رام راجیہ کا راگ الاپنے والےکارپوریٹ گھرانوں اور اپنوں کی بدعنوانیوں پرخاموش!
نور اللہ جاوید، کولکاتا
کرناٹک کے عوام نے وزیراعظم مودی کے دوہرے کردارکو رد کردیا
آئینی اداروں کو کمزور کرنے ، آرٹی آئی اور لوک پال کو غیر موثر کرنے کی پالیسی سوالوں کی زد میں
کرناٹک اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی شاندار جیت میں سیاسی جماعتوں کے لیے الگ الگ پیغام ہیں مگر سب سے بڑا پیغام کرناٹک کے عوام نے جودیا ہے وہ یہ ہے کہ آج بھی اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بدعنوانی ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ ملک میں الگ قسم کی سیاست اور رام راجیہ لانے کا دعویٰ کرنے والی بی جے پی نے بدعنوانی کے خلاف پوری لڑائی کو مخالفین کوخاموش کرنے اور پارٹی مفادات کی تکمیل تک محدود کرکے کمزور کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔اگرچہ وزیر اعظم مودی ہر موقع پر یہ دعویٰ ضرور کرتے رہے کہ بدعنوانی سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا مگر ان کے قول و عمل میں زمین و آسمان کا فرق ملک کا ہر ایک شہری محسوس کرنے لگا تھا۔مرکزی جانچ ایجنسیوں سی بی آئی، ای ڈی اور انکم ٹیکس کی جانبداری پر اٹھنے والےسوالات کا جائزہ لینے کے بجائے وزیر اعظم مودی ان اداروں کا یہ کہہ کر دفاع کرتے رہے کہ سی بی آئی اور ای ڈی کو صرف اس لیے بدنام کیا جارہا ہے کہ وہ چند طاقتور لوگوں کے خلاف کارروائی کررہی ہے۔یہ طاقتور طبقہ ایجنسیوں کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بدنام کررہا ہے‘‘۔ مگر سوال یہ ہے کہ آج ملک میں طاقتور کون ہے؟اگر جانچ ایجنسیاں طاقتوروں کے خلاف کارروائیاں کررہی ہیں تو وزیر اعظم مودی جن پر اڈانی سے تعلقات ہونے کی وجہ سے الزامات لگ رہے ہیں اڈانی کی جانچ کیوں نہیں کروارہےہیں؟ وزیر اعظم کیئر فنڈ کا حساب کیوں نہیں دیا جارہا ہے؟ وزیر اعظم انل امبانی سے اپنے رشتے کی وضاحت کیوں نہیں کرتے؟ کرناٹک میں جہاں بی جے پی کو کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہےوہاں وزیر اعلیٰ بومئی پر براہ راست بدعنوانی کے الزامات لگائے گئے، سینئر لیڈر یدی یورپا الزامات کی زد میں رہے مگر جانچ ایجنسیاں صرف کانگریسی لیڈر ڈی شیو کمار کے خلاف کارروائی کرتی رہیں،یہی وجہ ہے کہ آج عالمی ادارے بھارت کے آئینی اداروں میں شفافیت کے فقدان کی وجہ سے تنقیدیں کررہے ہیں ۔اگرسابق گورنر ستیہ پال ملک کے حالیہ بیانات کے تناظر میں وزیر اعظم کے دعوؤں کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت خود بخود سامنے آتی ہے کہ وزیر اعظم مودی نے بدعنوانی کے سوال کو سیاسی نعرے بازی میں تبدیل کردیا ہے۔ کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج نے واضح کردیا ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں ایجنڈے اور بدعنوانی کے سوال پر پوری قوت کے ساتھ انتخاب لڑیں تو عوام آج بھی بدعنوانی کے خلاف ووٹ دینے کے لیے تیار ہیں۔کانگریس نے بومئی حکومت کی بدعنوانی کے خلاف زور دار مہم چلائی اور اپنی انتخابی مہم کو بدعنوان، عوامی فلاح وبہبود اور ملک کے سیکولر ازم پر مرکوز رکھا ۔دوسری طرف وزیر اعظم مودی اور بی جے پی نے کرناٹک میں بدعنوانی کے سوال پر خاموشی اختیار کی اور انتخابی مہم کو فرقہ وارانہ صف بندی (پولرائزیشن) کارنگ دیا اور بجرنگ دل کی غنڈہ گردی کو جے بجرنگ بلی کے نام پر جواز بخشنے کی کوشش کی مگر بدعنوانی ، مہنگائی اور بے روزگاری سے پریشان کرناٹک کےعوام نے بدعنوانی کےسوال کو زیادہ اہمیت دی۔چنانچہ اب کانگریس کے سامنے بھی سوالات کھڑے ہوگئے ہیں کہ وہ کرناٹک میں جن شعبوں میں بدعنوانی کی نشان دہی کررہی تھی اس کے صفائے کے لیے و ہ کیا اقدام کرے گی؟ کمیشن خوری اور رشوت ستانی کے خاتمے کے لیے اس کے پاس کیا فارمولے ہیں؟ اور اس سے بھی بڑا سوال یہ ہےکہ کیا وزیراعظم مودی اور ان کی پارٹی شکست کی اصل حقیقت کا ادارک کرے گی؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ گزشتہ 9 سالوں میں بدعنوانی کے خلاف لڑائی کو محض اپوزیشن جماعتوں اور اس کے لیڈروں تک محدود رکھا گیا ہے ۔جانچ ایجنسیوں کی زد میں آنے والے اپوزیشن لیڈران اگر بی جے پی میں شامل ہوجاتے ہیں تو وہ جانچ ایجنسیوں کی زد میں آنے سے بچ جاتے ہیں۔ایسے لیڈروں کی ایک طویل فہرست ہے ۔اس کا ثبوت حال ہی میں اختتام پذیر میگھالیہ اسمبلی انتخابات ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران امیت شاہ سمیت بی جے پی کے سینئر لیڈر پوری شد و مد کے ساتھ میگھالیہ کے وزیراعلیٰ کے خلاف بدعنوانی کا مسئلہ اٹھارہے تھے۔انہیں جیل بھیجنے کی یقین دہانیاں کرارہے تھے مگر انتخابات کے نتائج آنے کے بعد اسی ’’بدعنوان وزیرا علیٰ‘‘ کی حمایت کرنے میں بی جے پی نے لمحہ بھر کی بھی تاخیر نہیں کی ۔ظاہر ہے کہ اس کو بے شرمی اور اخلاقی دیوالیہ پن کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے۔ سوال صرف میگھالیہ کا نہیں ہے ایسی درجنوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ جہاں بدعنوانی کے سوال کو سیاسی فائدےکےلیے نظر انداز کر دیا گیا۔ان حالات میں وزیر اعظم مودی یہ دعویٰ کیسے کرسکتے ہیں کہ جانچ ایجنسیاں طاقتور طبقے کی بدعنوانی کے خلاف جانچ کررہی ہے۔اس وقت ملک میں سب سے طاقتورخود وزیراعظم ہیں۔ رافیل اور اب اڈانی معاملے میں خود ان پر بھی بدعنوانی کی آنچ آرہی ہے۔اخلاقیات کا تقاضا تھا کہ وہ خود جانچ ایجنسیوں سے کہتے کہ ان کے خلاف جانچ کریں ۔اگر ایجنسیاں ان کی بے گناہی پر مہر لگادیتی تو ان کا قد خود بخود بلندہوجاتا۔مگر آج سیاست میں اعلیٰ اخلاقی قدروں کے لیے جگہ کہاں ہے؟ رام راجیہ کی باتیں کرنے والوں کے لیے تمام قدریں دوسروں کے لیے ہیں۔سوال صرف وزیرا عظم مودی تک محدود نہیں ہے بلکہ کئی مرکزی وزرا، بی جے پی کے سینئر وزرا، بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور دیگر وزرا کے خلاف بدعنوانیوں کے الزامات کے باوجود جانچ ایجنسیاں خاموش ہیں ۔ چاہے ویاپم گھوٹالہ ہو یا سوجن گھوٹالہ یا بینک گھوٹالہ کسی بھی معاملے کی غیر جانبدار جانچ نہیں ہوسکی ہے۔جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے، جنہیں خود وزیر اعظم نریندر مودی نے گورنر مقرر کیا تھا، جموں و کشمیر میں ریلائنس کے پروجیکٹ کے لیے تین سو کروڑ روپےکی رشوت اور گوا میں وزیرا علیٰ کے ذریعہ کمیشن وصولی کے الزامات عائد کیے ہیں۔ ستیہ پال کوئی معمولی شخص نہیں ہیں وہ آئینی عہدہ پر فائز رہ چکے ہیں لیکن سی بی آئی کے نزدیک یہ کوئی جانچ کے قابل معاملہ نہیں ہے۔
’’اسٹارٹ اپ‘‘ یعنی ملک کے نوجوانوں کی جانب سے نئے آئیڈیاز کے ساتھ کاروبار شروع کرنے کو مودی حکومت اپنی سب سے بڑی کامیابی قرار دیتی ہے۔یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مودی حکومت کی صنعتی پالیسی کی وجہ سے ہی نوجوانوں کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے اور وہ بیرون ممالک سے یہاں آکر اسٹارٹ اپس کررہے ہیں ۔مگر سوال یہ ہے کہ اسٹارٹ اپ ملک کی معیشت اور نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے میں کیا کردار ادا کررہا ہے؟ 2015کے بعد سے ہی مودی حکومت اسٹارٹ اپ کے نام پر ٹیکس سے لے کر قرض دینے تک بڑی رعایتیں دے رہی ہے مگر اس کے باوجود ملک میں بے روزگاری کی شرح اس وقت سب زیادہ کیوں ہے؟ دراصل بیشتر اسٹارٹ اپ کمپنیاں ملک میں رجسٹرڈ ہی نہیں ہیں، دوسرے یہ کہ چھوٹے اور درمیانی درجے کی صنعتیں جو 75فیصد روزگار فراہم کرتی ہیں، انہیں مکمل طور پر نظرانداز کردیا گیا ہے۔نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔سرمایہ کاری کے نام پر جس طریقے سے دھوکہ دہی کی رپورٹیں سامنے آرہی ہیں وہ حیران کن ہیں۔بیشتر اسٹارٹ اپ اس وقت نقصان میں چل رہے ہیں ۔آئی پی او کے نام پر عوام کو لوٹا جارہا ہے۔گزشتہ مہینے 24 مارچ کو نوئیڈا میں اسٹارٹ اپ کمپنیوں کے لیے سرمایہ کاری کے نام پر جو دھوکہ دہی کی گئی اگرچہ میڈیا میں وہ بڑی خبرنہیں بنی مگر اسٹاراپ اور سرمایہ کاری کے نام پر کیا جانے والا ایک گھناونا کھیل سامنے آیا ہے۔
ملک میں بدعنوانی سے متعلق عالمی اداروں کی رپورٹ
2022میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی سالانہ رپورٹ میں بھارت سے متعلق جو مشاہدات پیش کیے گئے ہیں وہ نہ صرف تشویش ناک ہیں بلکہ جمہوریت اور جمہوری اداروں کی شفافیت کے تعلق سے خطرے کی گھنٹی ہیں۔سالانہ رپورٹ2022 کے مطابق 180ممالک کی درجہ بندی میں بھارت 85ویں مقام پر ہے جبکہ گزشتہ سال وہ 86ویں مقام پر تھا یعنی درجہ بندی میں ایک درجہ معمولی بہتری آئی ہے۔یہ درجہ بندی 0سے 100نمبر تک کی جاتی ہے ۔