✍️ محمد سمعان خلیفہ ندوی
استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل
پیر محمد شاہ لائبریری میں چار گھنٹے سے زائد گزر گئے اور پتہ بھی نہیں چلا، پروفیسر محی الدین صاحب اللہ انھیں سلامت باکرامت رکھے، علمی دنیا کا وہ گوہر نایاب ہیں کہ ان کی مجلس میں بیٹھ کر ان سے علمی باتیں کرنا اتنا دل چسپ مشغلہ ہے کہ جی چاہتا ہے بس وہ کہتے رہیں اور ہم سنتے رہیں۔ وقت تو انھوں نے صرف ایک گھنٹے کا دیا تھا مگر ان کی علمی شخصیت کی مقناطیسیت کہیے یا ہمارے سالار کارواں مولانا منیری کی علم دوستی اور ادب نوازی کہ گھنٹوں تک دونوں محو گفتگو اور ہم ہمہ تن گوش۔ خاموشی کی تصویر۔ وہاں سے نکلنے پر احساس ہوا کہ دوپہر کا کھانا ہم لوگوں نے نہیں کھایا ہے اور شام کے ساڑھے آٹھ بج چکے ہیں، احمد آباد کے ہمارے میزبان مفتی یحیی صاحب یکے بعد دیگرے کئی لوگوں کو بھیجتے رہے اور بالآخر وہ بھی سمجھ گئے کہ اب شام ہی کو کھانا ہوگا۔
یہاں سے ہم لوگ سیدھے مفتی یحیی صاحب کے مدرسے دار الفضل جوہاپورہ کے لیے نکل پڑے، وہاں پہنچے تو عشا کی نماز جاری تھی، جماعت میں شریک ہوئے، پھر مدرسے کے مہمان خانے میں پہنچ کر راحت کی سانس لی، میزبانوں نے ضیافت کا بے حد خیال رکھا، پرتکلف دسترخوان سجایا، دن بھر کے تھکے ماندے مسافروں کو اور کیا چاہیے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور بس بستر پر دراز ہوئے۔ مولانا منیری صاحب کے اندر پھر بھی ہمت تھی اس لیے وہ مزید بیٹھے رہے کیوں کہ ان کے کوئی پرانے یار یہاں دریافت ہوئے تھے۔
مفتی یحیی صاحب سے اہل بھٹکل کی شناسائی برسوں کی ہے، ہمارے اساتذہ سے قریبی تعلق ہے، حضرت مفتی خان پوری صاحب کے خلیفہ ہیں، دعوت واصلاح کا خاصا کام کیا ہے، چھریرا بدن مگر پھرتیلے اور ایک صاحب عزیمت انسان ہیں۔
صبح ناشتے سے فارغ ہو کر ہمیں احمدآباد کی کچھ تاریخی مساجد کی زیارت بھی کرنی تھی اور سلطان مظفر شاہ حلیم کے مقبرے پر بھی حاضر ہونا تھا اور پھر بڑودہ کے لیے رخت سفر باندھنا تھا اس لیے جلد ہی فارغ ہوئے اور اپنی منزل کی طرف رواں دواں۔
گاڑی کچھ دیر میں سرخیز روضے پر رکی، جہاں پر سلطان مظفر حلیم گجراتی اور دیگر شاہان گجرات نیز احمد آباد جن چار احمد نامی شیوخ کے نام پر وجود میں آیا ان میں ایک یہاں محو خواب ہیں۔ شاہ ہو یا گدا ہر ایک کو ایک دن جہان گزراں سے گزر کر دو گز زمین کے اس کنج قفس میں پہنچنا ہے۔
عالی شان مسجد اور دوسری جانب وسیع وعریض تالاب اور قلعے کی دیواریں اب بھی بہت کچھ ان شاہان گجرات کی عظمت و شوکت کی داستانیں سنا رہی ہیں۔
یہاں سے ہمارے رہبر ہمیں جالی والی مسجد لے گئے جو فن کاری کا ایک عظیم شاہ کار اور قدیم طرز تعمیر کی ایک زبردست یادگار ہے، اس مسجد کی دیواروں پر آویزاں جالیاں واقعی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں، اس کی خصوصیت یہ ہے کہ ہر جالی کی بناوٹ میں انفرادیت کا مظاہرہ کیا گیا ہے اور سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں، کہیں کہیں دیوراوں کے بیچ سے یہ جالیاں غائب بھی ہیں، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ فرنگیوں کی بوالہوسی اس کو بھی اڑا لے گئی۔
اس کے بعد ہمارا ایک قافلہ جھولتے منارے کی زیارت اور پھر وہاں سے بڑودہ کے لیے روانہ ہوا، مگر ہمیں کسی وجہ سے انتظار کی کلفتوں کو برداشت کرکے بڑودہ کے لیے نکلنا پڑا۔ ایسے میں ہمیں بڑودہ پہنچتے پہنچتے تین بج گئے اور صرف دو گھنٹے ٹرین میں رہ گئے۔
مولانا منیری صاحب ایک گھنٹہ قبل پہنچ چکے تھے، یہاں ہمارے میزبان مولوی عطاء اللہ بڑودوی تھے، نوجوان صالح، سنجیدہ مزاج اور علم دوست، ان سے بھی شناسائی ٹھہری “علم وکتاب” ہی کے واسطے سے۔ ویسے بھی یہ پورا سفر “علم وکتاب” ہی کی چھاؤں میں ہوا بلکہ اس خوان علم کو سجانے والے اور یارانِ نکتہ داں کے لیے صلائے عام بچھانے والے مولانا منیری کے دم قدم سے۔
اس بیچ “علم وکتاب” کے فعال و متحرک کارکن اور نادیدہ ہی سہی مگر اپنی اداؤں سے مسحور کرنے والے مولانا بشارت نواز کا ذکر خیر نہ کیا جائے تو یہ داستان ناقص رہ جائے گی۔ اس سفر میں وقتا فوقتا وہ خیریت معلوم کرتے رہے اور بڑودہ کے لیے مہمیز بھی، کہ ان کے نادیدہ دوست مولوی عطاء الرحمن بڑودہ میں ہماری میزبانی کرنے والے تھے، یہاں کے احباب نے نہایت اخلاص سے گرم جوشی کے ساتھ استقبال بھی کیا اور رنگ برنگے ذائقہ دار پکوانوں سے مزین دسترخوان بھی سجایا۔ مگر مسافروں کے پاس وقت اتنا کم تھا کہ چاہ کر بھی زیادہ دیر ان کے یہاں نہ رک سکے۔ کیوں کہ بڑودہ میں ہمارے لیے سب سے بڑی دل چسپی کا سبب یہاں موجود طویل ترین مصحف شریف بھی تھا۔
جو ساتھی پہلے فارغ ہوئے وہ فورا روانہ ہوئے اور ہم نصف گھنٹے پر قابو پاتے ہوئے نصف گھنٹے دیر سے نکلے۔ مگر اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ہمیں مفتی طاہر صاحب کی سرپرستی میں چلنے والے ایک ادارے کی زیارت کا بھی موقع ملا۔ ماشاء اللہ یہاں بھی یہ حضرات علم دین کی شمعوں کو فروزاں کرنے کی جستجو لے کر کارزار حیات میں معرکہ زن ہیں۔ اللہ ان کے حوصلوں کو جوان رکھے اور ان کی تمناؤں کو پیکر محسوس عطا کرے۔ ایک زمین خریدی گئی ہے جہاں دینی بنیادوں پر اسکول کا نظم بھی کیا جائے گا۔ وہاں پہنچ کر زمین کا معاینہ کیا گیا اور رب کریم کے حضور دعا کی گئی۔
راستے بھر مولوی عطاء الرحمن اور ان کے استاد مولانا عارف جیرہ والا بڑودہ کے احوال سے واقف کرتے رہے اور یہ مجنوں بھی کچھ اپنی بڑ سناتا رہا۔ تنگ وتاریک گلیوں سے بھی گزر ہوا اور دور ہی سے جامع مسجد کی بھی زیارت ہوئی، پھر بالآخر آدھے پون گھنٹے کے بعد شہر کے دوسرے کنارے پر واقع ایک مدرسے میں پہنچے تو بتایا گیا کہ یہیں طویل ترین مصحف موجود ہے، جو پہلے کبھی جامع مسجد میں رکھا گیا تھا مگر اب حفاظت کے لیے اس کو یہاں منتقل کیا گیا ہے۔
یہ دنیا کا ایک نایاب قلمی نسخہ ہے، پندرہ جلدوں میں، ہر جلد میں دو پارے۔ جسے حجم کے اعتبار سے دنیا کے طویل ترین مصحف ہونے کا شرف حاصل ہے، آج سے تقریبا ڈھائی سو سال قبل جب کہ کاغذ اور روشنائی بھی اس قدر دست یاب نہیں تھی، اپنے ہاتھوں سے خود ہی کاغذ اور روشنائی تیار کرکے یہ مصحف ترتیب دے کر شہر کی جامع مسجد میں رکھوایا گیا۔ اس کی لمبائی 75 انچ اور چوڑائی 45 انچ ہے، پورے کمرے کو تقریباً گھیرے ہوئے ہے۔ کتابت دیدہ زیب اور جاذب نظر نیز خوب صورت نقش ونگار سے آراستہ ہے۔ متن قرآن کے ساتھ ترجمہ اور حاشیے پر تفسیر بھی موجود ہے۔ یہ کارنامہ انجام دینے والے بڑودہ کے ایک شخص سید محمد غوث اور ان کے رفقا تھے جنھوں نے بیس سال سے زائد عرصے میں اس مصحف کو 1206 ہجری یعنی آج سے ٹھیک 237 سال مکمل کیا۔
وہیں ایک طرف لوہے کی پلیٹوں پر کندہ قرآن مجید کا ایک اور نسخہ بھی موجود ہے، جو شاید ایک لوح پر مکمل کندہ ہے، مگر اس کے بارے میں تفصیلات معلوم نہ ہوسکیں، اس لیے بھی کہ وقت بہت کم تھا اور ہمیں فورا ریلوے اسٹیشن پہنچنا تھا۔ پانچ بج کر بیس منٹ پر ٹرین کے نکلنے کا وقت تھا، یہاں علم وکتاب کے ایک اور رکن مولانا عمر فاروق ٹنکاروی سے سرسری ہی سہی ملاقات ہوئی۔
پھر ہم ریلوے اسٹیشن پہنچے اور کچھ ہی لمحوں میں ٹرین پر بیٹھ کر واپس اپنے وطن کے لیے روانہ ہوئے۔ اس موقع پر میزبانوں کی طرف سے مولانا منیری صاحب سے آخری لمحات میں کچھ نصیحت کی گزارش کی گئی اور مولانا نے بھی ان کی اس فرمائش کو قبول کرتے ہوئے دو چار منٹ کی مختصر گفتگو میں بھی کلیجہ نکال کر رکھ دیا، سفر کا ماحصل بھی پیش کیا اور گجرات کے اس کاروان علم ودعوت سے کیا کچھ توقعات وابستہ ہیں ان کا اظہار کیا۔
الغرض خوش گوار یادوں کا ایک جہان دل میں بسا کر محض تین روزہ سفر گجرات ختم ہونے کو آیا، تھا تو تین روزہ سفر مگر اپنے مقاصد کی بلندی، علم وتحقیق کی نئی راہوں کی بازیافت اور ان راہوں پر ملنے والے جویائے تحقیق اور شیدائے علم، جواں عزم اور جواں حوصلہ، متحرک اور فعال، نرم دمِ گفتگو اور گرم دمِ جستجو، پاک دل اور پاک باز قافلے کی وجہ سے یہ مختصر سفر بھی بڑا کارآمد اور مفید نظر آیا، اللہ کرے آنے والے دنوں میں ان نئے ساتھیوں کی ہمت وعزیمت نئی جولانیاں دکھائے اور پرواز کے لیے نئے آسمانوں اور نئے جہانوں تک رسائی میسر ہو، تاکہ امت کے قافلۂ نیم جاں کو سفر سعادت کی منزل مقصود ہاتھ آئے اور جیتے جی ان خوابوں کو تعبیر مل سکے جو ہمارے بڑوں نے دیکھے ہیں۔
راستے میں سورت کے اسٹیشن پر مولانا جنید کپاڑیا کی ایک اور ضیافت میسر آئی جو راستے بھر توشے کا کام دیتی رہی۔
داتا رکھے آباداں ساقی تیرا مے خانہ۔
اٹھارہ ستمبر سنیچر کی دوپہر ٹرین کچھ تاخیر سے مرڈیشور ریلوے اسٹیشن پہنچی اور ہم اتر کر اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے۔ اور یہ داستان ختم ہونے کو آئی۔ لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم۔
محمد سمعان خلیفہ ندوی
18 ستمبر 2021
سلسلہ وار مضامین کی شائع گذشتہ قسطیں ان لنکس پر کلک کرکے پڑھ سکتے ہیں۔
ایک یادگار شب – جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل میں
چلتے چلتے مگر حیرت کی تصویر بنتے | جامعہ اصلاح البنات، سملک- خواتین کی ایک مثالی درس گاہ قسط 2
تاریخ کے سینے میں مدفون یادیں- راندیر اور سورت کا ایک مختصر سفر قسط 3
'بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر' : سورت کے اربابِ “ساحل” سے وابستہ خوش گوار یادیں سفر گجرات 4
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں: سورت کے جواں عزم کاروانِ علم ودعوت سے امیدیں (سفر گجرات 5)
پانچویں صدی ہجری کی ایک یادگار مسجد، جس کے احاطے میں حضرت مخدوم فقیہ اسماعیل علیہ الرحمہ کے والد بزرگوار آرام فرما ہیں (سفر گجرات (6)
احمد آباد کی پیر محمد شاہ لائبریری کے ناظم پروفیسر محی الدین صاحب سے ایک یادگار ملاقات (سفر گجرات 7)
جواب دیں