اور یہ ہم جانتے ہیں کہ چودھری صاحب جھوٹ نہیں بولتے تھے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ نظام ہی کچھ ایسا ہے کہ سب کچھ خود بخود ہوجاتا ہے اور وزیر اعلیٰ کی مرضی سے بھی ہوتا ہے۔
ہم نہیں سمجھ سکتے کہ اروند کجریوال پر یہ پابندی کیوں ہے کہ وہ اپنے اعتماد کے سکریٹری نہیں رکھ سکتے اور ہر محکمہ کا سکریٹری وہ ہوگا جو جسے لیفٹیننٹ گورنر مرکزی حکومت کے اشارہ سے مسلط کریں گے؟ اروند کجریوال کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ انہوں نے دہلی سے کانگریس کا نام و نشان مٹا دیا اور حکمراں پارٹی کو 70 میں سے صرف 2 سیٹیں جیتنے دیں۔ جبکہ وزیر اعظم نے اسے اپنے وقار کا مسئلہ بنا لیا تھا اور پارٹی کے صدر امت شاہ نے دہلی میں آر پار کی جنگ کے لئے ڈیرہ ڈال دیا تھا۔ کانگریس اور عاپ پارٹی سے بغاوت کرکے آنے والوں کو سونے میں تولا جارہا تھا۔ اور کجریوال کو ہرانے کے لئے دہلی کے سمندر میں غوطے مارکر کرن بیدی کو ڈھونڈکر لایا گیا تھا اور انہیں وزیر اعلیٰ بنانے کا ایسے ہی اعلان کردیا گیا تھا جیسے وزیراعظم کے لئے شری مودی کا اعلان کیا گیا تھا۔ مودی صاحب ہریانہ کو روند چکے تھے اور مہاراشٹر کو بھی 45 فیصدی اپنے قبضہ میں کرلیا تھا۔ وہ دہلی فتح کرکے بہار، بنگال اور اُترپردیش میں پرچم لہرانے کا پروگرام بنانے کے لئے دہلی کو ہر قیمت پر فتح کرنا چاہتے تھے لیکن اروند کجریوال نے وہ کیا جسے جادو کے علاوہ دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا۔
اب مودی صاحب کی کوشش یہ ہے کہ کجریوال کو اتنا عاجز کرو کہ وہ اگر چھوڑکر نہ بھاگیں تو یہ باتیں کرنا چھوڑدیں کہ اپنے کسانوں کو ان کی فصل کے نقصان کا معاوضہ کسی نے اتنا نہیں دیا جتنا ہم نے دیا ہے اور یہ اس لئے ہوسکا کہ ہم بے ایمانی نہیں کرتے اور نہ بھرشٹاچار ہوتا ہے۔ کجریوال مسلسل کہہ رہے ہیں کہ ہم دہلی کو ایک مثالی ریاست بناکر ملک کو دکھائیں گے۔ ایسی ریاست جس میں نہ کسی کو بجلی کی شکایت ہو نہ پانی کی نہ راشن کی نہ رشوت کی۔ دہلی کی ریاست ایسی ریاست ہے کہ وہ نام کی ریاست ہے۔ اس کے آدھے اختیارات تو مرکزی حکومت کے ہاتھ میں ہیں۔ اور یہ کتنی بڑی مکاری، عیاری اور بے ایمانی ہے کہ جب بی جے پی کی مرکز میں حکومت ہوتی ہے تو کانگریس دہلی کے الیکشن میں یہ کہہ کر ووٹ مانگتی ہے کہ ہماری حکومت ہوگی تو ہم دہلی کو پوری ریاست کا درجہ دیں گے۔ اور مرکز میں کانگریس کی سرکار ہو تو یہ نعرہ بی جے پی لگاتی ہے۔ 1998 ء سے 2004 ء تک بی جے پی کی سرکار رہی تو کانگریس یہ نعرہ لگاتی رہی۔ پھر دس سال کانگریس کی حکومت رہی تو بی جے پی یہ نعرہ لگاتی رہی اور یہ بے غیرتی کی انتہا ہے کہ پروردگار نے دونوں کو حکومت دی اور دونوں کا جھوٹ سے منھ کالا کیا۔
اب دہلی میں نہ بی جے پی ہے نہ کانگریس اس لئے اب دونون اس کے دشمن بن گئے اور مودی صاحب کی فوج نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ کجریوال کا اتنا الجھاؤ کہ وہ اپنے دفتر میں ہی رات دن تالے لگاتے اور تالے کھولتے رہیں اور عوام کے پاس شکایتوں کے دفتر جمع ہوجائیں۔ راہل گاندھی پارلیمنٹ میں بھی کہتے رہے اور اب وہ اپنی امیٹھی میں بھی گلا پھاڑ پھاڑکر کہہ رہے ہیں کہ شری مودی بدلے کی حکومت چلا رہے ہیں جبکہ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ بدلہ کی نہیں بدلاؤ کی سرکار چلائیں گے۔ راہل صاحب کو یہ شکایت کرنا نہیں چاہئے اس لئے کہ کانگریس نے بھی کہا کچھ ہے اور کیا کچھ اور ہے۔ یہ ہر حکومت کا قاعدہ ہے۔ رہے مودی تو یہ تو انہوں نے گجرات کا وزیر اعلیٰ بنتے ہی ثابت کردیا تھا کہ وہ سچی شکایت کا تو بدلہ لیں گے ہی۔ جھوٹی کا بھی بدلہ لیں گے۔ ان کے اقتدار کے صرف ایک سال کے بعد ہی گودھرا میں ایک آنے و الی بوگی میں آگ لگ گئی جس میں کار سیوک جل گئے۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ پہلے ہر ایجنسی سے تحقیق کرالیتے کہ آگ کس نے لگائی؟ کسی نے لگائی یا خود لگ گئی؟ اس کے بعد قصورواروں کو جتنی بھی سزا دے سکتے تھے دے دیتے۔ لیکن دوسرے دن ہی گودھرا میں ہی نہیں احمد آباد میں بھی اور سورت میں بھی جو ہوا وہ دہرانے کی بات نہیں ہے۔ یہ صرف وہ بدلہ تھا جو بچہ کی فطرت کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ اور ہم لکھ چکے ہیں کہ جس کی شادی نہ ہو اور وہ باپ یا دادا نہ بنے اس کے اندر بچپن کے اثرات رہتے ضرور ہیں کسی میں کم کسی میں زیادہ۔ شری مودی کی شادی ہوئی تھی لیکن وہ شادی کے بعد بھی غیرشادی شدہ ہیں اور انہوں نے کبھی اٹل جی کی طرح یہ نہیں کہا ہے کہ شادی تو ہم نے بھی نہیں کی ہے مگر ہم کنوارے نہیں ہیں۔
جہاں تک بدلہ کی بات ہے تو مودی کانگریس سے کیا بدلہ لیں گے؟ انہوں نے سب سے پہلے نعرہ دیا تھا۔ کانگریس مکت بھارت۔ اور انہوں نے بھارت کو کانگریس مکت بنا دیا۔ اب کاہے کا بدلہ؟ وہ بدلہ کجریوال سے ضرور لیں گے اور 2019 ء تک لیتے رہیں گے۔ اس لئے کہ کجریوال نے ان کے مقابلہ میں کہیں زیادہ دہلی کو بی جے پی مکت بنایا ہے۔ اب یہ حساب آپ لگائیے کہ کانگریس 543 میں 44 لائی اور بی جے پی 280 ۔ دہلی میں 70 میں ’’عاپ‘‘ 67 لائی اور بی جے پی 2 ۔ پھر دیکھئے کہ زیادہ مقبول کون ہوا؟
شری مودی ایک تیر سے کئی شکار کررہے ہیں۔ انہوں نے ملک کے اکثر گورنر بدل دئے لیکن دہلی کے نجیب جنگ صاحب کو نہیں بدلا۔ جنگ صاحب بہت ممتاز خاندان کے فرد ہیں اور مشہور مسلم لیڈر ڈاکٹر فریدی صاحب کے داماد ہیں۔ اس سے پہلے وہ جامعہ ملیہ میں وائس چانسلر تھے۔ شیلاجی انہیں صرف مسلم ووٹوں کے لئے لے آئی تھیں۔ لیکن اب مودی صاحب ان کو بھی کجریوال سے ٹکراکر مسلمانوں کی نظر میں بی جے پی نواز بنا دینا چاہتے ہیں۔ معلوم نہیں کیوں وہ ہاتھوں کا کھلونا بن کر کجریوال کو نقصان پہونچانا چاہتے ہیں؟ جنگ صاحب کی عمر اب ماشاء اللہ کافی ہوچکی ہے۔ اس عمر میں لوگ یہ زیادہ پسند کرتے ہیں کہ ذہنی تناؤ کے کاموں سے دور رہیں۔ یہ اس وقت تو ہوسکتا ہے کہ وہ کسی پوری ریاست کے گورنر بنا دیئے جائیں۔ دہلی میں تو وہ جب تک رہیں گے انہیں بی جے پی کا آلۂ کار بنا رہنا پڑے گا اور وہ ایک رات بھی سکون سے نہ سوسکیں گے۔ ایسی صورت میں ہمارا حقیر مشورہ تو یہ ہے کہ وہ بہت خوبصورتی سے استعفیٰ دے دیں تاکہ ان کا جیسا احترام تھا اور ہے وہ باقی رہے۔ کجریوال کو شاید 95 فیصدی مسلم ووٹ ملے ہیں۔ اس لئے کہ سب نے یہ کہا ہے کہ بی جے پی کو دہلی میں جتنے ووٹ ملتے تھے ان میں کمی نہیں ہوئی۔ اور کجریوال کو جو اتنے ووٹ ملے وہ ان کے بھی تھے اور کانگریس کے زیادہ تر تھے۔ اور مسلمان ابھی کجریوال کے ساتھ ہی جڑے ہوئے ہیں۔ انہیں یہ اچھا نہیں لگے گا کہ کجریوال ایک مسلمان ایل جی کے ہاتھوں پریشان ہوں جبکہ اب بھی زیرعلاج ہیں۔(یو این این)
جواب دیں