بڑھتے امراض : دشوار علاج

انسانی جسم کے لئے بیماری جزء لاینفک ہے،کہ وقتا فوقتاً  جسم کوچھوٹی بڑی بیماریوں سے واسطہ پڑتا ہے،بیماری کے بعد اس کا اگلا مرحلہ علاج ومعالجہ ہے،زمانہ کی ترقی کے ساتھ امراض میں بھی ترقی ہورہی ہے اور نت نئے امراض پیدا ہورہے ہیں اور علاج مہنگا اوردشوار ہوتے جارہا ہے۔تاہم اگر ان امراض کی بروقٹ  تشخیص ہو جائے اور فوری طور پر بہتر اور عمدہ علاج مل جائے تو یہ جسم  جلد صحت کی طرف لوٹتا ہے،اس کے برعکس مرض کا پتہ نہ چلے یا مرض کی طرف توجہ نہ دی جائے ،علاج میں تاخیر ہو جائے یا مناسب اور اعلی علاج کی طاقت نہ ہونے کی بناء پر چھوٹامرض بھی مہلک بن جاتا ہے،عام طور پر مالدار اور صاحب استطاعت آدمی اعلی سے اعلی اور بڑے سے بڑے اسپتالوں میں علاج کی کوشش کرتا ہے لیکن مالی اعتبار سے  کمزور لوگوں کے لئے اس مہنگاہی کے دور میں اچھا اور اعلی علاج بہت مشکل ہوگیا ہے۔اسی لئے ایسے لوگ کم خرچ یا سرکاری ونیم سرکاری اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں لیکن اس طرح کے اسپتالوں اور وہاں کے ڈاکٹرز کا رویہ اور علاج کا طریقہ انتہائی تکلیف دہ ہوتا یے،نہ صحیح تشخیص کی کوشش کی جاتی ہے اور نہ تسلی بخش علاج تجویز کیا جاتا ہے،جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مرض بڑھتا ہی جاتا ہے،اس پر مستزاد سرکار کی طرف سے بڑی بڑی تنخواہ لینے والے یہ ڈاکٹرز اپنے نجی کلینک اور اسپتالوں میں زیادہ وقت دے کرمریضوں سے  بھاری فیس لے کر  اچھا سے اچھا علاج کرتے ہیں،ایسے حالات میں کمزور لوگ مجبورا پرائیوٹ اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں،پرائیوٹ اسپتالوں کا علاج بھی اس قدر مہنگا ہے اور بہت سے ضروری وغیر ضروری ٹیسٹ کی لاگت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ مریض یا تو لوگوں کا محتاج بن کر دست تعاون پر مجبور ہوتا ہے یا  جب مرض کی تکلیف سے نجات پاتا ہے تو قرض کی تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہےاور کئی مہینوں تک قرض کی ادائیگی کے لئے تگ ودوکرتا نظر آتا ہے-

 اس طرح کے ماحول میں جہاں سرکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ سرکاری اسپتالوں کا نظام ٹھیک کرے،بڑے سے بڑے مرض کے علاج لئے سہولتیں فراہم کرے،خائن اور بے ایمان ڈاکٹرز کے خلاف کاروائی کرے ،اور ایسے ڈاکٹروں کا انتخاب کرے جو ماہر اور حاذق ہونے کے ساتھ ان کا رویہ مریضوں کے ساتھ ایسا ہو جس سے مریض کواس کے علاج کے سلسلہ میں تسلی واطمینان ہو۔ظایر ہے اگر سرکاری اسپتالوں کا نظام ٹھیک ہو جائے تو پرائیوٹ اسپتالوں کے مہنگے علاج سے واسطہ کم پڑے گا ۔نیز پرائیوٹ ڈاکٹروں کو بھی انسانی اقدار کا خیال رکھتے ہوئے علاج کے خرچ کے بوجھ میں تخفیف سے کام لینا چاہیے تاکہ لوگ ناقابل برداشت علاج سے تنگ آکر علاج کرنا ہی چھوڑ نہ دیں،اور سب سے بنیادی اور اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی مرض کا علاج میں تاخیر نہیں۔ کرنا چاہیے اس لئے کہ مرض کی ابتداء میں اگر علاج ہو جائے تو نہ مرض بڑھے گا اور نہ بڑے علاج کی ضرورت پڑے گی،اگر ہر ایک اپنی اپنی زمہ داری کو ادا کرے گاتو علاج کے سلسلہ میں جو مشکلات ہیں وہ کم ہو جائے گی اور ایک دشوار چیز آسانی میں تبدیل ہوگی۔