(20/نومبرعالمی یوم اطفال کی مناسبت سے)
عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ
آج 20/ نومبر یوم اطفال کی مناسبت سے بھارت سمیت دنیا بھر میں میں بچوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔اس دن کو منانے کا مقصد بچوں پر ہونے والے ظلم و تشدد کا خاتمہ، ان کی بہترین تعلیم و تربیت کا اہتمام، ان کی اچھی صحت کا خیال اور بچوں سے محنت طلب کاموں کی روک تھام ہے۔یہ دن عالمی طور پر 20 نومبر 1989 سے ہر سال منایا جا رہا ہے، 14/ دسمبر 1954 کو اقوام متحدہ میں اس دن کو منانے کے لیے سفارشات پیش کی گئی تھیں اور 196 ممالک نے اس مسودے پر دستخط کرکے اسے منظوری دی تھی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں بچے قوم کے معمار اور مستقبل کے قائد وذمہ دارہوتے ہیں۔بچوں کی اعلی تعلیم اور اچھی تربیت ہی ایک صالح معاشرے کی تشکیل کا سبب ہے۔ ایک صحت مند اور مضبوط پودا ہی مستقبل میں ایک تناور اور خوش ذائقہ پھلوں اور پھولوں والا درخت بن سکتا ہے۔
اس وقت مغربی ممالک سمیت پوری دنیا میں بچوں کے حقوق کو لے کر جو چہل پہل دکھائی دے رہی ہے،دانشوران فرنگ اس سلسلے میں جس حساسیت کا اظہار کررہے ہیں،مختلف این جی اوز کی جانب سے جو شعور بیداری مہم چلائی جارہی ہے اور ہرسال اس حوالے سے جو مختلف قوانین وضع کیے جارہے ہیں،بہ نظر غائر دیکھاجائے تو آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل،جب انسانیت جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں بھٹک رہی تھی،اسی وقت پیغمبر اسلام ﷺنے بچوں کی قدر ومنزلت اور ان کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے وہ زریں اصول اور رہنما ہدایات عطا فرمائے جو قیامت تک آنے والی نسل انسانی کے لیے سرمہئ چشم کی حیثیت رکھتے ہیں۔آج کے دانشور اور ماہرین نفسیات بچوں کی پیدائش کے بعد ان کی تربیت کے بعض پہلوؤں کو اہمیت دیتے ہیں؛لیکن اسلام نے ازدواجی زندگی کا طور طریق،شریک حیات کا انتخاب،نسل و نسب کی پاکیزگی اور بچوں کے جسم وروح کی تربیت کے سلسلہ میں قدم قدم پر والدین اور سرپرستان کی ذمہ داریوں کوبسط و تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔اسلام نے بچوں کو بھی وہی مقام و مرتبہ دیا جو انسانی نوع کے دیگر طبقات کو حاصل ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچوں کے ساتھ جو شفقت اور محبت پر مبنی سلوک اختیار فرمایا وہ معاشرے میں بچوں کے مقام و مرتبہ کا عکاس بھی ہے اور ہم سب کے لیے مشعل راہ بھی۔ اسلام میں بچوں کے حقوق کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ اسلام نے بچوں کے حقوق کا آغاز ان کی پیدائش سے بھی پہلے کیا ہے۔ بچوں کے حقوق کا اتنا جامع احاطہ تلاش بسیار کے باوجود دنیا کے کسی نظامِ قانون میں نہیں ملتا۔سردست ہم دین اسلام کی جانب سے عطا کردہ بچوں کے بعض حقوق وفرائض پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔
حقِ حیات:
افلاس وبھکمری کا خوف زمانہئ جاہلیت میں قتل الاطفال اور وأد البنات کا محرک ہوا کرتا تھا، اہل جاہلیت بہ طور خاص اپنی لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے، اس ڈر سے کہ وہ ان پر بوجھ بن کر ان کو معاشی لحاظ سے کمزور کردیں گی اور ان کے لئے ان کا سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔اسلام نے بچوں پر اہم ترین احسان یہ کیا کہ انھیں زندگی کا حق عطا کیا۔ اسلام کی نظر میں مرد و عورت کا جائزمیلاپ محض ایک تفریح اور قضائے حاجت کا ذریعہ نہیں، بلکہ یہ نسلِ انسانی کے تحفظ اور اس کے پھلنے پھولنے کا سبب ہے۔ اس بنا پر اس تعلق کے ثمرے کے طور پر وجود پانے والے بچے کو اسلام یہ حق دیتا ہے کہ وہ زندہ رہے، اور والدین کی یہ ذمہ داری قرار دی گئی ہے کہ وہ اس کی زندگی کو خوشی سے قبول بھی کریں اور اس کی بقا کے لیے ناگزیر و ضروری اقدامات بھی کریں۔غور کیاجائے تو آج اسی برائی نے منع حمل یعنی ضبط ولادت اور منصوبہ بندی کا نام اختیار کرلیا ہے۔ اندیشہ وہی ہے جو قدیم زمانے میں تھا کہ ”آنے والے کو رزق کہاں سے ملے گا؟“ وہ بھی اپنے آپ کو رازق سمجھتے تھے آج بھی قومیں اپنے آپ کو وسائل رزق کا خالق سمجھتی ہیں؛ لیکن سورہئ بنی اسرائیل کی آیت کریمہ(اور نہ قتل کرو اپنی اولاد کو، ناداری کے اندیشہ سے، ہم ہی ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی، بیشک ان کا قتل بہت بڑا جرم ہے) ان معاشی بنیادوں کو بالکل منہدم کردیتی ہے۔ وہ صاف صاف حکم دیتی ہے کہ اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ قتل نہ کرنے سے مراد صرف یہی نہیں ہے کہ پیدا ہونے کے بعد انھیں قتل نہ کرو؛ بلکہ اس سے مراد یہ بھی ہے کہ اسقاطِ حمل اور منع حمل کی تدابیر بروئے کار مت لاؤ۔ رازقِ حقیقی انہیں بھی رزق دے گا اور ان کی برکت سے تمہیں بھی رزق عطا کرے گا۔
نسب و شناخت،پرورش و پرداخت:
اسلام نسب کے تحفظ کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے اور شریعت ِاسلامیہ کے کئی احکامات کا انحصار بھی اسی پر ہے۔علامہ شاطبیؒ اپنی مشہور زمانہ کتاب الموافقات میں شریعت کے پانچ مقاصد ذکر فرمائے ہیں:1۔حفاظت ِ دین 2۔حفاظتِ عقل 3۔حفاظتِ جان 4۔حفاظتِ نسب 5۔حفاظتِ مال۔
ان میں دین کا ایک بہت بڑا مقصد نسب کی حفاظت ہے،جو کہ نکاح کے ذریعے محفوظ کیا جاتا ہے،اگر نکاح کا عمل مفقود ہوجائے تو دین کا ایک بہت بڑا مقصد ادھورا رہ جائے گا۔ شریعت اسلامیہ نے حفاظت ِ نسب کے ذریعے اللہ کے بندوں کو ان کے حقوق دلانے کا ایک بہترین انتظام فرمایاہے؛ تاکہ کوئی بچہ والدین کے پیار سے محروم نہ رہے، اسے باپ کی شفقت اور ماں کی ممتا برابر ملتی رہے،اس کی اچھی تربیت کی جاسکے۔ ساتھ ساتھ اس کے قریبی رشتہ داروں میں ایسے افراد موجود ہوں جو بچے کے درست رویے پر حوصلہ افزائی اور کوتاہیوں پر بروقت تنبیہ کرسکیں۔ اگر اس تصور کو نظر انداز کیا جائے تو بھلا بچہ کیا مستقبل سنوار سکے گا، اسے خیر و شر کا ادراک کون کرائے گا،اسے معیاری تعلیم و تربیت کہاں سے دی جائے گی،اسے ایک بھائی کا ساتھ اور بہن کی غم خواری کا احساس کون دلائے گا۔ یقیناً وہ ان محرومیوں کے سبب معاشرے میں سرکشی مچا کر دکھائے گا اور اپنی جہالت کا مخاطب ہر کس و ناکس کو بنائے گا۔
نام و نسب کے بعد اب مرحلہ ہے بچے کی رضاعت و پرورش کا۔اس سلسلے میں دین اسلام نے صاف لفظوں میں یہ اعلان فرمایا کہ بچے کی والدہ خواہ وہ مطلقہ ہی کیوں نہ ہو،دودھ پینے والے بچے کے بارے میں بری الذمہ نہیں ہوسکتی؛بل کہ اس پرشریعت مطہرہ کی جانب سے فرائض عائد ہوتے ہیں۔طلاق کے بعد اللہ تعالیٰ نے عورت کو آزاد نہیں چھوڑدیا؛کیونکہ ایسے حالات میں، اگر عورت کواپنی فطرت کے مطابق آزاد چھوڑدیا جائے تو کشیدہ تعلقات کی وجہ سے کوئی غلط فیصلہ بھی کرسکتی ہے اور اس غلط فیصلے کے نتیجے میں بچہ ضائع ہوسکتا ہے،چناچہ اللہ تعالیٰ بچوں کے لئے ضابطہ وضع فرماتے ہیں اور والدہ پر فرض کردیتے ہیں کہ وہ ایسے حالات میں کوئی ایسا رویہ اختیار نہ کرے جس سے بچے کو نقصان پہنچے۔ ماں کا فرض ہے کہ وہ پورے دو سال تک بچے کو دودھ پلائے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ اس بات سے واقف ہیں کہ اصول صحت کے لحاظ سے بچے کے لئے دو سال کے عرصہ تک دودھ پینا ضروری ہے۔صحیح ابن خزیمہ میں ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جہنم دکھائی گئی تو آپ نے کچھ ایسی عورتوں کو دیکھا جن کی چھاتیوں کو سانپ نوچ رہے تھے اور ڈس رہے تھے آپ نے پوچھا یہ کیا معاملہ ہے؟ بتایا گیا کہ یہ وہ عورتیں ہیں جو بچوں کو دودھ نہیں پلاتی تھیں“۔ (صحیح الترغیب والترہیب) ہاں اگر کوئی ماں مجبوری میں اپنا دودھ نہیں پلاتی ہے تو اس وعید کی مستحق نہیں ہوگی۔
تعلیم و تربیت:
والدین پر بچوں کے سلسلے میں یہ ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ جہاں بچوں کو اچھی زندگی کے لئے اچھی خوراک،عمدہ کپڑے اور زندگی کی دوسری اشیاء مہیا کریں،وہیں ان کی دینی تعلیم اور اسلامی تربیت کا بھی بھرپور انتظام کریں۔نیز زندگی اور اس کے نشیب وفراز کے بارے میں اپنے تجربات اور مشاہدات سے بچوں کو مستفید کریں تا کہ وہ زندگی کے ہر میدان میں کامیابی حاصل کرسکیں۔ماہرین کے مطابق بچہ پیدائش کے بعد تربیت کے حوالے دو دور سے گزرتا ہے:
1۔بچپن کا دور،یہ دور ایک سال کی عمر سے سات سال تک ہوتا ہے۔اس دور میں بچہ کے اندر براہ راست تربیت حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی،کیونکہ وہ اس دور میں اپنی دنیا سے بے خبر ہوتا ہے۔
2۔سات سے چودہ سال کی عمر تک کا دور۔اس دور میں عقل تدریجاً بڑ ھتی ہے اور فکری فعالیت کے لئے آمادہ ہوتی ہے۔اس دور میں انسان سیکھتا اور تعلیم و تربیت حاصل کرسکتا ہے۔
پہلے دور میں تربیت،براہ راست نہیں ہونی چاہیے اور اس عمر میں بچے کو کسی چیز سے روکنے اور کسی چیز کا حکم دینے میں سختی بھی نہیں کرنا چاہئے؛ بلکہ اس کے لیے اچھا ماحول،پاکیزہ فضا اور مناسب دوست فراہم کرنا چاہیے؛تاکہ وہ اپنے ماحول اور معاشرے سے تربیت پاتا اور ادب سیکھتا رہے،یہی وہ زمانہ ہے جس میں اخلاق کی پہلی بنیاد پڑتی ہے اور وہ اپنے ماحول کے بارے میں اچھی یاد داشتیں اور مناسب طرز عمل کو محفوظ کرلیتا ہے۔
دوسرے دور میں بچے کو آزاد نہیں چھوڑنا چاہیے اور اس کی غلطیوں سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے، بلکہ اس کو اس کی بے ادبیوں سے روکنا چاہیے، اسے نظم وضبط سکھانا اورحد سے زیادہ کھیل کود وغیرہ میں وقت ضائع کرنے سے روکنا چاہیے،عبادت اور نیک کاموں کی طرف اسے رغبت دلانا چاہیے۔یہی وجہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہوں اور انہیں نماز پر مارو جب وہ دس سال کے ہوں اور علیحدگی کردو ان کے درمیان خواب گاہ ہوں میں (ابوداؤد) ان عمروں میں اگرچہ ان پر نماز فرض نہیں ہے؛ لیکن عادت ڈالنے کے لیے انہیں ابھی سے نمازی بنانے کی تاکید کی جارہی ہے۔
