بدلے یہ زمانہ لاکھ مگر قرآن نہ بدلا جائیگا

 

   غفران احمد قاسمی

 

شیشے کے گھر میں بیٹھ کے پتہر ہیں پھینکتے

 

دیوار آہنی پہ حماقت تو دیکھئے

قرآن پاک خالق کائنات کی نازل کردہ وہ کتاب مقدس ہے جو پوری دنیا کی ہدایت و رہنمائی کا کام کرتی ہے، اس کے نزول کا مقصد ہی یہی ہے کہ ضلالت و گمراہی کی بھول بھلیا میں بھٹک رہے انسانوں کی دستگیری کرے، اور انہیں ساحل نجات تک پہنچائے، قرآن پاک کسی خاص علاقے یا انسانوں کے کسی خاص طبقے کیلئے نہیں اتارا گیا ہے بلکہ اسے پوری دنیائے انسانیت کی ہدایت کا سامان بنا کر نازل کیا گیا ہے، قرآن پاک کا ارشاد ہے، شھر رمضان الذی أنزل فیہ القران ھدی للناس رمضان کا وہ مبارک مہینہ جس میں قرآن پاک کو تمام لوگوں کیلئے ہدایت کا سامان بناکر نازل کیا گیا،

قرآن پاک جو راستہ دکھاتا ہے، اور جسے کامیابی کی شاہراہ قرار دیتا ہے، اس میں کسی شک اور شبہ کی گنجائش نہیں ہے، وہی راستہ منزل تک پہنچانے والا ہے، اس کے علاوہ دیگر تمام راستے گمراہی کے ہیں، منزل سے دور لے جانے والے ہیں،قرآن پاک میں ہے ان ھذاالقرآن یھدی للتی ھی أقوم یعنی قرآن پاک بالکل سیدھے راستے کی رہنمائی کرتا ہے، 

 

قرآن پاک کا امتیاز یہ ہیکہ اس میں کسی باطل اور غلط نظرئے کے درآنے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے، اس کا ایک ایک حرف سچا ہے، قرآن پاک میں ہے 

لایاتیہ الباطل من بین یدیہ ولامن خلفہ یعنی قرآن پاک میں باطل کی آمیزش ہو ہی نہیں سکتی، باطل لاکھ کوششیں کر لے، مگر قرآن تک اس کی رسائی کبھی نہیں ہوگی، اور ہو بھی کیسے سکتی ہے؟ جبکہ خود خالق کائنات نے اس کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے چنانچہ ارشاد ہے انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون بیشک ہم نے ہی قرآن پاک کو اتارا ہے اور یقینا ہم ہی اس کی حفاظت کرینگے،

 

 اس کا ایک ایک پیغام انسانیت کی فلاح و بہبود کا ضامن ہے، اس کی کسی بھی تعلیم سے انسانیت کو کوئی خطرہ نہیں، بلکہ قرآن پاک کی ہر تعلیم انسانیت کی بنیاد کو مضبوط اور پختہ کرنے والی ہے،قرآن پاک میں دنیائے انسانیت کیلئے کچھ غلط کیسے ہو سکتا ہے؟ قرآن پاک کا کوئی جز انسانیت کیلئے خطرے کا الارم کیسے ہو جائیگا؟ ذرا سوچئے قرآن پاک کسی انسانی دماغ کی اپج نہیں ہے، قرآن تو خود خالق کائنات کی مرتب کردہ کتاب ہے، پہر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کا کوئی حصہ اور کوئی جز ایسا ہو جس سے اس کائنات کے امن و سکون کے غارت ہونے کا اندیشہ ہو، ایک معمولی سا انسان اپنی بنائی ہوئی چیز کی حفاظت جی جان سے کرتا ہے، پہر خالق کائنات جس کا کوئی حکم مصلحت سے خالی نہیں ہوتا وہ اس دنیا کو بنا کر ایسی کتاب بھلا کیوں اتاریگا جس سے اس دنیا کے تباہ ہو جانے کا خطرہ ہو؟ اسلئے اگر کسی کوتاہ نظر شخص کو قرآن کے کسی پیغام سے انسانیت کیلئے کوئی خطرہ محسوس ہو رہا ہے تو یہ اس کی سراسر خام خیالی ہے، بلکہ اگر اسے اس کی تنگ نظری اور خبث باطن کی علامت کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا، ورنہ قرآن پاک کا ہر پیغام عین تقاضائے انسانیت ہے، کتنے گم گشتۂ راہ انسانوں نے قرآن پاک کا مطالعہ کرکے خود کو صراط مستقیم پر گامزن کر لیا ہے، لیکن یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنکا کام ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ حق کے خلاف آواز اٹھائیں، حق کی حقانیت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کریں، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو دنیا کی حرص و ہوس میں مبتلا ہوتے ہیں، اور جو چند کوڑیوں کے بھاؤ اپنے ضمیر کا سودا کر چکے ہوتے ہیں، انکے خدا انکے خریدار ہوتے ہیں، جیسے ایک صاحب ایمان خدا کا حکم بجا لانے میں سعادت محسوس کرتا ہے، اور اسے اس میں کوئی تأمل نہیں ہوتا، ٹھیک اسی طرح حرص و ہوس کے یہ  غلام اپنے آقاؤں کے حکم کی بجا آواری میں نہیں جھجکتے، چنانچہ اسی قسم کا نہایت ہی گھناؤنا مظاہرہ آجکل ہوا ہے کہ ایک غلام نے قرآن پاک کی چھبیس مقدس آیتوں کو انسانیت مخالف قرار دیتے ہوئے ان پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے،                

