے کھڑے رہتے ہیں۔ اگر پانچوں وقت ہم جمعہ کی طرح مساجد میں جمع ہونے لگیں تو دشمن محض منصوبہ بناتا رہ جائے گا۔ مساجد میں ہم رمضان کے پہلے عشرہ میں کثیر تعداد میں آنے لگتے ہیں۔ مگر دشمنوں کے ایجنٹس اس موقع پر ہمیں مختلف مسائل میں الجھاکر آپس میں اختلافات پیدا کردیتے ہیں۔ ہماری طاقت بکھر جاتی ہے۔ ہر مسجد میں فتنہ پرور موجود رہتے ہیں۔ ان کو پہچان کر ان کو سزا دینے کی ضرورت ہے۔ تنازعات میں الجھاکر ہمیں کئی خاتون میں تقسیم کرنے والوں کے سماجی بائیکاٹ کی ضرورت ہے۔
آج مسلمان کمزور کیوں ہے؟ اگر ایمانداری سے ہم جائزہ لیں تو ہمیں اپنا اصل چہرہ نظر آئے گا ’’داغدار چہرہ‘‘۔ ہم صادق اور امین کے امتی … آج سب سے بڑے دھوکہ باز اور خائن ہیں۔ بے ایمانی،دھوکہ بازی، چوری، اسمگلنگ سے لے کر عیاشی بلکہ دلالی میں بھی ہم آگے ہیں۔ ظاہر ہے کہ قانون کی نظر میں مجرم ہیں‘ ہم آنکھ ملاکر بات نہیں کرسکتے۔ ہمارے بے ایمانی ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان بھی جرائم کی دنیا میں آگے بڑھنے لگے ہیں وہ مسلمانوں کی غلط تصویر پیش کرتے ہیں۔ ان نوجوانوں کی بے کرداری، گمراہی کے ذمہ دار ہم اور آپ ہی ہیں۔ رشوت خوری، حرام خوری کے بعد کیا اولاد سے متقی و پرہیزگار ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ماضی میں ہماری عزت‘ ہمارے اخلاق و کردار کی وجہ سے کی جاتی تھی۔اب ہم رسوا ہیں تو اخلاق و کردار کی گراوٹ کی وجہ سے۔ماؤں کا وہی حال ہے۔ بے راہ روی کی شکار لڑکیاں جب ماں بنتی ہیں تو ان کی گود میں پرورش پانے والے بچے کیسے نکلیں گے۔ جن عورتوں کی زندگی ٹی وی سیریلس، نت نئے فیشن، ساس نندوں کی شکایتوں، اڑوس پڑوس کی خواتین کی غیبت، چغل خوری میں گزر جائے ان کے گھر تباہ نہیں ہوں گے تو کیا ہوگا۔ جب کوئی گھر اندر سے کھوکھلا ہوجائے تو اسے گرانے کے لئے بیرونی حملہ آور کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہر گھر میں ایک خاندان نہیں بلکہ الگ الگ فرد ہوتا ہے۔ گھر میں ہی اتحاد نہ ہو تو پھر بیرون حملہ آور سے مقابلہ کیا۔ سیاستدانوں کا کیا حال ہے۔ جذبات سے کھیلتے ہیں اور قوم کا سودا کرتے ہیں۔ بیشتر علمائے کرام ’’کارپوریٹ‘‘ سیکٹر کے غلام ہیں۔ ان کے مفادات کا خیال کرتے ہوئے فتوے کی تعلیم دیتے ہیں۔ نہ تو مذہبی رہنمائی ہے اور نہ ہی سیاسی قیادت۔کاہلی، کمزوری، تساہلی کی وجہ سے سرکاری ملازمت نہیں ملتی۔ ظاہر ہے کہ جو قوم محنت کرتی ہے وہ فوج، پولیس سے لے کر ہر شعبہ حیات میں چھاجاتی ہے۔
ان حقائق کے باوجود سب سے بڑا سچ یہ ہیکہ امت مسلمہ قیامت تک رہنے والی ہے۔ حالات آتے رہیں گے۔ اگر حالات کا مقابلہ کرنا ہے تو پہلے اپنے آپ کو مضبوط کرنا ہوگا۔ اخلاق، کردار، صحت معاشی اعتبار سے مضبوط ہونا ہوگا۔ احتجاج کرنے والے، رونے والوں کا کوئی پرسان حال نہیں… بقول شاعر:
دنیا نامرد کو جینے نہیں دیتی
ہمیں جسمانی طور پر صحت مند ہونا ہے۔ مارشل آرٹس بھی سیکھنے ہیں۔ لکڑی پکڑنا بھی ہے چلاکر مدافعت بھی کرنی ہے۔ عورتیں پڑوسیوں سے تو اچھا مقابلہ کرتی ہیں ان سے اپنے گھر پر حملہ کرنے والوں سے مقابلہ کے لئے مرچ پاؤڈر بھی ہتھیار سے کم نہیں۔ اس کی نوبت نہیں آئے گی اگر ہم اپنے آپ کو سدھار لیں۔ ہم اپنے معاشرہ کی ضرورت بن جائیں۔ کسی بھی شعبہ سے ہمارا تعلق ہو اس میں ماہر ہوجائیں تو ہمارا سماج، ہمارے مذہب کو نہیں ہمارے فن کو دیکھے گا۔ اس کی قدر کرے گا۔ تو کیا ایسا ممکن نہیں۔ کیوں نہیں۔ آج ارادہ کیجئے‘ انشاء اللہ کل ہمارا ہوگا۔(ی
جواب دیں