مگر جو معاملے سنگین ہو جاتے ہیں یا جن وارداتوں میں ملزمین بہت زیادہ رقم کا مطالبہ کرکے انکے بچوں کو قتل کی دھمکی دیتے ہین اس سے خوف زدہ ہوکر وہ مجبوراً پولس میں جاتے ہیں ورنہ زیادہ تر لوگ یہ کہہ کر پولس اسٹیشن نہیں جاتے کہ پولس خواہ مخواہ مزید پریشانی میں ڈال دے گی ۔معاملے کی نظر اندازی کی وجہ سے ہی آج بچوں کے اغواء کی وارداتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ دراصل مجرمانہ سرگرمیاں رکھنے والے اشخاص کے لئے اب اس کے سوا کوئی اور راستہ آسانی سے روپیہ کمانے کا نہیں رہ گیا ہے کیونکہ پولس نے ان جرائم پیشہ لوگوں کے لئے ہر راستے بند کر دیئے ہیں اسلئے یہ کسی بھی بڑے کارخانہ مالک کے بیٹے کو اغواء کر کے اسکی رہائی کے لئے لاکھوں روپیئے کی مانگ کر تے ہیں بہت سے کارخانہ مالک ڈر اور خوف میں مبتلاء ہوکر انہیں ہفتے کی رقم دے دیتے ہیں مگر جو کارخانہ مالک سخت مزاج کے ہوتے ہیں وہ اگر روپیئے دینے سے انکار کئے تو اغواء کیا گیا بچہ انکے گلے میں آجاتا ہے اب انکے پاس سوائے اسکے کہ اس کا قتل کر دیا جائے اور کوئی راستہ نہیں بچتا ۔اسلئے وہ اس بچے کو قتل کر کے پھینک دیتے ہیں یہ بھی پولس کے لئے پریشانی کا باعث بن جاتا ہے کیونکہ اس معا ملے میں پولس کو کوئی سراغ نہیں ملتا اسلئے ایسی وارداتوں کو حل کرنے میں پولس کو وقت لگتا ہے مگر بہر حال پولس ایسے معاملے کو حل کر ہی لیتی ہے ۔
اس سلسلے میں ملی اطلاعات کے مطابقیہ ہفتہ خور غنڈے کارخانوں کی تاک میں رہتے ہیں اسکے سیٹھ کی حرکات کو سکنات کی معلوموت حاصل کرتے ہیں اسکے بعد کارخانے کے ہی ایک نوکر کو بڑی لالچ دے کر اسے اپنا ہمنوا بنا لیتے ہیں اور پھر اسکی مدد سے وہ کارخانہ مالک کے لڑکے کا اغاوء کرتے ہیں اور اسکی رہائی کے لئے بڑی رقم کا مطالبہ کرتے ہیں ورنہ جان سے مارنےء کی بھی دھمکی دے دیتے ہیں زیادہ تر معاملوں میں ایسا ہوتا ہے کہ کارخانہ مالک گھبرا کر مانگی ہوئی رقم میں کم کرا کر اسے ادا کرکے اپنے لڑکے کو انکے چنگل سے آزاد کرا لیتے ہیں مگر کچھ معاملے ایسے ہوتے ہیں جس میں کارخانہ مالک ان غنڈوں سے ڈرنے کے بجائے انکے خلاف ڈٹ کر بولتے ہیں یا پھر اسے رقم دینے کی رضامندی ظاہر کرکے پولس کی مدد لیتے ہیں اور پھر منصوبہ بند طریقے سے روپیئے و صول کرتے ہوئے اس غنڈے کو پولس دبوچ لیتی ہے اس طرح وہ غنڈہ پولس کے ہتھے چڑھ جاتا ہے مگر زیادہ تر لوگ پولس میں نہ جاتے ہوئے خود ہی لے دے کر معاملے کو رفع دفع کر لیتے ہیں اسی وجہ سے یہ وارداتیں بھی بڑھ رہی ہیں کیونکہ ایسے لوگ پولس میں جانے سے گھبراتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہمیں یہیں کاروبار کرنا ہے اگر انکے خلاف گئے تو وہ ہمیں بار بار پریشان کرینگے اسلئے انہیں روپیئے دیکر جان چھڑا لیتے ہیں اس طرح ان ہفتہ خوروں کے حوصلے بھی بلند ہوجاتے ہیں جسکی وجہ سے آج کوئی محفوظ نہیں ہے۔ااسی طرح بچوں کی گمشدگی کے واقعات بھی اس شہر میں بہت بڑھ رہے ہیں ممبئی کے علاوہ ملک کے کئی علاقوں میں یہ بچہ چور گینگ سرگرم ہی لیکن روزانہ کئی علاقوں اور شہروں میں بھی بچی چوری کا کام ہو رہا ہے بچوں کی گمشدگی کی رپورٹیں مل رہی ہیں مگر اس معاملے مین پولس معذوری طاہر کر دیتی ہے کیونکہ اتنے بڑے شہر میں ملزم کو تلاش کرنا تقریباً نا ممکن ہے۔ایک اندازے کے مطابق ہر روز دو سے تین وارداتیں بچوں کے اغواء اور انکے قتل عام کی سننے کو مل رہی ہیں۔اس سلسلے میں احتیاطی طور سے یہ ہونا چاہیئے کہ کارخانہ مالک اپنے ہر نوکر پر خاص نظر رکھے اسے صرف کارخانے تک ہی محدود رکھے اس سے گھر کام ہرگز نہ کروئیں کیونکہ گھر کا کام کروانے سے ہی وہ گھر کا بھیدی بن جاتا ہے اور پھر اسے غنڈہ عناصر استعمال کر لیتے ہیں۔اس قسم کی زیادہ تر وارداتیں زری اور سلائی کے کارخانوں میں ہو رہی ہیں بعض واقعات تو ایسے بھی ہوئے ہیں کہ تنخواہ نہ ملنے کی بنا پر نوکر نے مالک کے بچے کا اغواء کیا اور اسے بڑی بے رحمی سے مار ڈالا۔یعنی اب سفاکی کیانتہا ہو گئی ہے جس سے عام شہری خوف میں مبتلاء ہے یہاں ایک پریشانی کی بات یہ بھی ہے کہ اس دور میں کس پر بھروسہ کیا جائے ۔ کارخانہ مالک سستے مزدور کی لالچ میں لڑکوں کو کام پر رکھ لیتے ہیں اسکی پوری انکوئری بھی نہیں کرتے۔نیز اسکے گاؤں کا ،رشتے داروں کا ،اور اسکے ملنے جلنے والوں کے بارے میں بھی کوئی معلومات نہیں حاصل کرتے اور اسے کام پر رکھ لیتے ہیں اور ایک دن اسی سے بہت بڑا دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ امتہا تو یہ ہے کہ کسی بچے کا اغواء کرنے کے بعد اگر مانگی ہوئی رقم نہیں ملی تو اسے قتل کر دیتے ہیں ۔یہ سفاکی کی انتہا ہے ایسے معاملوں میں پولس کو سختی سے کام لینا چاہیئے حالانکہ اب پولس کی جانب سے یہ پابندی ضرور لگی ہے کہ کسی کارخانہ دار کو اپنی جگہ کرایہ پر دیتے وقت اسکی معلومات پالس کو دینا چاہیئے اور وہ کارخانہ دار اپنے کاروبار کی نوعیت ،ملازمین کے نام اور انکا مقامی و گاؤں کا پتہ بھی فراہم کرے مگر شائد ہی کوئی کارخانہ دار ایس اکرتا ہو اور کوئی جگہ دینے والا اپنی جگہ اگریمنٹ پر دیتے ہوئے اس کا اندراج پولس میں کراتا ہو۔ اسکی بھی وجہ ہے اگر کا رخانہ دار ایسا کرنے جائے تو اسکو اپنے کاروبار کا لائسنس دکھانا پڑے گا گماشتہ دکھانا پڑے گا جبکہ ممبئی میں شائد ہی کوئی ایسا کارخانہ ہو جسکا لائسنس بنا ہو ۔ سب کے سب غیر قانونی طور پر چلائے جاتے ہیں اسلئے بھی وہ کسی سنگین واردات پر بھی پولس میں جانے سے کتراتے ہیں ۔اسکے علاوہ بھی نہ معلوم وجوہات کی بناء پر نوجوان لڑکوں کا اغواء کیا جاتا ہے اور وہ کبھی نہیں مل پاتے۔ممبئی پولس میں ایسے نوجوانوں کی گمشدگی کی بے شمار رپورٹ درج ہیں جنکا کوئی سراغ نہیں لگ سکا ہے ہماری معلوموت میں ایسے درجن بھر نوجوان لاپتہ ہیں جن کا کوئی سراغ نہیں لگ سکا وہ کہاں غائب کر دیئے جاتے ہیں کون اسے اٹھا کر لے جاتا ہے آج تک اس کا سراغ نہیں لگ سکا ۔ہم نے اس بارے میں یہ سنا ہے کہ اسکی بلی چڑھانے کے لئے اس کا اغاء کیا جاتا ہے اور بلی چڑھا دی جاتی ہے مگر یہ بھی نہیں معلوم ہو سکا کہ بلی کیوں اور کہاں چڑھائی جاتی ہے۔اس تعلق سے یہ بھی کہا جاتا ہے نوجوانوں کو اغواء کرکے اس کا گردہ ،آنکھیں اور دیگر کار آمد چیزیں نکال کر اسکی لاش کو ٹھکانے لگا دیا جاتا ہے یہ بہت بڑا ریکٹ ہے جو انسانی اعضاء کو فروخت کرنے کا کاروبار کرتا ہے مگر پولس بھی اس کا سراغ ابھی تک نہیں لگا سکی ہے۔یہ بھی اغاء کی سنسنی خیز واردات ہے جس میں قتل کیا جاتا ہے اس کاروبار میں ڈاکٹرس بھی ملوث ہوتے ہونگے کیونکہ انکے بغیر یہ کام نا ممکن ہے۔اکثر یہ شکایتیں ملتی ہیں کہ لڑکا گاؤں سے چلا ٹرین میں بیٹھا اور آدھے پونے رستے سے وہ لا پتہ ہوگیا ۔اسکی تلاش میں پورا ملک چھان مارا جاتا ہے مگر اس کا کہیں پتہ نہیں لگتا نہ زندہ اور نہ ہی مردہ وہ مل پاتا ہے گھر والے رو دھو کر صبر کر جاتے ہیں۔اس سلسلے میں یہی شبہ کیا جاتا ہے کہ کوئی ایسی گینگ ہے جو راستے سے ہی ایسے نوجوانوں کو غائب کر کے اسکے جسم کے اعضاء کی اسمگلنگ کرتی ہو اسلئے ایسی وارداتوں پر ریلوے ویجلنس ڈپارٹمنٹ کو خصوصی نظر رکھنا چاہیئے۔تاکہ اغواء اور قتل کی ایسی بھیانک وارداتوں پر لگام لگ سکے۔
جواب دیں