 لیکن اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے، کیونکہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے،اسلام پر ہر دور میں پہسپہسے اعتراضات کی یلغار ہوتی رہی ہے، اور اسلام کی آہنی دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر ان اعتراضات و اشکالات نے اپنا ماتھا ہی پھوڑا ہے، دنیا جانتی ہے کہ اس طرح کے بدباطنوں کو سوائے مایوسی کے اور کوئی چیز ہاتھ نہیں لگی ہے، حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا رخ انور ہے ہی اتنا پرکشش کہ حاسدانہ مزاج رکھنے والوں کا جل مرنا یقینی ہے، یہ بات بھی جگ ظاہر ہے کہ ایسے بدخصلت لوگوں کو سمجھانے کی کوشش اکارت ہے جو اپنی حماقت سے روز روشن میں آفتاب کے وجود کو جھٹلانے کی جسارت کرتے ہیں، حق و باطل کی یہ آویزش کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ یہ ابتدائے آفرینش سے ہوتی رہی ہے، اور دنیا اس کا نظارہ کرتی رہی ہے، ہر دور میں حق کے سامنے باطل نے منہ کی کھائی ہے، اور اس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوا ہے،  اس بدطینت شخص نے  جو عرضی سپریم کورٹ میں داخل کی ہے اور قرآن پاک کی چھبیس آیتوں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے، اس طرح کی دریدہ دہنیوں اور ہرزہ سرائیوں سے گھبرانا نہیں ہے، بلکہ اسلام کا ایک سچا اور مخلص سپوت ہونے کے ناطے ہمیں اسلام کا صحیح علم حاصل کرکے دنیا کےسامنے اس کے رخ زیبا سے پردہ اٹھانا ہے، اور لوگوں کو بتانا ہے کہ اسلام امن و شانتی کا پیغامبر ہے، اس نے ایک ایسا اچھوتا اور متوازن نظام پیش کیا ہے جس پر عمل کرکے دنیا کو جنت کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے، اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب تک اسلامی نظام کا عروج رہا، دنیا امن و امان سے لطف اندوز ہوتی رہی، انسانیت زندہ رہی، ہر شخص خود کو محفوظ سمجھتا رہا، عصمتیں تار تار ہونے سے بچی رہیں، لیکن جب دنیا میں اسلامی نظام کو نظر انداز کرکے دوسرا نظام نافذ کیا گیا تو دنیا لوٹ کھسوٹ کا اڈا بن گئی، قتل و غارتگری کو عروج حاصل ہوا، نہ مال محفوظ رہا، نہ جان اور نہ ہی آبرو، ظالموں کی پشت پناہی ہوئی، اور مظلوموں کو در در کی ٹھوکر کھانے پر مجبور ہونا پڑا، آج بھی دنیا اگر حقیقی امن کی متلاشی ہے تو اسے اسلام کے عادلانہ نظام کی گود میں بیٹھنا ہوگا، 

مزہ برسات کا چاہو تو ان آنکھوں میں آبیٹھو

سفیدی ہے، سیاہی ہے، شفق ہے، ابر باراں ہے

یاد رکھئے قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری خود خداوند قدوس نے لی ہے، وہ اس کی حفاظت کریگا، اور اپنے بندوں ہی کے ذریعے کریگا، ایک وسیم رضوی تو کیا اگر ہزاروں لاکھوں وسیم رضوی پیدا ہو جائیں تو وہ  بھی اپنی ناپاک کوششوں سے قرآن کا بال بیکا نہیں کر سکتے، 

نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائیگا

ہاں ہمیں اس بات کی کوشش ضرور کرنی ہے کہ ہم خداوند قدوس کے ان پاکباز و سرفروش بندوں کی فہرست میں اپنے نام کا اندراج کرا لیں جو اس کے دین و شریعت کی حفاظت کا عظیم ترین فریضہ انجام دیتے ہیں، ہمیں ان لوگوں سے جو ان پہسپہسے اعتراضات کی بنیاد پر قرآن پاک کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں، یہ عرض کرنا ہے کہ قرآن پاک کی جن آیتوں کا ذکر آپ کر رہے ہیں، ان آیتوں میں جو پیغام دنیا کو دیا گیا ہے اس پیغام پر اعتراض کرنے سے پہلے اس کاپس منظر سمجھئے، کیا آج دنیا دہشت گردی کے خلاف نہیں ہے؟ کیا  آج کی دنیا یہ نہیں کہتی کہ دھشت پہیلانے والوں کو نیست و نابود کر دیا جائے؟ کیا آج کی دنیا کا یہ نعرہ نہیں ہے کہ دھشت گرد جہاں کہیں بھی ملیں ان کا قلع قمع کر دو؟ اور ان کے وجود سے دنیا کو پاک کرکے اسے امن و شانتی کا گہوارہ بنا دو؟ قرآن پاک کی یہ آیتیں بھی اسی پس منظر میں نازل ہوئی ہیں کہ جو لوگ بندگان خدا کو ظلم و جور کی چکی میں پیستے ہیں، جو انکی جان، مال، عزت و آبرو سے کھیلتے ہیں، جو انسانیت کے دشمن ہیں، ان کا خاتمہ کرو، اور زمین سے فساد مٹاکر امن و امان قائم کرو، قرآن کی ان آیتوں کا یہ پیغام ہرگز نہیں ہے کہ جو اسلام کو نہیں مانتے، جو ایک خدا کی پرستش کے قائل نہیں ہیں، انہیں مٹا دو، انکی زندگی اجیرن کر دو، ایسا بھلا کیسے ہو سکتا ہے؟ وہی قرآن پاک کہتا ہے لاینھکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم أن تبروھم وتقسطوا الیھم ان اللہ یحب المقسطین یعنی اللہ تبارک و تعالی اہل ایمان کو اس بات سے نہیں روکتا کہ وہ ان کافروں کے ساتھ حسن سلوک کریں جنہونے ان سے جنگ نہیں کی، انکو انکے گھروں سے نہیں نکالا، اگر ایسے کافروں کے ساتھ ایمان والے اچھا برتاؤ کریں، اور انکے ساتھ انصاف کا معاملہ کریں، تو خدائے تعالی تو اس کو پسند کرتا ہے، اور ایسے ایمان والوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، پہر ان آیتوں کا جنہیں آپ پیش کرکے قرآن مقدس پر لچر اعتراض کرنے کی جسارت کر رہے ہیں، یہ مفہوم کیسے ہو سکتا ہے کہ جو اسلام کو نہیں مانتے انہیں فنا کے گھاٹ اتار دو،  ارے ہوش کے ناخن لو اتنی اسلام دشمنی کہ تمہیں حقیقت بھی نظر نہیں آتی؟ اللہ کے پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ذمیوں (جو اسلامی ملک میں امن لیکر رہتے ہیں ) کے حقوق تفصیل سے بیان کئے ہیں، اور انکے جان و مال عزت و آبرو کو پورا پورا تحفظ فراہم کیا ہے، اسلام نے تو انکو اس بات کی بھی آزادی دے رکھی ہے کہ انکے مذہب میں جو چیز جیسے ہے اگر وہ اسکو کریں تو انہیں چھیڑا نہ جائے، اب تمہیں بتاؤ اگر ان آیات مقدسہ کا یہ مفھوم ہوتا کہ اسلام کے نہ ماننے والوں کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے، تو پہر ذمیوں کیلئے جو غیر مسلم ہوتے ہیں اور اسلامی ملک میں امام المسلمین کی اجازت سے رہتے ہیں یہ مساویانہ حقوق کیوں دئے جاتے؟ مگر حقیقت یہ ہے کہ تم اسلام سے چڑتے ہو، اسلئے تم مکمل اسلام کو جاننے کی کوشش نہیں کرتے، اور اس طرح کی احمقانہ آواز اٹھا کر اپنی انسانیت دشمنی کا ثبوت فراہم کرتے ہو، لیکن یاد رکھو قرآن پاک ہماری روح ہے، ہمارا ایمان ہے، ہماری شان ہے، چھبیس آیتیں تو بہت دور ہم اس کے ایک نقطے سے بھی دستبردار نہیں ہو سکتے، 

ہے قول محمد قول خدا فرمان نہ بدلا جائیگا 

بدلے یہ زمانہ لاکھ مگر قرآن نہ بدلا جائیگا

اب اخیر میں یہ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں ایسے کورباطنوں کی ان یاوہ گوئیوں سے بد دل نہیں ہونا، ہمیں اسلام کی خدمت کرنی ہے، اور جی جان سے کرنی ہے، ایسے بدباطنوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے  خدائے پاک کی تدبیر کافی ہے، خدا ہمیں کامیاب کرے، آمین

 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

 

«
»

تہمت وبہتان-بڑی سماجی برائی

بنگال کی سیاست اور مسلمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے