ماؤں کو اپنے انڈروائڈ فون پر توجہ دینے کے بجائے اپنے بچوں کی تربیت میں زیادہ وقت دنیا چاہیے

 وزیر احمد مصباحی

           لفظ "ماں " اس خوبصورت و دلکش انسانی وجود کا نام ہے جس کے دامن میں پیار و محبت اور ایثار و ہمدردی کی عظیم داستان پنہا ہے. انسانی وجود کو شفقت و مہربانی کی جو دلفریب خوشبو اس کے آنچل سے ملتی ہے وہ شاید ہی کہیں اور میسر ہو. یقیناً یہی وجہ کہ ایک ماں اپنے بچے کی کامیابی و کامرانی کے لیے جتنے جتن کرسکتی ہے،کوئی دوسرا اس طرح شاید ہی کر سکے. اللہ رب العزت نے ماں کے مراتب کو کافی بلند کیا ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی بندہ اپنی ماں کی زندگی بھر خدمت کرتا رہے اور اسے منانے میں کامیاب ہو جائے تو پھر اللہ رب العزت ایسوں کو دارین کی ساری فلاح و ظفر سے ہمکنار فرما دیتا ہے. واقعی بچوں کی نشو و نما اور ان کی درست تعلیم و تربیت میں ایک ماں کا کردار بہترین رول ادا کرتا ہے.
            آپ دور قدیم کا مطالعہ کریں اور حال کے جھروکوں سے ماضی کی دہلیز پر ایک تحقیقی و معلوماتی نگاہ دوڑائیں تو پھر معلوم ہوگا کہ ماں اپنے بچوں کے خوشگوار مستقبل کے دھن میں اس کے سادہ سی سلیٹ جیسے ذہن پر اپنی عمدہ و نفیس تربیت کا ایسا گہرا نقش چھوڑتی  تھی کہ پھر بچہ آگے چل کر انسانیت کا حسین پیکر اور بڑھاپے کا معتمد علیہ سہارا بن کر ابھرتا تھا. آج کی طرح اگرچہ اس دور کی مائیں زیادہ پڑھی لکھی اور حالات کے نشیب و فراز اور اس کے تقاضوں سے زیادہ واقف نہیں ہوتی تھیں لیکن پھر بھی وہ اپنے دلکش اور سادگی بھرے لب و لہجے میں اپنے پلاسٹک ذہن اولاد پر حسن اخلاق اور پاکیزہ کردار کا ایسا تاج محل تعمیر کرتی تھیں کہ پھر اس کی چمک دمک زندگی کے ہر شعبے میں بخوبی جھلکتی تھی. شاید ماؤوں کے اپنے بچوں تئیں اسی نتیجہ اخلاص و وفا کو دیکھ کر یہ تصور کیا جاتا تھا کہ ایک ماں کی ممتا کو دنیا کی کوئی شی ان کے اپنے جگر گوشوں سے جدا نہیں کر سکتیں… مگر افسوس کہ آج جب ہم ماضی کے روشن جھروکوں سے حال کی طرف نظر کرتے ہیں اور جائزہ لینے کی زحمت کرتے ہیں تو پھر اس معاملے میں ہمیں سواے تحیر و تحسر کے کچھ اور ہاتھ نہیں آتا. حالات زمان کی ستم ظریفی تو دیکھیے کہکہ دور جدید کی یہ ماڈرن مائیں سوشل میڈیا کی رنگین فضاؤں میں راحت کی سانس تو لے لیتی ہیں لیکن اکثر رات کی تاریکیوں میں بچے میٹھی میٹھی لوریوں اور پیار بھریتھپکیوں کے لیے بلکل ترس جایا کرتے ہیں. جی ہاں! یہ کرشمہ ہے واٹش ایپ، انسٹاگرام اور فیس بک جیسے نیے نیے ایجادات کا. یہ سچ ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں سوشل میڈیا نے انسانی حیات سے اپنا ایک اٹوٹ رشتہ قائم کر لیا ہے اس کی مدد سے بڑے سے بڑا کام چند لمحوں میں پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے. لیکن پھر بھی یہ بات ایک مہذب معاشرہ اور ہندوستانی تہذیب و تمدن اور اور اس کی خوبصورت ریت و رواج کے لیے ضرور خلاف اولی ہے کہ ایک ادھیڑ عمر کی ماں پر چیٹنگ کا بھوت اس طرح سوار ہو جائے کہ سوشل میڈیا کی رنگین فضاؤں میں اپنے جگر کے ٹکڑوں تک کو بھول جایا کرے. بچے ٹرین کی بوگی میں جھپکیاں لیتے لیتے تھک جایا کریں اور بعد میں جب اسی ماں کی آنکھ پر غلبۂ نیند وار کرنے لگے تو وہ خود سْرمۂ خواب سجانے کے لیے اپنے معصوم معصوم بچوں کے نرم و نازک زانوؤں کو بحیثیت تکیہ استعمال کرنے میں ذرا بھی دیر نہ کرے. سچ پوچھیں تو ایسے موقعوں پر یہ ایک دردناک سوال سر ابھارتا ہے کہ کیا اب سوشل میڈیا میں وہ نشہ بھی آ گیا ہے کہ وہ ایک ماں کو اس کے اپنے بچوں تک سے بیپرواہ کر دے؟؟؟ جوابا عرض ہے کہ ہاں! اب تو اس میں یہ دم خم بھی موجزن ہوتا چلا جا رہا ہے. اس تلخ حقیقت کا اعتراف مجھے اس وقت کرنا پڑا جب ابھی چند دنوں قبل میں دوستوں کی معیت میں جامعہ اشرفیہ مبارک پور آنے کے لیے ایک لوکل ٹرین میں سوار تھا. جب سمستی پور اسٹیشن پر گاڑی رکی تو ایک ادھیڑ عمر کی خاتون اپنے تین چھوٹے ننھے منھے بچوں اور رختِ سفر کے ساتھ ایک جنرل بوگی میں سوار ہوئی اور پھر چند ہی لمحے بعد اس نے سوشل میڈیا سے اپنے قلبی لگاؤ کی بنا پر بچوں کے تئیں ان تمام ناپسندیدہ اوصاف کا اس طرح اظہار کیا کہ ذہن و دماغ بلکل ماؤف ہو کر رہ گیے. دریچۂ ذہن میں بس ایک ہی سوال بار بار کچوکے لگاے جا رہا تھا کہ کیا مائیں اب ایسی بھی ہونے لگی ہیں؟ کیا بچوں تئیں ماؤوں کے جو شفقت بھرے داستان دامنِ تاریخ میں ثبت ہیں، وہ بس یوں ہی قصۂ پارینہ کی متحمل ہیں اور کیا اس کی کوئی حقیقت نہیں؟
              ہاں! یہ سچ ہے کہ آج دنیا کے اکثر افراد سوشل میڈیا سے جڑے ہوئے ہیں. وطن عزیز بھی اس معاملے میں کچھ کم نہیں ہے. ہر طبقہ یہاں اپنا اچھا خاصا وقت صرف کر رہا ہے. صبح و شام ہر وقت ان کا دھیان سوشل میڈیا میں لگا رہتا ہے، بالخصوص نوجوان نسل کے ذہن و دماغ پر تو سوشل میڈیا جنون کی حد تک حاوی ہو چکا ہے. دن بھر کی لاکھ تھکاوٹ کے باوجود بھی جب تک وہ سوشل میڈیا پر کچھ وقت نہیں گزار لیتی تب تک اسے نیند ہی نہیں آتی. آج زمانے کی تھپیڑوں نے تقریباً ہر انسانی ذہن و دماغ پر ایسا وار کیا ہے کہ وہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا جیسے عظیم ذرائع ابلاغ کی بدولت کار خیر کی انجام دہی کے بجائے برائیوں اور فحاشیوں کے فروغ میں اپنے قیمتی اوقات صرف کر رہے ہیں.
          صاحبو! متذکرہ بالا تمام باتوں سے یہ نتیجہ ہرگز نہ اخذ کیا جائے کہ سوشل میڈیا کا استعمال غلط ہے اور ہماری ماؤں و بہنوں کو اس سے کوسوں دور و علاحدہ رہنا چاہیے. نہیں،اس کا مطلب یہ نہیں. بلکہ اس کا حاصل یہ ہے کہ آپ سوشل میڈیا کا استعمال کریں لیکن جائز حد تک. غلط چیزوں کی تشہیر میں وقت گزاری نہ کریں. والدین سوشل میڈیا سے اپنے محبت کا دم بھرنے اور اس کے ثبوت میں زور صرف کرنے کے بجائے بچوں کی درست تعلیم و تربیت میں زیادہ دلچسپی کا اظہار کریں جو بلکل عین حقیقت بھی ہو. اسے انٹرنیٹ سے نہ جوڑیں اور نہ ہی اس کے تفریح کے لیے کھلونے کے طور پر اسمارٹ فون کا استعمال کریں. اس لیے کہ یہ سوشل میڈیا جہاں اپنے آپ میں مفید ہے وہیں حد درجہ مضر و خطرناک بھی. اور ہاں! یہ حقیقت بھی اکثر تجربہ سے گزرتی ہے کہ طفلانہ ذہن کسی شی سے استفادہ کرنے اور اسے مثبت پیمانے پر پرکھنے کے بجائے اس کے منفی پہلو میں اپنی دلچسپی کا کچھ زیادہ ہی اظہار کرتا ہے.یاد رکھیے! اس مفاد پرستی کے دور میں اگر والدین ہی ان کی تربیت سے آنکھیں چرانے لگے اور تساہلی و تغافلی کا شکار ہو جائیں تو پھر یہ قوی اندیشہ ہے کہ بچہ قبل از وقت ہی اپنی ساری صلاحتیوں کا جنازہ نکال دے یا یہ خدائی قوتیں خود بخود ٹھٹھر کر منجمد ہو جائیں اور وہ تعظیم و تکریم کے اعلی دروس سے واقفیت حاصل کرنے کے بجائے برائیوں و فحاشیوں سے ایسا رشتہ و ناطہ جوڑ لے کہ پھر اسے راہ راست پر لانا ایک مشکل اور لا ینحل مسئلہ بن جائے. اس لیے دور جدید کے تمام والدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر بیکار وقت گزاری کرنے کے بجائے زیادہ تر اوقات اپنے بچوں اور جگرپاروں کی صحیح تعلیم و تربیت اور اسے ایک فرشتہ صفت انسان بنانے میں لگائیں، (ہاں! آپ کے توجہ سے تو ایک نسل سنور سکتی ہے) تا کہ آئندہ ہمارے یہ بچے اعلی اور پسندیدہ اخلاق و کردار کا مالک بن سکے. اور ہمارا یہ آج کل کا زوال پذیر معاشرہ جو رواں دور میں مکمل طور سے سوشل میڈیا کے حصار میں آ چکا ہے، یہ اس سے نجات حاصل کر سکے اور نئی نسل کے نوجوان اس سے استفادہ میں مستقیم شاہراہ پر چل سکے. تا کہ وطن عزیز جلد از جلد عالمی سطح پر اپنی ترقیوں کے سنہرے خواب شرمندہ تعبیر کر سکے اور ہم ہندوستانی پوری دنیا میں اپنی ایک الگ اور منفرد شناخت قائم کرنے میں کامیاب و ظفریاب ہو سکیں انشاء اللہ۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
یکم فروری 2020

 

«
»

شاہین پرائمری اسکول بیدرکی طالبہ کی درد بھری فریاد

آخر کیوں کچوکے نہیں لگتے دیکھ کر مساجد کی ویرانیاں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے