ہمارا یہ دورہ جھارکھنڈ کے گملا ضلع سے شروع ہوا۔ ریاست جھارکھنڈ اپنے معدنی وسائل کے سبب اقتصادی لحاظ سے خود کفیل ہے۔ یہاں رہنے والے آدی واسی جو کہ اصل باشندے بتائے جاتے ہیں کی بودوباش اور طرز رہائش کا اپناایک مخصوص طریقہ ہے گو کہ حکومت کی کوششوں سے ان کی بڑی تعداد اب تعلیم بھی حاصل کررہی ہے اور ملک کے دیگر طبقات کے ساتھ شانہ بشانہ ترقی بھی کررہی ہے لیکن دیہی علاقوں میں آج بھی ایک قابل ذکر تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو زمانہ کی ترقی سے دور ہیں۔ وہ بچوں کے علاج کے لیے دوا وغیرہ لینے کے بجائے جھاڑ پھونک پر زیادہ یقین رکھتے ہیں حتی کہ ولادت اسپتال میں کرائی جائے اس کا تصور بھی محال ہے اور اس کا بنیادی سبب ان کی اپنی روایتی طرز زندگی ہے۔ جھار کھنڈ کے بعض علاقوں میں ایسے آدی واسیوں کی بود باش بھی ہے جن کی تعداد بہت کم ہے اور حکومتی سطح سے ان کے تحفظ کی بھی کوششیں کی جارہی ہیں۔ یونیسیف کے ذریعہ ان کے بچوں کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ٹیکہ لگانا اور ماؤں کو حمل کی صورت میں زچگی تک دیکھ ریکھ کرنا اور اسپتال میں ولادت کے لیے لانا یہ سب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
گملا اپنی آدی واسی تہذیب وثقافت کے حوالے سے ایک منفرد پہچان رکھتاہے یہاں کی اکثریت ناگپوری زبان بولتی ہے جبکہ غیر آدی واسیوں میں ہندی رابطہ کا کام کرتی ہے۔ اسی گملا ضلع کے جانیو ہاٹ کا سفر کئی لحاظ سے یادگاری اور اہم ہے۔ یہ جگہ گملا شہر سے 60کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے اور ایک جگہ تو نہر پر پل بھی نہیں ہے پل کے لیے کھمبے ضرور ہیں یہاں گاڑی سڑک سے نیچے اتر کر پانی میں جہاں لوگوں نے پتھر ڈال رکھے ہیں سے گذر کر نہر کو پار کرتے ہیں۔ اس کے بعد شروع ہوتا ہے جانیو ہاٹ کا سفر۔ جانیو ہاٹ کا راستہ گاڑی کا نہیں ہے بلند بالا پہاڑی پر پیدل چلنا ہے۔ یہ راستہ بھی سپاٹ یا صاف ستھرا نہیں ہے بلکہ برسات میں پانی جن راستوں سے پہاڑ سے نیچے آتا ہے وہی راستہ انسانوں کے اوپر جانے کے لیے ہے۔ دو گھنٹہ کی طویل مسافت کے بعد جب ہماری ٹیم وہاں پہونچی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ یہاں زندگی ہے اور آدی واسیوں کے 70مکانات پر مشتمل دو گاؤں آباد ہیں جو پوری طرح پہاڑ پر موجود ہیں۔ کچھ کھیتی باڑی بھی کرتے ہیں تو بعض پہاڑ کے نیچے جاکر کام کاج کرتے ہیں یہاں آکر بچوں کو ٹیکہ لگانا ایک مشکل اور پیچیدہ کام ہے لیکن اس کے باوجود یونیسیف کی ٹیم یہاں کام کرتی ہے چونکہ ہر مہینے یہاں پولیو ویکسین پلانا ممکن نہیں ہوتا ہے اس لیے ہر تین ماہ میں پوری ٹیم آکر دوا پلاتی ہے اور ٹیکے لگاتی ہے۔ اے این ایم(ANM)، جو کہ نرسنگ کی ایک ٹریننگ ہے کو حاصل کرنے والی سنگیتا کماری بتاتی ہیں کہ شروع میں تو یہاں عورتیں تعاون نہیں کررہی تھیں اور گھروں میں بند ہوجاتی لیکن میں نے بھی ہار نہیں مانی اور ان کے دروازے جاجا کر انھیں سمجھاتی اور بتاتی کہ اس دوا سے بچے کو یہ بیماری نہیں ہوگی چونکہ میں ان کی زبان میں بات کرتی تھی جس کا ان پر اثر ہوا۔ دھیرے دھیرے وہ بچے کو دوا پلانے کے لیے لانے لگیں۔ دوا پلانے کے لیے گاؤں میں ایک بڑ اسا چبوترا ہے جس پر پنچایت ہوتی ہے وہاں یہ کام انجام دیا جاتاہے۔
سب سے زیادہ مشکل اور پریشانی کسی کے بیمار ہوجانے پر ہوتی ہے کہ کس طرح اسے طبی امداد کے لیے پہاڑ سے نیچے لے جایا جائے کیونکہ اس کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ بیماری یا ولادت کے وقت مریض یا مریضہ کو ایک ڈلیا میں بٹھادیا جاتا ہے اور آگے پیچھے دو لوگ اسے پکڑ کر نیچے اتارتے ہیں، پھر یہاں سے عورتوں کو یونیسیف کے جوری گاؤں میں بنے میٹرینٹی ہوم لے جایا جاتا ہے جہاں لیبر روم کی سہولت موجود ہے۔ لیکن اگر کسی دوسری بیماری کا معاملہ ہوتا ہے تو اسے بشنو پرائمری ہیلتھ سینٹر لے جایا جاتا ہے۔ عورتوں اور بچوں کی دیکھ بھال اور طبی امداد پہونچانے میں سہیا کار ول بہت اہم ہے۔ انتہائی دشواری سے پہونچنے والا یہ اکیلا گاؤں نہیں ہے بلکہ گملا میں 36، بشنو پور میں 20اور چین پور میں 16ایسے بلاک ہیں۔ ان علاقوں میں یونیسیف کارکنوں کی یہ کوشش بلاشبہ نسل انسانی کی بقا اور انسانی سماج کو صحت مند بنیادوں پر کھڑا کرنا ہے۔ ان کوششوں کے نتیجہ میں جو بیداری آرہی ہے اس کے اثرات بھی نظر آرہے ہیں اور مائیں اپنے بچوں کو وقت پر ٹیکہ لگوارہی ہیں اوراس کے لیے انھیں ٹیم کی جانب سے جو ٹیکہ چارٹ دیاجاتا ہے اس کو سنبھال کر رکھتی ہیں اور بچوں کو ٹیکہ لگوانے کے لیے جب آتی ہیں تو اسے اپنے ساتھ لاتی ہیں جس کا نظارہ اس ٹیم کے اراکین نے خود کیا۔ ایک دو خواتین اپنے بچوں کو دوا پلانے سے محروم رہ گئیں تھیں اور جب ہم لوگ وہاں سے رخصت ہونے لگے تو ان خواتین نے آکر بچوں کو دوا پلانے کو کہا اور اپنا کارڈ دکھایا جس کے بعد ٹیم کے ارکان جو اپنا سامان سمیٹ چکے تھے نے سامان کھول کر بچوں کو دوا پلائی اور پھر وہاں سے رخصت ہوئے۔
اس کے بعد ہماری ٹیم نے جوری میٹرنٹی سینٹر دیکھا یہاں لیبر روم اور آنگن باڑی دونوں ہیں۔ ’ممتا کال سینٹر‘ نام سے فون سروس ہے جس کے ذریعہ مریض کے تیماردار یہاں فون کردیتے ہیں اور گاڑی جو کہ 27گھنٹہ مہیا رہتی ہے انھیں ان کے گھر سے لاتی ہے اور ولادت کے بعد اسے گھر واپس پہونچاتی ہے۔ یہ خدمات پوری طرح فری ہیں۔ اس فون سروس کے ذریعہ تقریباً 35کال روزانہ آتی ہیں اور تقریباً 30مریض آتے ہیں۔ یونیسیف کے ذریعہ ضلع کے صدر اسپتال کی سیہا کو ٹرینڈ کیا گیا ہے اور اسے لیبر روم سے جوڑا ہے تاکہ سیہا کو کسی طرح کی پریشانی نہ ہو۔ اس طرح یونیسیف ٹیکنیکل سپورٹ کرتی ہے۔ رائڈی میں پرائمری ہیلتھ سینٹر ہے یہاں 40بیڈ ہیں اور او پی ڈی کی سہولت ہے یہاں ان بچوں کو رکھا جاتا ہے جو غذائیت کی کمی کے سبب مختلف امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔انھیں پروٹین ملی ہوئی غذا دی جاتی ہے اور بچوں کو مگن رکھنے اور ان کا دل بہلانے کے لیے دیواروں کو کارٹون اور ڈرائنگ سے اس طرح سجایا گیا ہے کہ جس سے وہ خود کو اجنبی نہ محسوس کریں اور ماحول سے ہم آہنگ ہوجائیں۔ ڈوبری چین پور سینٹر کے سی ایم او ڈاکٹر اشوک تیاگی بتاتے ہیں کہ عام طور پر بچوں کو 15دن رکھتے ہیں اور بچے کے ساتھ اس کی ماں کو بھی رکھتے ہیں اور اسے بتاتے ہیں کہ بچوں کو کب کیا کھلانا ہے جس سے وہ غذائیت کی کمی کا شکار نہ ہو۔ یہاں کی صفائی دیکھ کر یہ گمان بھی نہیں ہوتاہے کہ یہ گملا کے ایک ایسے علاقے کا سینٹر ہے جو شہر سے دور ہے لیکن اپنی نفاست کے سبب مخصوص پہچان بنائے ہوئے ہیں۔ ان کمیونٹی سینٹر پر بچوں کی دیکھ ریکھ کے طریقوں سے ماؤں کو واقف کرایا جاتا ہے اور ان کا وزن وغیرہ نوٹ کیا جاتا ہے۔ یہاں آنے والی خواتین عام طور پر محنت مزدوری کا کام کرتی ہیں اس کے پیش نظر ان خواتین کو 15دنوں کے لیے 200روپے فی دن کے حساب سے 3ہزار روپے دیے جاتے ہیں۔
یونیسیف نے بچوں کو تندرست بنانے کے لیے جو پہل شروع کی ہے اس سفر میں اس کی بھرپور جھلک دیکھنے کو ملی اس مختصر سے مضمون میں تمام باتوں کا احاطہ ممکن نہیں ہے اس کے باوجود کوشش کی گئی ہے کہ اہم باتوں چھوٹنے نہ پائیں، اور یونیسیف کے ذریعہ کیے جارہے کاموں کا کسی قدر ذکر سامنے آجائے۔
جواب دیں