’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘
عبدالعزیز
پرگیہ سنگھ ٹھاکر مالیگاؤں کے بم بلاسٹ کیس میں گرفتار ہوئی تھیں۔ تقریباً دس سال جیل میں گزارنے کے بعداپنوں کی رعایت اور عنایت کی وجہ سے جیل سے باہر آگئی ہیں۔ باہر آتے ہی انھیں بھوپال لوک سبھا حلقہ سے بی جے پی نے اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔ امیدوار ہونے کے بعد سے ان کی زبان اور بیان سے دہشت گردانہ باتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ پہلے مہاراشٹر اے ٹی ایس کے بہترین اور ایماندار پولس افسر ہیمنت کرکرے پر الزام عائد کیا کہ انھیں ہر قسم کی اذیت پہنچائی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو میری بددعائیں لگ گئیں اور ان کا کام تمام کردیا گیا۔ ان کے اس بیان کے خلاف پورے ملک میں ان کی مذمت کی گئی۔ بالآخر بھاجپا نے ان کے بیان سے اپنا دامن جھاڑ لیا اور پرگیہ ٹھاکر کو معافی تلافی کیلئے مجبور کیا۔ اس کے باوجود پرگیہ ٹھاکر ٹی وی نیوز چینلوں اور میڈیا کو بار بار یہ بیان دے رہی ہیں کہ ہیمنت کرکرے نے انھیں ٹارچر کیا ہے۔ ان کے اس بیان کی بی جے پی کے ترجمان اور لیڈران مدافعت کر رہے ہیں۔
ایک طرف بی جے پی کے لیڈران عوام و خواص کے دباؤ کی وجہ سے ہیمنت کرکرے کو شہید کا درجہ دے رہے ہیں اور دوسری طرف ان پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ وہ ایک ایسا پولس افسر تھا جس نے خواہ مخواہ سادھوی کو مورد الزام ٹھہرایا اور ذہنی تکلیف پہنچائی۔ حالانکہ بی جے پی کی سادھوی اس وقت گرفتار ہوئی تھیں جب مہاراشٹر میں بی جے پی کی حکومت تھی۔ امیدوار بننے سے پہلے ہیمنت کرکرے کے خلاف نہ بی جے پی کا کوئی بیان آیا اور نہ ہی پرگیہ ٹھاکر نے کوئی الزام عائد کیا۔ پرگیہ ٹھاکر کو بھوپال سے کھڑا کرنے کا ایک ہی مقصد ہے کہ پولرائزیشن بڑھے اور بی جے پی کو الیکشن میں کامیابی ہو۔ ایڈوانی مودی کو لائے، مودی یوگی کو لائے اور اب مودی، یوگی اور شاہ مل کر پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو لائے ہیں۔ امیت شاہ کی خواہش تھی کہ بھوپال حلقہ انتخاب سے شیوراج سنگھ چوہان کو دگ وجئے سنگھ کے خلاف میدان میں اتارا جائے۔ لیکن چوہان کسی طرح بھی قومی سیاست میں قدم رکھنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ ان کے پیروکار کو یہ سمجھا رہے تھے کہ اگر وہ قومی سیاست میں قدم رکھتے ہیں اور مرکز میں جاتے ہیں تو مدھیہ پردیش ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔آر ایس ایس کی ہدایت پر جب پرگیہ سنگھ کا نام دگ وجئے سنگھ کے مقابلے میں آیا تو چوہان کی جان میں جان آئی اور ان کوبڑی راحت ملی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے نام کا اعلان کرتے ہوئے چوہان خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ چوہان کے حمایتیوں کو اب بھی خطرہ ہے کہ اگر پرگیہ سنگھ ٹھاکر بھوپال سے کامیاب ہوگئیں تو کہیں وہ مدھیہ پردیش کے یوگی آدتیہ ناتھ نہ بن جائیں۔
پرگیہ ٹھاکر نے ہندی نیوز چینل ’آج تک‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاکہ ’’مجھے اس بات کا فخر ہے کہ میں بابری مسجد کے ڈھانچے کے خاص حصہ پر چڑھ کر گرایا۔ اب رام مندر کی تعمیر میں پیش پیش رہنے اور اس کی ہر سرگرمی میں حصہ لینے کی ہر ممکن کوشش کروں گی تاکہ رام مندر کی تعمیر جلد سے جلد ہوجائے‘‘۔
ایک دہشت گرد کی زبان سے دہشت گردی کی بات ہی سامنے نکلے گی، پیالہ سے وہی ٹپکتا ہے جو پیالہ میں رہتا ہے۔ ابراہیم ذوق نے سچ کہا ہے ’’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘۔ رام مندر کی تحریک اور بابری مسجد کے انہدام میں سنگھ پریوار کے ایک ایک فرد نے دامے ، درمے ، سخنے حصہ لیا۔ مسجدکے انہدام کے فوراً بعد دہلی کے ایک ہندو نوجوان نے بابری مسجد کی شہادت پر نوے منٹ کی ڈَکومنٹری فلم بنائی۔ فلم کے اندر آر ایس ایس کے کئی ایسے لوگوں سے انٹرویولیتے ہوئے دکھایا ہے جنھوں نے بابری مسجد کو گرانے میں حصہ لیا تھا۔ آ رایس ایس کے ایک ممبر نے جس کا تعلق گجرات سے ہے کہامیں آج بھی بابری مسجد کے گرانے پرفخر محسوس کرتا ہوں اور آئندہ میری نسل کے لوگ فخر کریں گے کہ ان کے دادا یا نانا نے بابری مسجد کو اپنے ہاتھوں سے منہدم کیا تھا‘‘۔
پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو میدان میں اتارا ہی اس لئے گیا ہے کہ فرقہ وارانہ اور دہشت گردانہ خیالات کا اظہار کریں اور اپنی باتوں سے فرقہ وارانہ ماحول کو الیکشن تک گرم رکھیں۔ پہلے ایک یوگی تھے ۔ اب ایک سادھوی بھی ان سے آگے نکل گئی ہیں جو زہر اگل رہی ہیں۔ اس طرح کے بہت سے کردار سنگھ پریوار میں ہیں۔ ان سب کے سردار نریندر مودی ہیں جو ان سب کے سرپرست اور مکھیا بنے ہوئے ہیں ۔الیکشن میں سنگھ پریوار کی جیت ہو یا ہار ہو ، یہ جو فرقہ وارانہ ماحول چار پانچ سال میں بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر ہار ہوگئی تو اس کی عمر کم ہوگی اور اگر جیت ہوگئی تو درازیِ عمر میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ پاکستان میں دہشت گردوں کی جماعت نے حالیہ الیکشن میں حصہ لیا لیکن ہر جماعت کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس کے برعکس بدقسمتی سے ہندستان میں فرقہ پرست اور فسطائی جماعت برسر اقتدار ہے اور برسر اقتدار آنے کیلئے بے قرار ہے۔ امتحان اور آزمائش ہندستانی ووٹروں اور باشندوں کا ہے کہ وہ اپنے ووٹوں سے ایسے لوگوں کو کامیاب بنائیں گے جو ملک میں امن و امان اور قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں یا ایسے لوگوں کو فتحیابی دلائیں گے جو ملک میں بدامنی، بدنظمی اور فتنہ و فساد برپا کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں؟
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے 22اپریل2019(فکروخبر)
جواب دیں