بڑے جانوروں کے ذبیحہ پرپابندی دورکرنے کیلئے معیاری حکمت عملی کی ضرورت

برسہابرس پہلے جب مہاراشٹراسمبلی سے صدرجمہوریہ ہندکی منظوری کے لئے یہ بل،مرکزکوبھیجاگیاتھا۔اس وقت شبیراحمدانصاری،لیڈرآل انڈیامسلم پسماندہ طبقات اوردیگرنے صدرجمہوریہ ہندڈاکٹرشنکردیال شرماکو بل کے قانون بننے کی بناپر،بیلوں کے ذبیحہ پرپابندی عائدہونے سے سماجی مذہبی معاشی پریشانیوں سے آگاہ کیاتھا۔ برسہابرس بل قانون بننے سے التواء میں پڑاتھا۔یقیناً قصاب برادری کے لیڈران پیش رفت کرتے توکوئی راستہ نکل آتا۔
ایک سماجی کارکن اورقریش برادری سے تعلق رکھنے کی بناء پرسالہاسال کے تجربے کے بنا پر یہ کہتے ہیں کہ کوئی حرج نہیں کہ برادری ہی نہیں، قریش برادری کے لیڈران،چاہے وہ چھوٹے کے قصاب ہویا بڑے کے قصاب،مہاراشٹرکے ہوں کہ یوپی کے یاآندھراکے جہاں کہیں کے بھی ہوں۔معیاری بردباری،حکمت عملی سے پیدل ہیں۔اتفاق،اتحاد ان میں نظرنہیں آتا۔برسہابرس پہلے باندرہ ممبئی سے مذبحہ خانہ دیونارممبئی منتقل ہورہاتھا۔قصاب برادری نے اندھی مخالفت کی،کئی روزہڑتال کی،مگراڑے رہیں۔نتیجہ صفرنکلا۔جذباتیت اورجوش حاوی رہا۔حکومت نے باندرہ سے دیونارمذبحہ خانہ منتقل کیا۔آخرکوقصاب برادری کویہاں آناپڑا۔حکمت عملی اوربردباری ہوتی توکئی سہولتیں ،رعاتیں ملتیں۔فیکٹری ایکٹ مذبحہ خانہ میں نہیں ہوتا۔قبرستان،اسکول،مسجد،اور
مذبحہ خانہ کے اطراف رہائشی سہولتیں ۔اس کیلئے کوشش کیں جاتیں۔جانورچھوٹے کے ہو یا بڑے کے،اس کے جسم کاگوشت ہی نہیں،ساری چیزیں کارآمدہیں۔صرف اپنے ہی جانوروں کاگوشت ہی قصابوں کوملتاہے۔جانوروں کافضلہ،خون اورمتعددچیزیں اسے نہیں ملتیں۔وہ اکثروبیشترسرکاری کی ہوجاتی ہیں۔جس سے آج تک سرکارکوکروڑوں روپیوں کی آمدنی ہوئی ہے۔یہ سارے نقصانات قصاب برادری کی قیادت کی نااہلی کاثبوت ہیں۔جو آج تک جاری وساری ہے۔ناعاقبت پسندی،نااتفاقی،غیربردباری کوچھوڑنے کی ضرورت ہے۔بردباری اوراتفاق واتحاد کی ہی بناپربیلوں کے جانوروں پرموجودہ سرکاری پابندیوں کے خلاف پرامن جمہوری لڑائی کی اشدضرورت ہے۔یہ صرف گوشت کھانے والوں اورقصابوں کامسئلہ نہیں ہے۔کسانوں،مزدوروں کابھی مسئلہ ہے۔ذبیحہ پرپابندی کے بناپر قصاب کسانوں سے جانورنہیں خریدیں گے۔مہاراشٹرکاکسان ایسے ہی پریشان ہے اورخودکشیاں کررہے ہیں۔وہ جانورکیسے فروخت کریں گے۔ایک ایک جانورکے لئے پانی اورچارہ کیسے کھلایئے پلائیں گے۔جانورذبح نہ ہونگے توچمڑا کہاں سے آئیگا۔چمڑے کاکام کرنے والے روزی روٹی سے محروم ہونگے۔جانوروں کی ہڈیوں کی بھی صنعت ہے۔اس کابھی انسانی ضرورتوں کے لئے استعمال ہوتاہے۔اس کے علاوہ جانوروں سے دوائیں بھی بنائی جاتی ہیں۔جانوروں کاکاروبارکرنے والے چھوٹے چھوٹے بیوپاری بھی ہوتے ہیں۔جانوروں کی چرانے والے دھنگربھی ہوتے ہیں۔جانوروں کی چربیاں بھی بعض صنعتوں میں استعمال میں لائی جاتی ہیں۔ذبیحہ پرپابندی سے جانوروں سے ملک کے سارے کاروبارٹھپ ہوجائیں گے۔صرف قصاب برادری ہی بھکمری کاشکارنہ ہوگی۔بلکہ ذبیحہ پرپابندی سے متاثرہونے والے صرف قصاب برادری ہی کے لوگ نہیں بلکہ سارے لوگ کسان،دھنگر،جانوروں کے بیو پاری،ہڈی فیکٹری کے مالکان اوردیگرمتعلقہ افرادطبقات پابندی ذبیحہ قانون پرپیداشدہ مسائل کے تدارت کی خاطرایک پلیٹ فارم پرآئیں۔بردباری،حکمت عملی کے ساتھ اپنے مطالبات حکومت سے منظورکرانے کیلئے جدوجہدکریں۔خاص طورپرقصاب برادری ایک پلیٹ فارم پراکثرنظرنہیں آتی۔الگ الگ دھڑے،گروپ میں بٹتی نظرآتی ہے۔کوئی کہتاہے صرف قانونی لڑائی لڑو،کوئی احتجاجی تحریک ہڑتال کاحامی ہے۔الگ الگ وقتوں میں پڑتالیں ہوتی ہیں۔آپس میں کوئی تال میل،اتفاق نہیں ہے۔اسی کاخاتمہ ضروری ہے۔
ظاہرسی بات ہے کہ جب مرکزاورصوبوں میں بی جے پی بھگوابرداروں کی حکمت ہو،اقلیتوں خاص طورپرمسلمانوں کوزک پہونچے گی۔بڑے کے ذبیحہ پرپابندی کے تعلق سے جوبل برسوں برس سے التواء میں پڑاتھاجس کی جانب قصاب برادری کودھیان دیکرپیش رفت کرناضروری تھاکہ مسئلہ کاتدارک ہو۔یہ نہ ہوسکااورمہاراشٹرمیں بھگوابرداروں کی حکومت نے اپنی سرکارآتے ہی صدرجمہوریہ ہندسے بل پردستخط کی درخواست کردی۔یوں مہاراشٹرمیں بڑے جانوں پرمکمل ذبیحہ پرپابندی عائدہوگئی۔امیدہے کہ پرامن جمہوری طریقہ سے جدوجہدسے کوئی راہ نکل آئے۔

«
»

آج کی دنیا کے قارون

آر ایس ایس اور عیسائی دنیا آمنے سامنے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے