جبکہ دفاع نے صرف سلمان خان کے ڈرائیورکوبطور گواہ کے پیش کیا اور یہ بھی مشکوک ہی رہا،کیس میں سلمان خان پر الزام لگایاگیاتھاکہ ۲۸؍ستمبر۲۰۰۲ء کی رات کوباندرہ میں واقع امریکن ایکسپریس بیکری کے باہر فٹ پاتھ پر سورہے لوگوں پر اپنی لینڈکروزرکارچڑھادی تھی،جس کے نتیجے میں ایک آدمی کی موت ہوگئی اوردیگرپانچ لوگ شدید طورپر زخمی ہوئے تھے۔بالی ووڈکے سپراسٹارکی طرف سے یہ کہاگیا کہ وہ نہ تو شراب پیے ہوئے تھے اورنہ ہی وہ اپنی کار ڈرائیوکررہے تھے،بلکہ کاران کا ڈرائیورہی چلارہاتھا،بات قانون کو دھول جھونکنے والی تھی،جس میں مسٹرخان کا میاب نہیں ہوپائے اور قانون کے لمبے ہاتھ کی گرفت سے بچ نہ سکے۔سب حیرت میں ہیں کہ اتنے بڑے اسٹار کو کیسے جیل ہوگئی،حالاں کہ یہ کوئی نئی بات بھی نہیں ہے،اس سے پہلے بھی بہت سارے فلم اسٹار جیل کی ہوا کھاتے رہے ہیں اور سنجے دت تو ابھی بھی لمبی سزاجھیل رہے ہیں۔خودسلمان خان بھی آئے دن کہیں نہ کہیں،کسی نہ کسی اُلجھٹے کے شکار ہوتے ہی رہتے ہیں،کالے ہرن کے شکار کا معاملہ بھی ان ہی کے ساتھ پیش آیاتھا،اس کے علاوہ کئی باروہ میڈیااہل کاروں کے ساتھ بدتمیزی جیسے معاملوں میں بھی سرخیوں میں رہ چکے ہیں۔
خبرآئی ہے کہ جب کورٹ نے سلمان خان کے خلاف فیصلہ سنایا ،تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے،یہ کیسے آنسوتھے؟ظاہرہے کہ کسی بھی انسان پر جب کوئی مصیبت آن پڑتی ہے،تواس کے جذبات پژمردہ اور احساسات آزردہ ہو ہی جاتے ہیں اور جب وہ آدمی اپنی ایک عوامی امیج رکھتاہو،دنیابھر میں اس کے لاکھوں نہیں ،کروڑوں چاہنے والے ہوں،ہرچہارجانب اس کا غلغلہ ہو،شورہو،نوجوانوں میں اس کاکریزہو،تب تومعاملہ اور بھی دگر گوں ہوجاتا ہے؛کیوں کہ اس کے چاہنے والے بھی یہ چاہتے ہیں کہ وہ صرف خوبیوں کا مرقع ثابت ہواور وہ لوگ اسے صرف اپنے خواب ناک تصورکی نگاہوں سے ہی دیکھتے ہیں اوراِس قسم کے ’’Public figures‘‘کے ساتھ بھی یہ مسئلہ ہوتاہے کہ وہ اپنے آپ کولیے دیے رکھیں اور خود کو اس طرح manage کریں کہ لوگوں کی نگاہوں میں ویسے ہی نظر آسکیں،جیسا کہ وہ اُنھیں دیکھنا چاہتے ہیں۔مگر انسان بہر حال انسان ہے،وہ چاہے مقبولیت و شہرت کے جس آسمان پر بھی پہنچ جائے،وہ مافوق البشر ہستی توبن نہیں سکتا،اگرچہ وہ اپنی اداکاری کی دنیا میں ایک تصوراتی،اساطیری وماورائی حیثیت اور شناخت رکھتاہو ،مگر حقیقت کی دنیا میں تووہ جوہے وہی رہے گا۔اس کے اندر اگر بہت سی خوبیاں ہوں گی،توچندایک خامیاں بھی ضرورہوں گی ۔فلموں میں باڈی دکھانا،غنڈوں کی کھیپ کی کھیپ کو آن کے آن میں لمبا لیٹ کردینا،سیاست و معاشرت کی خامیوں پر انگلی رکھنا اور انھیں دور کرنے کی مہم چلاناوغیرہ یہ سب کوئی ایکٹرکی فکر اور سوچ کا عکاس تو ہوتا نہیں،یہ تواسکرپٹ رائٹرکی سوچ ہوتی ہے،جسے شکل اور حرکت ایک ایکٹردیتاہے،سوہم اگرتمام فلم اسٹاروں کے بارے میںیہ سوچتے ہیں کہ وہ اپنی واقعی اور خارجی زندگی میں بھی بڑے مسیحاہیں،ان کے دل میں انسانوں کی بڑی ہمدردی پائی جاتی ہے،وہ لوگوں کی تکلیف کو دیکھ نہیں سکتے اور وہ کمزوروں اور ناتوانوں کی مددسے کبھی بھی دریغ نہیں کرتے،تویہ محض ہمارا بھرم ہے۔ فیصلہ سننے کے بعد جس سلمان خان کی آنکھوں میں آنسووں کی بوندیں تیر رہی تھیں،کیا۲۰۰۲ء کی اُس رات بھی ان آنکھوں میں نمی کے آثار ہویداہوئے تھے،جب ان کی مدہوش ڈرائیونگ کی زد میں کئی بے قصور اورسماج کے سب سے کمزور افرادآگئے تھے ،وہBeing Humanکے نام سے ایک این جی اوبھی چلاتے ہیں اور ہم نے سناہے کہ اس کے ذریعے سے وہ تنگ دستوں ،کمزوروں اورغریبوں کی بڑی مدد بھی کرتے ہیں،مگر مسئلہ تویہ ہے کہ سلمان خان جیسے انسان کے پاس اسی سطح کے غریبوں کی تورسائی ہوتی ہے،گلی محلوں یا گاؤں دیہاتوں میں بھوکے ننگے پھرنے والے انسان ایسے ہائی پروفائل رفاہی اداروں تک کہاں پہنچ پاتے ہیں۔
