اعظم شہاب
آپ نے یہ واہیات کہاوت تو ضرور سنی ہوگی کہ ’غریب کی جورو سب کی بھابھی‘۔ بابری مسجد مقدمے کا فیصلہ آنے کے بعد مسلم پرسنل لابورڈ ودیگر ملی تنظیموں کے قائدین وسربراہان کی یہی حالت ہوگئی ہے۔ کوئی نام نہاد ملی قیادت کا نام لے کر انہیں کوس رہا ہے، کوئی انہیں ضمیر فروش قرار دے رہا ہے توکوئی بورڈ و ان تنظیموں کی ضرورت وافادیت پر ہی سوالیہ نشان لگا رہاہے۔ یعنی کہ جتنے منہ اتنی باتیں اور جتنی باتیں اتنا ہی لعن طعن۔ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ آخر اس معاملے میں مسلم پرسنل لائبورڈ و دیگر مسلم تنظیموں کا کیا قصور ہے۔ جبکہ یہ لعن طعن کرنے والے اس بات سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ بورڈ وجمعیہ علماء ہند کی جانب سے عدالت میں خاطر خواہ پیروی بھی ہوئی اور حقِ ملکیت سے لے کر بابری مسجد کی موجودگی و انہدام تک کے تمام نکات عدالت کے سامنے پیش بھی کیے گئے جس کا اعتراف فیصلہ سناتے ہوئے عدالتی بنچ نے بھی کیا تھا۔
لطف کی بات یہ ہے کہ جو لوگ آج بابری مسجد کے مقدمے کی پیروی کرنے والوں کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں، ملی معاملات میں ان کی حصہ داری سوشل میڈیا پر کوئی پوسٹ یا اخبارات میں کوئی مراسلہ تحریر کرنے سے زیادہ نہیں ہے۔ جبکہ جو لوگ واقعتاً ملی کاز میں جٹے ہوئے ہیں، عدالتوں میں مقدمات کی پیروی کر رہے ہیں، ثبوت وشواہد یکجا کر رہے ہیں، وکلاء کے فیس ادا کر رہے ہیں، وہ بجا طور پر قوم وملت کے حقوق کی بازیابی کا فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ بابری مسجد کی جگہ کو رام مندر کے لیے دیئے جانے کے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد سے سوشل میڈیا پرجس طرح کے لاف وگزاف بکے جارہے ہیں، اسے کسی طور ملی قیادت کا ساتھ دینے کے مترادف قرار نہیں دیا جاسکتا، کجا یہ کہ اسے فراست یا دور اندیشی قرار دیا جائے۔ یہ حرکتیں کرنے والے خود اپنے عمل سے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ حد درجہ جنجھلاہٹ نے ان کے عقلوں کو ماؤف کردیا ہے، جس کی وجہ سے وہ فیصلے کی تہہ تک پہونچنے کے بجائے مقدمے کی پیروی کرنے والوں کو ’مجرم‘ قرار دے رہے ہیں۔
جہاں تک بات اس فیصلے کی تہہ تک پہونچنے کی ہے تو بس تھوڑا سا آموختہ دہرا لینا کافی ہوگا۔ بات زیادہ پرانی نہیں ہے بلکہ فروری 2013 کی ہے، جب سپریم کورٹ نے افضل گرو کی پھانسی کی سزا کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے تحریری فیصلے میں یہ بات درج کی کہ گوکہ استغاثہ ملزم کے خلاف کوئی خاطر خواہ ثبوت پیش نہیں کرسکا ہے، اس کے باوجود ملک کی اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کے لئے ملزم کو پھانسی دی جائے۔ بابری مسجد کا فیصلہ بھی ملک کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کی فریم میں بالکل فٹ بیٹھتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو مسجد کی موجودگی کے عینی و دستاویزی ثبوت کی موجودگی میں بھلا یہ کیونکر ممکن تھا کہ ایک ایسی آستھا کے حق میں فیصلہ دیا جاتا جس کا کوئی حتمی دستاویزی ثبوت عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا؟ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک جانب یہ بھی کہا جارہا ہے 1992 میں مسجد کو منہدم کرنا غیر قانونی تھا تو دوسری جانب سے اسے منہدم کرنے کے غیرقانونی عمل کے مرتکبین کو وہاں پر رام مندر تعمیر کرنے کا حکم دیدیا گیا؟ یہ کون سا فیصلہ ہے کہ ایک جانب اعلان کیا جاتا ہے کہ مقدمے میں حقِ ملکیت موضوع سماعت ہے اور فیصلے میں آثارقدیمہ کی غیر واضح اور مبہم رپورٹ کو بنیاد بنایا جاتا ہے؟ سپریم کورٹ کے فیصلے میں اس طرح کے درجنوں ٹکراؤ ہیں جنہیں نہ صرف ملک کا سیکولر ہندو طبقہ بلکہ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس اشوک کمار گنگولی نے بھی عدوانصاف کے منافی قرار دیا ہے۔
