کوئی بھی زمین مسجد کا متبادل نہیں ہوسکتی!
جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین)
بابری مسجد کا مقدمہ بہت طویل عرصہ سے چل رہا تھا ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ پہنچا اور حال ہی میں سماعت کا سلسلہ اس انداز سے چلا کہ پورے ملک کی عوام کو یہ احساس ہونے لگا کہ اب بابری مسجد کا فیصلہ ہوجائے گا مسلم رہنماؤں نے اور ساتھ ہی بابری مسجد مقدمے کے وکیل راجیو دھون نے انتہائی جامع شواہد و دلائل پیش کیے جس کے نتیجے میں فیصلہ تو ہوگیا لیکن توقعات کے برعکس فیصلہ ہوا سپریم کورٹ قابل احترام ہے ہم سپریم کورٹ کا احترام کرتے ہیں لیکن جو فیصلہ آیا ہے اس سے مسلمانوں کے اندر اداسی چھائی ہوئی ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے انہدام کو غیرقانونی قرار دیا ہے اور مجرمانہ فعل مانا ہے، سپریم کورٹ نے یہ بھی مانا ہے کہ بابری مسجد رام مندر توڑ کر نہیں تعمیر کی گئی ہے تو پھر فیصلہ کیسے رام مندر کے حق میں چلا گیا اسی لئے دانشوروں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ سپریم ہے ہم سپریم کورٹ کا احترام کرتے ہیں لیکن ایک انسان سے غلطی ہو سکتی ہے اور سابق چیف جسٹس تک کہرہے ہیں کہ فیصلہ سمجھ سے بالا تر ہے مغل دور حکومت میں بابری مسجد تعمیر کی گئی، انگریزوں کے دور حکومت میں بابری مسجد تھی، جنگ آزادی کے دوران بابری مسجد تھی، ملک آزاد ہوا تو بابری مسجد تھی، جب ہمارا آئین نہیں تھا تب بھی بابری مسجد تھی اور جب آئین وجود میں آیا تب بھی بابری مسجد تھی تو پھر مسلمانوں کا مالکانہ حق کیسے نہیں ہے دوسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے انتہائی ٹھوس شواہد و دلائل پیش کیے گئے اس کے باوجود بھی سپریم کورٹ نے کہا کہ مسلمان بابری مسجد پر اپنا مالکانہ حق ثابت نہیں کرپائے اس لئے یہ زمین رام للا کو دی جارہی ہے اور مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ زمین دیجانے اب یہیں سے مسلمانوں کے اندر بیچینی کے سلسلے کا آغاز ہوتا ہے کہ جب ہمارا دعویٰ ہی ثابت نہیں ہوا تو ہمیں پانچ ایکڑ زمین کیوں دیجارہی ہے مقدمہ بٹوارے کا تو تھا نہیں اور اگر بٹوارے کا ہوتا تو اسی زمین میں سے دیا جاتا جس کا مقدمہ چل رہا تھا جیسا کہ ہائی کورٹ نے بٹوارے کا فیصلہ کیا تھا لیکن ہائی کورٹ کا فیصلہ دونوں ہی فریق نے نامنظور کردیا تھا اور بڑی امید کے ساتھ سپریم کورٹ پہنچے تھے اور یہ تو کبھی تصور نہ کیا جائے کہ مسلمان سپریم کورٹ کو نہیں مانتا بلکہ مسلمان تو سپریم کورٹ کا اتنا احترام کرتا ہے کہ فیصلہ اپنے حق میں نہ آنے کے بعد بھی صبر و تحمل کا ایسا مظاہرہ کیا ہے کہ بے مثال ہے مسلمانوں کے اندر اداسی اور مایوسی اس لئے ہے کہ مسلمانوں کے سارے دلائل کو ماننے کے بعد بھی فیصلہ رام مندر کے حق میں دیا گیا اور مسجد کے لئے پانچ ایکڑ زمین دینے والی بات کہہ کر مسلمانوں کی تشویش میں مزید اضافہ کردیا گیا اب کچھ نام نہاد علماء و مختلف بورڈ کے نام نہاد ذمہ داران پانچ ایکڑ زمین لینے کے لیے بیچین ہیں وہاں وہ یونیورسٹی اور عظیم الشان مسجد کی تعمیر کا منصوبہ بنارہے ہیں ضمیر فروشی کی حد پار کردی کچھ لوگوں نے شاید ایسے ہی لوگوں سے متاثر ہو کر کسی انگریز مؤرخ نے کہا ہے کہ دنیا میں سب سے اچھا مذہب اسلام ہے اور سب سے بدتر قوم مسلمان ہے اور آج سنی وقف بورڈ نے جو کیا ہے اسے نہ تو تاریخ کبھی معاف کرے گی اور نہ مسلمان کبھی معاف کرے گا وقف بورڈ سودے بازی کیلئے نہیں ہوتا، قوم کے جذبات کو مجروح کرنے کے لیے نہیں ہوتا، منافقانہ کردار ادا کرنے کے لیے نہیں ہوتا اور وقف بورڈ کسی ملکیت کا زمین کا مالک بھی نہیں ہوتا بلکہ اس کی نگرانی اور حفاظت کے لیے ہوتا ہے کچھ تو آج ایسے عالم ہیں جو کل تک مسجد کی تعمیر کی فضیلت بیان کرتے تھے جنت میں محل کی تعمیر کا ذکر کرتے تھے آج اچانک انکے نظریات تبدیل ہو گئے ان کے نزدیک شریعت اور طبیعت میں آج کوئی فرق نہیں رہا اخباروں میں سرخیاں لگ رہی ہیں کہ سنی وقف بورڈ نے سب کو دھوکہ دیا آج سے تین چار مہینہ پہلے ہی بابری مسجد رام مندر معاملے سے دستبردار ہوگیا اور رام مندر کیلئے زمین دیدینے کیلئے مہم بھی چلائی اتنا بھی نہیں سوچا کہ ہم اللہ کے گھر کی دلالی کر رہے ہیں اپنی ہی قوم کو دغا دیر ہے ہیں آخر ہم کعبہ کس منہ سے جائیں گے کل میدان محشر میں اللہ اور اللہ کے رسول کو کیا منہ دیکھا ئیں گے دولت و منصب کے نشے میں اللہ و رسول سے ہی بغاوت کر بیٹھے آج ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ اس ملک میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ مسلمانوں نے ہی دھوکہ دیا ہے آج تھوڑا سا منصب کیا مل جاتا ہے کہ وہ ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی، مولا علی رضی اللہ عنہم کو بھول جاتا ہے ان لوگوں کی صداقت، عدالت، سخاوت اور شجاعت سے منہ موڑ لیتا ہے بغیر پیندی کے لوٹے کی طرح ہو جاتا ہے جہاں ڈگرایا جاتا ہے وہاں ڈگر جاتا ہے، جہاں گھمایا جاتا ہے وہاں گھوم جاتا ہے، جیسا بولوایا جاتا ہے ویسا ہی بولنے لگتا ہے اپنے اسلاف کا مدفن بیچ کھانے پر آمادہ ہوجاتا ہے انکے کردار سے پوری قوم کا سر نیچا ہوجاتا ہے اور اب تو یہی کہا جائے گا کہ اپنے کعبے کی حفاظت ہمیں خود کرنی ہے کیونکہ اب ابابیلوں کا لشکر نہیں آنے والا بابری مسجد کے اندر محراب و منبر تھے، مسلمانوں کی پیشانیوں کے سجدوں کے نشان تھے مگر اب بابری مسجد تاریخ کے اوراق میں گم ہو گئی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نظر ثانی کی اپیل دائر کرنے پر غور کر رہا ہے جمعیۃعلماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے بھی کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ سمجھ سے بالا تر ہے اور مولانا مدنی مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں مسلمانوں کو اپنے حال پر غور کرنے کا وقت آگیا ہے کہ مساجد کو آباد کرنا ہوگا احکام خداوندی اور فرمان نبی پر عمل کرنا ہوگا ساتھ ہی ساتھ تعلیم و سیاست کے میدان میں آگے آنا ہوگا اسلاف کی تاریخ کو یاد کرنا ہوگا صحابہ کرام کی زندگی کا مطالعہ کرنا ہوگا اور اس پر عمل کرنا ہوگا موبائل پر زنا کے مناظر اور گیم کھیل کر اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ دنیا و آخرت کو تباہ کرنے سے باز آنا ہوگا، مسلکی اختلافات کو منظر عام پر لانے سے پرہیز کرنا ہوگا غرضیکہ مسلمانوں کو اپنے اندر دینی، تعلیمی، سماجی اور سیاسی انقلاب لانا ہوگا تبھی ہم کھویا ہوا وقار حاصل کر پائیں