یعنی جن ممالک میں بدعنوانی کی شرح سب سے کم ہے انہیں 100نمبر دیے جاتے ہیں اور جہاں سب سے زیادہ بدعنوانی ہے ان ممالک کو صفر یا پھر اس کے آس پاس اسکور دیا جاتا ہے ۔کم اسکور رکھنے والوں میں دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ممالک جیسے چین (45) اور بھارت (40) اور دیگر بڑی معیشتیں جیسے انڈونیشیا (38) پاکستان (28) اور بنگلہ دیش (26) شامل ہیں۔پڑوسی ممالک کے مقابلے میں بھارت کا اسکور بہتر ہے ۔تاہم رپورٹ میں جمہوری اور آئینی اداروں کی آزادی اور شفافیت سے متعلق تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ کچھ ایسے میکانزم جو بدعنوانی پر قابو پانے میں مدد کرنے والے تھے کمزور ہورہے ہیں یا پھر انہیں کمزور کیا جارہا ہے۔اس کے ساتھ ہی ملک کی جمہوری حیثیت پر خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔بنیادی آزادیاں اور ادارہ جاتی شفافیت زوال پذیر ہے ۔صحافی و جہد کار خاص طور پر خطرے میں ہیں اور وہ پولیس، عسکریت پسندوں، جرائم پیشہ گروہوں اور بدعنوان مقامی اہلکاروں کے حملوں کا شکار ہورہے ہیں۔ حکومت کے خلاف بولنے والی سول سوسائٹی کی تنظیموں کو سیکیورٹی، ہتک عزت، بغاوت، نفرت انگیز تقریر اور توہین عدالت کے الزامات اور غیر ملکی فنڈنگ کے ضوابط کے تحت نشانہ بنایا جارہاہے۔آکسفیم انڈیا اور بی بی سی کے خلاف حالیہ کارروائیاں اس کا ثبوت ہیں۔آکسفیم انڈیا نے بھارت میں دولت کی غیر مساویانہ تقسیم سے متعلق رپورٹ شائع کی تھی جب کہ بی بی سی نے وزیراعظم مودی کے گجرات فسادات کے دوران رول پر ایک ڈاکومینٹری شائع کی تھی۔اس کے فوری بعد ہی دونوں اداروں کے خلاف جانچ ایجنسیاں سرگرم ہوگئیں۔
نظام میں شفافیت کا فقدان
اداروں میں شفافیت کے بغیر بدعنوانی کے خاتمے کی امید نہیں کی جاسکتی ۔آج جو دعویٰ کیا جارہا ہے کہ مودی حکومت کے 9سالہ دور حکومت میں کوئی بڑا گھوٹالہ سامنے نہیں آیا ہے تو سوال یہ ہے کہ ان برسوں میں اداروں میں جوابدہی اور نظام کی شفافیت کا ’ایکو سسٹم‘ منہدم کیوں ہوگیا ہے؟ اس کا ذکر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی سالانہ رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے بلکہ اس دوران کئی ایسے اقدامات کیے گئے جو بدعنوانی کو قانونی حیثیت دیتے ہیں جن میں انتخابی بانڈز سرفہرست ہے۔سیاسی جماعتیں گمنام طریقے سے انتخابی بانڈس لے سکتی ہیں۔ انتخابی بانڈز سے متعلق کوئی جواب دہی نہیں ہے،یہ بانڈز کس نے دیے اور اس قدر بڑے پیمانے پر رقم دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اس طرح کا کوئی سوال ان جماعتوں سے نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ کارپوریٹس اور غیر ملکی طاقتوں کو سیاسی جماعتوں کو خریدنے کی کھلی چھوٹ دیدی گئی ہے۔ اگر کوئی کارپوریٹ کہتا ہے کہ اگر آپ اس مخصوص پالیسی کو پاس کرتے ہیں تو میں آپ کو 1
جواب دیں