ملک کی سب سے بڑی عدالت نے یہ فیصلہ سنایا ہے۔ لیکن فیصلے کو ماننا اور اس پر مطمئن ہونا دوونوں علاحدہ ہیں۔ مسلمان اس فیصلے کو مان رہے ہیں لیکن اس پر مطمئن نہیں ہیں۔ اس فیصلے کو اب کسی اور بالا عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا سوائے اس کے اسی عدالت سے اس پر نظر ثانی کی درخواست دی جائے۔ پھر یہ عدالت کی صوابدید پر منحصر ہوگا کہ وہ نظر ثانی کی درخواست کو کتنی قابلِ اعتنا سمجھتی ہے۔ کیونکہ یہ فیصلہ صریح طور پر آستھا وعقیدے کی بنیاد پر کیا گیا فیصلہ ہے، جس کی گنجائش نہ تو ملک کی آئین میں ہے اور نہ ہی یہ عدل وانصاف کے تقاضوں کے مطابق ہے۔ اور جب عدل وانصاف کی راہ میں آستھا یا عقیدہ حائل ہوجائے تو پھر انصاف کی توقع بے معنی سی ہوکر رہ جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بابری مسجد کا مقدمہ ہار جانے کا پوری ملت کو نہایت افسوس ہے۔ یہ افسوس کچھ مقامات پر حد درجہ غم وغصے کے ساتھ آنسوؤں میں بھی تبدیل ہوئے ہیں تو کچھ مقامات پر توہین عدالت کی سرحدوں کے قریب تک بھی پہنچ گئی ہے۔ لیکن کیا غم وغصے کے اظہار کے لئے یہ ضروری ہے کہ مقدمے کے مسلم فریقین کو ہی لعن وطعن کیا جائے، جبکہ مسلم فریق کی جانب سے پیش کردہ دلائل وشواہد اس قدر مستحکم اور مضبوط تھے کہ عدالت کو ایک بے جان شئی یعنی کہ رام للّا کو فریق تسلیم کرنا پڑا؟
اس فیصلے نے پوری ملت پر مایوسی طاری کردی ہے۔ یہ مایوسی صرف اس لئے ہی نہیں ہے کہ مسلمان بابری مسجد کا مقدمہ ہار گئے، بلکہ اس لئے ہے کہ عدالت نے مسجد کے حق میں دیئے گئے تمام ثبوت وشواہد کو درکنار کررتے ہوئے اپنے فیصلے سے ایسی نظیر پیش کردی ہے جس نے آئندہ کے لئے اس طرح کے غاصبیت کی راہ کھول دی ہے۔ اسدالدین اویسی سے لاکھ مخالفت کے باوجود ان کی اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ مقدمہ صرف مسجد کی ایک جگہ کے لیے نہیں تھا بلکہ ملک مسلمانوں کے حق کا تھا۔ یہ حق ایک آستھا کی بنیاد پر ہم سے چھین لیا گیا ہے۔ این آر سی کی آڑ میں مسلمانوں کو اس ملک سے دربدر کرنے کا پلان تیار ہوچکا ہے، رہی سہی کسر عدالتوں کے ذریعے پوری ہو رہی ہے اور یہ سب اس لئے ہو رہا ہے کہ حکومت عدالت سے زیادہ مضبوط ہوچکی ہے۔ اس لئے یہ وقت ملی کاز کے لئے کام کرنے والوں کے خلاف لاف وگزاف بکنے کا نہیں بلکہ ٹھنڈے دماغ سے قوم وملت کے مستقبل کے بارے میں غور کرنے کا ہے۔ یہ وقت بورڈ یا دیگر ملی تنظیموں کی ضرورت وافادیت پر سوالیہ نشان لگانے کا نہیں بلکہ جو بھی لولی لنگڑی قیادت موجود ہے، اس کے ساتھ کھڑے ہونے کا ہے۔ ان تنظیموں وجماعتوں کے سربراہان جنہیں ہم ملی قیادت کہتے ہیں، انسان ہی ہیں، ان سے بھی غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوسکتی ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں ہے کہ لعن طعن کرکے ان کے حوصلوں کو پست کردیا جائے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
18 نومبر 2019
ذرائع : قومی آواز
جواب دیں