گے آج ہمیں مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی رحمہ اللہ کی وہ بات یاد آرہی ہے وہ کہا کرتے تھے کہ مدارس میں درس و تدریس کے فرائض انجام دینے اور مساجد میں نماز کی ادائیگی کے ساتھ ہمیں اس کے فروغ اور اس کے تحفظ کیلئے بھی قدم اٹھانا چاہیے تاکہ ہمارے مدارس اور ہماری مساجد کا تقدس پامال نہ ہوسکے اور اس اقدامات کیلئے ہمیں آئین کے تحت حاصل شدہ اختیارات کے مطابق نیک نیتی کے ساتھ سیاسی شعور سے لبریز ہونا ضروری ہے ورنہ ہم خواب غفلت میں پڑے رہیں تو ہوسکتا کہ ہماری عبادت گاہیں محفوظ نہ رہ سکیں ہمیں ملک سے کوئی شکایت نہیں ہے ہمارا ملک ہمیں جان سے زیادہ عزیز ہے اور جب جب موقع آیا ہے تو ہم نے اس کا ثبوت بھی دیا ہے ہمیں سپریم کورٹ سے بھی شکایت نہیں ہے سپریم کورٹ ملک کی عدالت عظمیٰ ہے ہم اس کا احترام کرتے ہیں اور ہم سپریم کورٹ کا احترام کرتے ہوئے یہ بھی مانتے ہیں کہ انسان سے غلطی ہوسکتی ہے اور ایسا ہی ہوا ہے کہ مسلم فریق کے شواہد و دلائل کی روشنی میں مسلمانوں پر لگا ایک داغ دھل گیا کچھ لوگ زور و شور سے واویلا مچایا کرتے تھے کہ رام مندر توڑ کر بابری مسجد کی تعمیر کیگئی ہے لیکن سپریم کورٹ نے اعلان کردیا کہ رام مندر توڑ کر بابری مسجد نہیں بنائی گئی ہے، بابری مسجد کو منہدم کرنے کو بھی سپریم کورٹ نے غیر قانونی مانا پھر بھی فیصلہ مسلمانوں کے حق میں نہیں ہوا اور اسی وجہ سے ملک کے بہت سے دانشور یہاں تک کہ سابق چیف جسٹس تک اس فیصلے پر سوال کھڑا کر رہے ہیں اور جہاں تک پانچ ایکڑ زمین مسجد کی تعمیر کیلئے دینے کی بات ہے اسی سے یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ سارے دلائل و ثبوت آستھا کی بھینٹ چڑھ گئے کسی بھی غیر متنازعہ زمین پر مسجد کی تعمیر ہوسکتی ہے لیکن کسی مسجد کے بدلے کہیں اور زمین پر مسجد کی تعمیر درست نہیں ہے افسوس اس بات کا ہے کہ اب وہ لوگ جن کے سروں پر دستار باندھی گئی ہے بدن پر جبہ زیب تن ہے وہ لوگ بھی پانچ ایکڑ زمین لینے کے لیے بیتاب ہیں یونیورسٹی اور دوسری مسجد کی تعمیر کیلئے بیچین ہیں نہ جانے وہ لوگ کونسی تعلیم دینگے جبکہ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ کسی مسجد کا متبادل کوئی زمین نہیں ہوسکتی قابل تعریف ہیں مولانا ارشد مدنی صاحب جو ضعیفی کے عالم میں بھی ہر قدم راہ حق و صداقت میں اٹھاتے ہیں اور اب بھی وہ مایوس نہیں ہیں بلکہ نظر ثانی کی اپیل دائر کرنے پر غور کر رہے ہیں سنی وقف بورڈ کا جو کارنامہ سامنے آیا ہے اسکی مذمت ہونی چاہیے اور ہر مدارس سے یہ تجویز پاس ہونی چاہیے کہ سنی وقف بورڈ تحلیل کیا جائے اس سے مسلمانوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ یہ مسلمانوں کیلئے اور حکومت کیلئے بوجھ ہے اسے تحلیل کرنے سے حکومت کا خزانہ مضبوط ہوگا انہیں تنخواہ اور دیگر سہولیات فراہم کرنا فضول ہے مسلمانوں کو بھی اب اپنا محاسبہ کرنے کا وقت آگیا ہے عالیشان مسجد کی تعمیر کے جذبے سے زیادہ مسجدوں کو سجدوں سے سجانے کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے یعنی مسلمان موجودہ وقت میں مایوس نہ ہوں بلکہ ساری مساجد کو آباد رکھیں –
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
20نومبر2019(فکروخبر)
جواب دیں