عدل و مساوات:
حقوق اطفال کے حوالے سے آخری اور اہم بات جسے والدین کو اپنے بچوں کے سلسلے میں ملحوظ رکھنا چاہیے وہ یہ کہ والدین بچوں کے درمیان کسی بھی چیز کی تقسیم وغیرہ کے موقع پر عدل وانصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔کیونکہ بچوں کو ابتداء سے ہی عدل وانصاف کا خوگر بناناچاہیے تاکہ وہ اس کی خوبی کو محسوس کریں، اس کی اہمیت سے آشنا ہوجائیں، اسے اپنی زندگی اور معاشرہ کے لئے ضروری سمجھیں اور بے انصافی،ظلم اورہر طرح کے امتیازسے پرہیز کریں۔کیونکہ بچوں کی زندگی میں کوئی چیز چھوٹی نہیں ہوتی،لہذا عدل وانصاف کے نفاذ میں چھوٹی سے چھوٹی چیز کا خیال رکھنا بھی از حد ضروری ہے۔حضرت نعمان بن بشیر روایت کرتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے اپنا کچھ مال عنایت کیا۔ میری والدہ نے کہا کہ میں اس وقت تک اس پر راضی نہیں ہوں گی جب تک تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر گواہ نہ بنا لو۔ چنانچہ میرے والد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تا کہ آپ اس کو مجھے دیئے گئے ہدیہ پر گواہ بنائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ:
''کیا تم نے اپنے تمام لڑکوں کو اسی طرح ہدیہ دیا ہے؟''
میرے والد نے کہا: ''نہیں ''
رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا:''اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے بارے میں عدل سے کام لو''
چناں چہ میرے والد نے وہ ہدیہ مجھ سے واپس لے لیا۔
ایک دوسری روایت میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد اس طرح مروی ہے کہ آپ ﷺ نے میرے والد سے پوچھا:''کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ سب لڑکے فرمانبرداری اور حسن سلوک میں برابر ہوں؟''
کہا: ہاں کیوں نہیں۔
آپ ﷺ نے ارشادفرمایا: ''تب تو ایسا نہ کرو'' (متفق علیہ)
یعنی تم بچوں کے درمیان عدل و انصاف سے کام نہ لو گے اور برابری نہ کرو گے تو تمہارے ساتھ حسن سلوک اور اطاعت و فرمانبرداری میں بھی تمام بچے یکساں نہ ہوں گے بلکہ جن بچوں میں محرومی کا احساس ہوگا اور وہ والدین کی طرف سے نا انصافی محسوس کریں گے، ان کے اندر والدین کی نافرمانی کا جذبہ ابھرے گا۔
خلاصہئ کلام:
بچوں کی تعلیمی، معاشی اور معاشرتی ضروریات کے ساتھ ساتھ نفسیاتی ضروریات بھی بہت اہمیت کی حامل اور والدین کی توجہ کی متقاضی ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ نا صرف بچے کی تعلیمی و معاشی ضروریات پر توجہ دیں؛بلکہ بچوں کی سماجی اور نفسیاتی ضروریات کو بھی سمجھیں اور ان ضروریات کی تسکین کامناسب انتظام کریں،دن بھر میں بچوں کے لیے کچھ وقت فارغ کریں،ان کے ساتھ گفتگو کریں،ان کے سرپر دست شفقت رکھیں،ان کی پریشانی پوچھیں اور اسے حل کرنے کا تیقن دیں وغیرہ۔
دورجدید کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ والدین کے پاس بچوں کے لیے وقت ہی نہیں ہے جبکہ پرانے زمانے میں والدین بچوں کو وقت دیتے تھے،انہیں قصے اور کہانیاں سناتے تھیاور ان کی فکری تربیت کرتے تھے۔ یوں بچوں کی نفسیاتی ضرورت بھی پوری ہو جاتی تھی اور تعلیم وتربیت بھی۔
جواب دیں