ڈاکٹر سراج الدین ندوی
ایڈیٹر ماہنامہ اچھا ساتھی ۔بجنور
رمضان وہ مہینہ ہے جس میں حق و باطل کے درمیان فیصلہ کن معرکہ واقع ہواجسے ہم غزوہ بدر کے نام سے جانتے ہیں۔ غزہ بدر کوئی معمولی معرکہ نہیں تھا۔اس کا مقصد جہانگیری اور کشور کشائی نہیں تھا ۔ کفارمکہ مدینہ میں موجود مسلمانوں کے دشمن اس لیے نہیں تھے کہ مدینہ کے مسلمانوں نے کفار مکہ کو کوئی جانی و مالی نقصان پہنچایا تھا ،وہ تو الٹے مکہ چھوڑتے وقت اپنی زمین جائداد چھوڑ کر آئے تھے ۔ نہ مسلمانوں نے اہل مکہ کے اقتدار کو چیلینج کیاتھا ۔بلکہ مسلمانوں کے قائد اور اللہ کے رسول ﷺ نے ان کے مشرکانہ عقائد پر تنقید کی تھی ، معبودان باطل کی خدائی کا انکار کردیا تھا اور ایک اللہ کی عبادت و حاکمیت کا اعلان کیا تھا ۔اہل مکہ جن عقائد کو صدیوں سے درست مانتے آرہے تھے ، پتھروں کے جن بتوں سے انھوں نے اپنی امیدیں باندھ رکھی تھیں اور جن کے آستانوں پر وہ نذرو نیاز پیش کرتے تھے ، یک بیک انھیں میں سے ایک شخص اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔اہل مکہ اس سے مصالحت کی کوشش کرتے ہیں اور اس بات پر راضی کرنا چاہتے ہیں کہ ایک دن ہم تمہارے معبود کی پوجا کرلیا کریں اور ایک دن تم ہمارے معبودوں کی پوجا کرلیا کرو ،مگر وہ دوٹوک الفاظ میں کہہ دیتا ہے :’’ اے منکرین حق میں ان کی پرستش کرہی نہیں سکتا جن کی تم کرتے ہو،تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور ہمارے لیے ہمارا دین۔‘‘
غزوہ بدر کی جو تفصیلات کتب سیرت میں ملتی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے 17 رمضان المبارک 2ھ (17 مارچ 624ء) کو فجر کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جہاد کی تلقین کی۔ مسلمانوں کے لیے سخت آزمائش کا وقت تھا اس لیے کہ اپنے ہی بھائی بند سامنے کھڑے تھے۔حضرت ابوبکر ؓاپنے بیٹے عبد الرحمن سے اور حضرت حذیفہؓ کو اپنے باپ عتبہ سے مقابلہ کرنا تھا۔صفیں درست ہوجانے کے بعدنبی اکرم ﷺ اللہ کے حضورسجدے میں گرگئے،اللہ کی تسبیح کے بعد آپ ؐ یوں گویا ہوئے۔’’اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے، وہ پورا فرما۔ اے اللہ! اگر آج یہ مٹھی بھر لوگ ہلاک ہوگئے تو پھر قیامت تک تمام روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔‘‘ ( بخاری، مسلم، ترمذی، مسند امام احمد)
دعا کے علاوہ نبی اکرم ﷺ نے دوران جنگ ایک مٹھی کنکر اٹھائی اور دشمن کے لشکر کی طرف پھینک دی ،اس ریت کا ذرہ جس کافر پر بھی جاکر گرا اس جنگ میں وہ مارا گیا۔سورہ انفال کی آیت 17میں نبی اکرم ﷺ کے کنکر مارنے کے متعلق اللہ کا ارشاد ہے۔: ’’اور آپؐ نے (حقیقتاً وہ کنکر) نہیں پھینکی، جس وقت (بہ ظاہر) آپ نے (کنکر) پھینکی تھی، لیکن وہ (کنکر) اللہ تعالیٰ نے پھینکی۔‘‘ (الانفال: 17)
جنگ کے آغاز پرعرب کے دستور کے مطابق پہلے انفرادی مقابلے ہوئے۔ سب سے پہلے عمر بن الحضرمی کا بھائی عامر میدان میں نکلا اور مدمقابل طلب کیا۔ مقابلے پر حضرت عمرؓ کا ایک غلام نکلا اور اس نے چشم زدن میں اس مغرور کا خاتمہ کر دیا۔ جو اپنے بھائی کا انتقام لینے کے لیے آیا تھا۔ اس کے بعد عتبہ بن ربیعہ اس کا بھائی شیبہ اور اس کا بیٹا ولید بن عتبہ میدان میں نکلے اور مقابل طلب کیے۔ تین انصاری صحابہ ؓمیدان میں نکلے لیکن ان تینوں کافروںنے یہ کہہ کر ان سے مقابلہ کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ ہمارے ہم پلہ نہیں ہیں اور پکار کر کہا:۔’’ اے محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمارے مقابلے پر قریشی بھیجو۔ ہم عرب کے چرواہوں سے مقابلہ کرنے کے لیے یہاں نہیں آئے ہیں۔‘‘ چنانچہ آپ ؐکے ارشاد پر حضرت حمزہؓ، حضرت علیؓ اور حضرت ابو عبیدہؓ مقابلے کے لیے نکلے۔ مغرور قریشی سرداروں نے ان کے نام پوچھے اور کہا۔ ’’ہاں تم ہمارے ہم پلہ ہو‘‘مقابلہ شروع ہوا۔ چند لمحوں میں حضرت حمزہؓ نے عتبہ کو ،حضرت ابو عبیدہ نے شیبہ کو جہنم رسید کر دیا اور حضرت علیؓ نے ولید کو قتل کر ڈالا اور لشکر اسلام سے تکبیر کی آواز بلند ہوئی۔ قریش نے اپنے نامور سرداروں کو یوں کٹتے دیکھا تو یکبارگی حملہ کر دیا تاکہ اکثریت کے بل بوتے پر لشکر اسلام کو شکست دیں۔
غزوہ بدرمیں مومنین کے جوش جہاد کا یہ حال تھا کہ ایک صحابی کھجوریں کھا رہے تھے۔ انہوں نے حضور اکرمؐ کا اعلان ’’آج کے دن جو شخص صبر و استقامت سے لڑے گا اور پیٹھ پھیر کر نہ بھاگے گا وہ یقینا جنت میں جائے گا‘‘۔ سنا تو کھجوریں پھینک دیں اور فرمایا :۔’’واہ واہ میرے اور جنت کے درمیان میں بس اتنا وقفہ ہے کہ یہ لوگ مجھ کو قتل کر دیں۔‘‘ یہ کہہ کر اتنی بہادری سے لڑے کہ شہید ہوگئے اور چند لمحوں میں جنت کا فاصلہ طے کر لیا۔ اس ہنگامے میں انصار کے دو کم عمر بچے معاذ بن عمرو بن جموع اور معاذ بن عفراء، حضرت عبدالرحمن ؓبن عوف کے پاس آئے اور ان میں سے ایک نے کہا:۔
’’چچاجان! آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں وہ کہاں ہے؟ ہم نے سنا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گالیاں بکتا ہے۔ اس پاک ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر میں اس کو دیکھ لوں تو اس وقت تک اس سے جدا نہ ہوں گا جب تک کہ وہ مر نہ جائے یا میں شہید نہ ہو جاؤں‘‘۔یہی بات دوسرے نے کہی۔ اتفاق سے ابوجہل کا گزر سامنے سے ہوا۔ حضرت عبد الرحمن ؓبن عوف نے اس کی طرف اشارہ کر دیا۔ اشارہ پاتے ہی یہ دونوں ننھے مجاہد اپنی تلواریں لے کر اس کی طرف بھاگے۔ وہ گھوڑے پرسوار تھا اور یہ دونوں پیدل۔ جاتے ہی ان میں سے ایک نے ابوجہل کے گھوڑے پر اور دوسرے نے ابوجہل کی ٹانگ پر حملہ کر دیا۔ گھوڑا اور ابوجہل دونوں گر پڑے۔ عکرمہ بن ابوجہل نے معاذ بن عمر وکے کندھے پر وار کیا اور ان کا باز ولٹک گیا۔ باہمت نوجوان نے بازو کو راستے میں حائل ہوتے دیکھا تو پاؤں کے نیچے لے کر اسے الگ کر دیا اور ایک ہی ہاتھ سے اپنے شکار پر حملہ کر دیا۔ اتنے میں معاذ بن عفرا کے بھائی معوذ وہاں پہنچے اور انہوں نے ابوجہل کو ٹھنڈا کر دیا اورجنگ کے بعد عبد اللہ بن مسعود ؓنے اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔
اللہ نے ا س پہلے معرکے میں اہلِ ایمان کو شان دار فتح عطا فرمائی۔ پورے جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کی دھاک بیٹھ گئی اور کفر کی ہوا اکھڑ گئی۔ قریش کا رعب اور دبدبہ خاک میں مل گیا۔ مدینہ کے یہود اور منافقین مایوس ہوگئے، مگر ان کے دلوں کا کینہ اندر ہی اندر لاوا بن کر پکتا رہا۔ شکست کی خبر مکہ میں پہنچی تو پورا شہر سکتے میں آگیا۔کوئی گھرانہ ایسا نہ تھا، جس کے افراد جنگ میں قتل نہ ہوئے ہوں یا مسلمانوں کے ہاتھوں قیدی نہ بن گئے ہوں۔ لوگوں کے دلوں سے خوشی اور ہونٹوں سے مسکراہٹ غائب ہوگئی۔ جنہیں چند سال پہلے تک مکہ کی وادیوں میں گھسیٹا جارہا تھا وہ کمزور ی وبے سروسامانی کے باوجود اپنے ایمان کی قوت سے اسلحے کی طاقت اور مادی وسائل پر غالب آچکے تھے۔
ہزیمت کی خبر سننے کے بعد ایک بار تو مکہ کی فضائیں ماتم کے کہرام سے گونج اٹھی تھیں، مگر قریش کی قیادت نے فوراً اعلان کردیا کہ مقتولین کا ماتم نہ کیا جائے، کیونکہ اس سے کمزوری کا اظہار ہوتا ہے۔ قریش کے تمام معروف سردار بدر کے میدان میں قتل ہوچکے تھے۔ اس لئے اب مکہ کا قائد بنوامیہ کا سردار ابوسفیان بن حرب تھا۔ خالد بن ولید، صفوان بن امیہ، عکرمہ بن ابی جہل اور عمروبن عاص اس کے مشیر اور دست وبازو تھے۔ ابوسفیان نے نہ صرف آہ وبکا سے منع کیا تھا، بلکہ نوجوانوں کی ڈیوٹی لگا دی تھی کہ وہ لوگوں پر نظر رکھیں اور کسی کو بلند آواز سے رونے نہ دیں۔اس کا اپنا بیٹا حنظلہ، اس کا خسر عتبہ، اس کی بیوی کا بھائی ولید اور بہت سے دیگر رشتہ دار بدر میں لقمہ اجل بن چکے تھے۔ اس نے خانہ کعبہ میں جا کر قسم کھائی کہ وہ جب تک مقتولین کا بدلہ نہ لے لے گا سر میں تیل نہیں لگائے گا، نہ ہی غسل کرے گا۔ شعرا ء نے مقتولین کے درد بھرے مرثیے لکھے۔
غزوہ ٔ بدرصحابہ ؓ کرام کے جوش ایمانی اوراللہ اور اس کے رسول سے محبت کا کھلا ہوا ثبوت ہے ۔اسی ایمان کی آج بھی ضرورت ہے۔اپنے ایمان کو مضبوط کیجیے۔اللہ کی قدرت پر یقین رکھیے۔رمضان کے مہینے میں بھی اگر اللہ پر ایمان،اللہ کے رسول سے محبت اور اسلام کے غلبہ کے لیے سب کچھ قربان کردینے کا جذبہ پیدا نہیں ہوا تو پھر یہ روزہ نہیں فاقہ ہے۔ آج ہمارے سامنے اگرچہ کوئی میدان قتال نہیں ہے ،لیکن مومن کے سامنے انسانی معاشرے میں ہر وقت کوئی نہ کوئی شیطان رہتا ہے ۔اس شیطان سے جنگ کرنا ایک مومن کے لیے ضروری ہے ،نفس امارہ خود ایک شیطان ہے ،پھر ہر سماج میں ظالم رہتے ہیں جو غریبوں کو ستاتے ہیں ،اس ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ضروری ہے ۔غزوہ بدر سے ایک مومن کو یہ حوصلہ ملتا ہے کہ صحابہ کرام نے بھوک پیاس کی شدت برداشت کرکے ظالموں کے چھکے چھڑادیے تھے تو ہم کیوں نہیں میدان مار سکتے ۔اللہ جب 313صحابہ کی مدد کے لیے فرشتوں کی جماعت بھیج سکتا ہے تو ہمارے لیے کیوں نہیں بھیج سکتا ہے ۔شرط یہ ہے کہ ہمیں اپنے دعوائے ایمان میں سچا اور مخلص ہونا چاہئے۔اللہ نے اسی شرط پر وعدہ فرمایا ہے :’’ تم ہی سربلند رہوگے اگر تم مومن ہو‘‘ (آل عمران 139)بقول شاعر:
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
غزوہ بدر کی جو تفصیلات کتب سیرت میں ملتی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے 17 رمضان المبارک 2ھ (17 مارچ 624ء) کو فجر کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جہاد کی تلقین کی۔ مسلمانوں کے لیے سخت آزمائش کا وقت تھا اس لیے کہ اپنے ہی بھائی بند سامنے کھڑے تھے۔حضرت ابوبکر ؓاپنے بیٹے عبد الرحمن سے اور حضرت حذیفہؓ کو اپنے باپ عتبہ سے مقابلہ کرنا تھا۔صفیں درست ہوجانے کے بعدنبی اکرم ﷺ اللہ کے حضورسجدے میں گرگئے،اللہ کی تسبیح کے بعد آپ ؐ یوں گویا ہوئے۔’’اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے، وہ پورا فرما۔ اے اللہ! اگر آج یہ مٹھی بھر لوگ ہلاک ہوگئے تو پھر قیامت تک تمام روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔‘‘ ( بخاری، مسلم، ترمذی، مسند امام احمد)
دعا کے علاوہ نبی اکرم ﷺ نے دوران جنگ ایک مٹھی کنکر اٹھائی اور دشمن کے لشکر کی طرف پھینک دی ،اس ریت کا ذرہ جس کافر پر بھی جاکر گرا اس جنگ میں وہ مارا گیا۔سورہ انفال کی آیت 17میں نبی اکرم ﷺ کے کنکر مارنے کے متعلق اللہ کا ارشاد ہے۔: ’’اور آپؐ نے (حقیقتاً وہ کنکر) نہیں پھینکی، جس وقت (بہ ظاہر) آپ نے (کنکر) پھینکی تھی، لیکن وہ (کنکر) اللہ تعالیٰ نے پھینکی۔‘‘ (الانفال: 17)
جنگ کے آغاز پرعرب کے دستور کے مطابق پہلے انفرادی مقابلے ہوئے۔ سب سے پہلے عمر بن الحضرمی کا بھائی عامر میدان میں نکلا اور مدمقابل طلب کیا۔ مقابلے پر حضرت عمرؓ کا ایک غلام نکلا اور اس نے چشم زدن میں اس مغرور کا خاتمہ کر دیا۔ جو اپنے بھائی کا انتقام لینے کے لیے آیا تھا۔ اس کے بعد عتبہ بن ربیعہ اس کا بھائی شیبہ اور اس کا بیٹا ولید بن عتبہ میدان میں نکلے اور مقابل طلب کیے۔ تین انصاری صحابہ ؓمیدان میں نکلے لیکن ان تینوں کافروںنے یہ کہہ کر ان سے مقابلہ کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ ہمارے ہم پلہ نہیں ہیں اور پکار کر کہا:۔’’ اے محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمارے مقابلے پر قریشی بھیجو۔ ہم عرب کے چرواہوں سے مقابلہ کرنے کے لیے یہاں نہیں آئے ہیں۔‘‘ چنانچہ آپ ؐکے ارشاد پر حضرت حمزہؓ، حضرت علیؓ اور حضرت ابو عبیدہؓ مقابلے کے لیے نکلے۔ مغرور قریشی سرداروں نے ان کے نام پوچھے اور کہا۔ ’’ہاں تم ہمارے ہم پلہ ہو‘‘مقابلہ شروع ہوا۔ چند لمحوں میں حضرت حمزہؓ نے عتبہ کو ،حضرت ابو عبیدہ نے شیبہ کو جہنم رسید کر دیا اور حضرت علیؓ نے ولید کو قتل کر ڈالا اور لشکر اسلام سے تکبیر کی آواز بلند ہوئی۔ قریش نے اپنے نامور سرداروں کو یوں کٹتے دیکھا تو یکبارگی حملہ کر دیا تاکہ اکثریت کے بل بوتے پر لشکر اسلام کو شکست دیں۔
غزوہ بدرمیں مومنین کے جوش جہاد کا یہ حال تھا کہ ایک صحابی کھجوریں کھا رہے تھے۔ انہوں نے حضور اکرمؐ کا اعلان ’’آج کے دن جو شخص صبر و استقامت سے لڑے گا اور پیٹھ پھیر کر نہ بھاگے گا وہ یقینا جنت میں جائے گا‘‘۔ سنا تو کھجوریں پھینک دیں اور فرمایا :۔’’واہ واہ میرے اور جنت کے درمیان میں بس اتنا وقفہ ہے کہ یہ لوگ مجھ کو قتل کر دیں۔‘‘ یہ کہہ کر اتنی بہادری سے لڑے کہ شہید ہوگئے اور چند لمحوں میں جنت کا فاصلہ طے کر لیا۔ اس ہنگامے میں انصار کے دو کم عمر بچے معاذ بن عمرو بن جموع اور معاذ بن عفراء، حضرت عبدالرحمن ؓبن عوف کے پاس آئے اور ان میں سے ایک نے کہا:۔
’’چچاجان! آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں وہ کہاں ہے؟ ہم نے سنا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گالیاں بکتا ہے۔ اس پاک ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر میں اس کو دیکھ لوں تو اس وقت تک اس سے جدا نہ ہوں گا جب تک کہ وہ مر نہ جائے یا میں شہید نہ ہو جاؤں‘‘۔یہی بات دوسرے نے کہی۔ اتفاق سے ابوجہل کا گزر سامنے سے ہوا۔ حضرت عبد الرحمن ؓبن عوف نے اس کی طرف اشارہ کر دیا۔ اشارہ پاتے ہی یہ دونوں ننھے مجاہد اپنی تلواریں لے کر اس کی طرف بھاگے۔ وہ گھوڑے پرسوار تھا اور یہ دونوں پیدل۔ جاتے ہی ان میں سے ایک نے ابوجہل کے گھوڑے پر اور دوسرے نے ابوجہل کی ٹانگ پر حملہ کر دیا۔ گھوڑا اور ابوجہل دونوں گر پڑے۔ عکرمہ بن ابوجہل نے معاذ بن عمر وکے کندھے پر وار کیا اور ان کا باز ولٹک گیا۔ باہمت نوجوان نے بازو کو راستے میں حائل ہوتے دیکھا تو پاؤں کے نیچے لے کر اسے الگ کر دیا اور ایک ہی ہاتھ سے اپنے شکار پر حملہ کر دیا۔ اتنے میں معاذ بن عفرا کے بھائی معوذ وہاں پہنچے اور انہوں نے ابوجہل کو ٹھنڈا کر دیا اورجنگ کے بعد عبد اللہ بن مسعود ؓنے اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔
اللہ نے ا س پہلے معرکے میں اہلِ ایمان کو شان دار فتح عطا فرمائی۔ پورے جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کی دھاک بیٹھ گئی اور کفر کی ہوا اکھڑ گئی۔ قریش کا رعب اور دبدبہ خاک میں مل گیا۔ مدینہ کے یہود اور منافقین مایوس ہوگئے، مگر ان کے دلوں کا کینہ اندر ہی اندر لاوا بن کر پکتا رہا۔ شکست کی خبر مکہ میں پہنچی تو پورا شہر سکتے میں آگیا۔کوئی گھرانہ ایسا نہ تھا، جس کے افراد جنگ میں قتل نہ ہوئے ہوں یا مسلمانوں کے ہاتھوں قیدی نہ بن گئے ہوں۔ لوگوں کے دلوں سے خوشی اور ہونٹوں سے مسکراہٹ غائب ہوگئی۔ جنہیں چند سال پہلے تک مکہ کی وادیوں میں گھسیٹا جارہا تھا وہ کمزور ی وبے سروسامانی کے باوجود اپنے ایمان کی قوت سے اسلحے کی طاقت اور مادی وسائل پر غالب آچکے تھے۔
ہزیمت کی خبر سننے کے بعد ایک بار تو مکہ کی فضائیں ماتم کے کہرام سے گونج اٹھی تھیں، مگر قریش کی قیادت نے فوراً اعلان کردیا کہ مقتولین کا ماتم نہ کیا جائے، کیونکہ اس سے کمزوری کا اظہار ہوتا ہے۔ قریش کے تمام معروف سردار بدر کے میدان میں قتل ہوچکے تھے۔ اس لئے اب مکہ کا قائد بنوامیہ کا سردار ابوسفیان بن حرب تھا۔ خالد بن ولید، صفوان بن امیہ، عکرمہ بن ابی جہل اور عمروبن عاص اس کے مشیر اور دست وبازو تھے۔ ابوسفیان نے نہ صرف آہ وبکا سے منع کیا تھا، بلکہ نوجوانوں کی ڈیوٹی لگا دی تھی کہ وہ لوگوں پر نظر رکھیں اور کسی کو بلند آواز سے رونے نہ دیں۔اس کا اپنا بیٹا حنظلہ، اس کا خسر عتبہ، اس کی بیوی کا بھائی ولید اور بہت سے دیگر رشتہ دار بدر میں لقمہ اجل بن چکے تھے۔ اس نے خانہ کعبہ میں جا کر قسم کھائی کہ وہ جب تک مقتولین کا بدلہ نہ لے لے گا سر میں تیل نہیں لگائے گا، نہ ہی غسل کرے گا۔ شعرا ء نے مقتولین کے درد بھرے مرثیے لکھے۔
غزوہ ٔ بدرصحابہ ؓ کرام کے جوش ایمانی اوراللہ اور اس کے رسول سے محبت کا کھلا ہوا ثبوت ہے ۔اسی ایمان کی آج بھی ضرورت ہے۔اپنے ایمان کو مضبوط کیجیے۔اللہ کی قدرت پر یقین رکھیے۔رمضان کے مہینے میں بھی اگر اللہ پر ایمان،اللہ کے رسول سے محبت اور اسلام کے غلبہ کے لیے سب کچھ قربان کردینے کا جذبہ پیدا نہیں ہوا تو پھر یہ روزہ نہیں فاقہ ہے۔ آج ہمارے سامنے اگرچہ کوئی میدان قتال نہیں ہے ،لیکن مومن کے سامنے انسانی معاشرے میں ہر وقت کوئی نہ کوئی شیطان رہتا ہے ۔اس شیطان سے جنگ کرنا ایک مومن کے لیے ضروری ہے ،نفس امارہ خود ایک شیطان ہے ،پھر ہر سماج میں ظالم رہتے ہیں جو غریبوں کو ستاتے ہیں ،اس ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ضروری ہے ۔غزوہ بدر سے ایک مومن کو یہ حوصلہ ملتا ہے کہ صحابہ کرام نے بھوک پیاس کی شدت برداشت کرکے ظالموں کے چھکے چھڑادیے تھے تو ہم کیوں نہیں میدان مار سکتے ۔اللہ جب 313صحابہ کی مدد کے لیے فرشتوں کی جماعت بھیج سکتا ہے تو ہمارے لیے کیوں نہیں بھیج سکتا ہے ۔شرط یہ ہے کہ ہمیں اپنے دعوائے ایمان میں سچا اور مخلص ہونا چاہئے۔اللہ نے اسی شرط پر وعدہ فرمایا ہے :’’ تم ہی سربلند رہوگے اگر تم مومن ہو‘‘ (آل عمران 139)بقول شاعر:
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
جواب دیں