بہر کیف میری تحریرکا اصل مدعا مذکورہ بالا کیس،اس پر آنے والا تازہ ترین فیصلہ اور اس کے متعلقات ہیں۔اس فیصلے کے بعد مجموعی طورپر میڈیامیں بھی اور سماجی سطح پر بھی دوقسم کے تاثرات پائے جارہے ہیں،کچھ لوگ ہیں،جوان سے اظہارِ ہمدردی کررہے ہیں ؛بلکہ بہت سے توایسے بھی ہیں،جوان کی سزاکے فیصلے کوہی غلط مان رہے ہیں۔اظہارِ ہمدردی کرنے والوں میں بالی ووڈکاگلیمرورلڈ سرِ فہرست ہے؛کیوں کہ مسٹر خان کے جیل رسید ہونے کی وجہ سے بالی ووڈکادوسوکروڑداؤپرلگ رہاہے،کئی ہیرو،ہیروئن ان سے اظہارِ ہمدردی کر چکے ہیں اورابھی اور کریں گے۔ویسے فیصلہ آنے کے فوراً بعد ہی ان کی ضمانت کی عرضی بھی ممبئی ہائی کورٹ میں داخل کردی گئی ہے،ایسالگ رہاہے کہ گویا سلمان خان کے جیل جانے کی وجہ سے کوئی قیامت سی برپاہوجائے گی۔جبکہ ایسے لوگ بھی ہیں،جن کا بجاطورپریہ ماننا ہے کہ یہ فیصلہ انصاف پر مبنی ہے اور مسٹرخان کو جو سزاسنائی گئی ہے،بالکل درست ہے۔زیادہ تر لوگوں کاماننا یہی ہے اورہونا بھی یہی چاہیے۔ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے،یہاں کا قانونی نظام مضبوط ہے،لوگوں کو اس پر اعتماد ہے اوروہ ہمیشہ اس اعتمادکوقائم رکھنے کی کامیاب کوشش کرتارہاہے،کوتاہیاں اورچوک بھی ہوتی رہتی ہیں،مگرعام طورپرہندوستان کی معززعدلیہ سے جس انصاف کی امید کی جاتی ہے،اس پر وہ
کھری اُترتی ہے۔البتہ اس تاریخی فیصلے کے آنے کے بعد ماہرینِ قانون و سماجیات کے درمیان پھر ایک بحث زور وشور سے شروع ہوگی کہ ہمارے ملک کی عدالتیں فیصلے سنانے میں اتنی تاخیر کیوں کردیتی ہیں کہ بے چارہ مظلوم تھک ہارکرچورہوجاتاہے اور مجرم کھلے بندوں گھومتا،معمول کی زندگی گزارتا اور عیش کی روٹی توڑتا رہتاہے۔کہتے ہیں کہ انصاف میں تاخیر بھی ظلم اورناانصافی کے مترادف ہے،تواس پس منظرمیں توہمارے ملک کی عدلیہ انصاف کے اصل تقاضوں کومکمل طورپرپوری کرتی ہوئی نظرنہیں آتی۔ایک بے قصوراورمعاشرتی و معاشی اعتبار سے کمزوروناتواں انسان ایک دوسرے بظاہر طاقت ور، مشہور ترین اورنوجوان ہندوستان کی نگاہوں میں اسٹارانسان کی مدہوشانہ ڈرائیونگ کے نتیجے میں آج سے بارہ سال پہلے عالمِ خواب ہی میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتاہے ،مرنے والے کو دیکھنے والی بھی پچاسوں آنکھیں ہیں اورمارنے والے کوبھی،سب گواہیاں بھی دیتی جارہی ہیں،مگراس کے باوجودکورٹ،عدالت اور ہمارے معززجج صحیح فیصلے تک پہنچنے میں بارہ سال کی طویل ترین مسافت طے کرڈالتے ہیں۔ایسا یہ کوئی انوکھا کیس نہیں ہے،ملک بھر کی ضلعی،ریاستی اور قومی عدالتوں میں ہزاروں ایسے کیسزہیں،جن سے بڑی امیدیں جڑی ہوئی ہیں،کتنوں کی زندگی اور موت ان سے وابستہ ہے،کتنے خاندان ان کیسوں کے نتیجے میں اب تک اجڑچکے اور تباہ و برباد ہوچکے ہیں،مگرظلم و جرم اورعدل و انصاف کی مسلسل آنکھ مچولی ان مقدمات کودرازسے درازتر کیے جارہی ہے۔
جواب دیں