بابری مسجد پر فیصلہ آنے کے بعد مساجد کو آباد رکھنے کی کوشش کی جائے

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی

سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد پانچ سو سالہ پرانی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر تعمیر کی راہ ہموار ہوگئی ہے، اگرچہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمعیت علماء ہند اور دیگر قومی وملی تنظیموں نے عدالت کی طرف سے ملے حق کا استعمال کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر نظر ثانی کے لے عرضی (ریویو پٹیشن) داخل کرنے کا ارادہ کرلیا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کو بدلنا بظاہر ممکن نہیں ہے، مگر مسلم فریق کو کم از کم اس فیصلہ پر بحث کرنے کا ایک موقع ضرور مل جائے گا۔ کیرلا میں واقع سبری مالا مندر پر بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا تھا کہ سبری مالا مندر میں کسی بھی عورت کو داخل ہونے سے روکا نہیں جاسکتا ہے مگر ہندو تنظیموں کی طرف سے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف نظر ثانی کے لئے عرضی (ریویو پٹیشن) داخل کی گئی تھی جس پر سپریم کورٹ کو چیف جسٹس رنجن گنگوئی کے ریٹائرمنٹ سے پہلے اپنا فیصلہ سنانا تھا مگر سپریم کورٹ نے فی الحال اس کیس کو پانچ ججوں کے پینل سے سات ججوں کے پینل کو سپرد کردیا ہے۔ ہندو مذہب کی روایت کے مطابق 10 سال سے 50 سال کی خواتین کو سبری مالا مندر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ 
مساجد صرف عبادت گاہ نہیں بلکہ وہ تربیت گاہ ہیں جہاں سے ایک طرف مسلمانوں کو قرآن وحدیث کی روشنی میں زندگی گزارنے کے لئے رہنمائی دی جاتی ہے وہیں دوسری طرف پوری دنیا کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ اسلام امن وسکون اور شانتی کا مذہب ہے۔ مساجد کے اعمال میں سب سے اہم اُس فریضہ کی ادائیگی ہے جس کی فرضیت کا تحفہ اللہ تعالیٰ نے بذات خود تمام نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمانوں کے اوپر بلاکر معراج کی رات میں عطا فرمایا۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ مرد حضرات کو حتی الامکان فرض نماز جماعت ہی کے ساتھ ادا کرنی چاہئے کیونکہ فرض نماز کی مشروعیت جماعت کے ساتھ وابستہ ہے۔ فرض نماز جماعت کے بغیر ادا کرنے پر فرض تو ذمہ سے ساقط ہوجائے گا، مگر معمولی معمولی عذر کی بناء پر جماعت کا ترک کرنایقینا گناہ ہے۔ ہندوستان کے موجودہ تناظر میں علماء ودانشواران قوم کو چاہئے کہ وہ بابری مسجد جیسے حساس معاملوں پر سڑکوں پر آنے کے بجائے ہندوستانی قوانین کا سہارا لے کر قانونی جنگ لڑیں، ورنہ ہم شرپسند عناصر کے مقاصد کوپورا کرنے والے بنیں گے اور یہی ان کا اصل ایجنڈا ہے کہ مسجد ومندر کے مسائل اٹھاکر ملک کی عوام کو گنگا جمنی تہذیب کے برخلاف ہندو ومسلم میں تقسیم کردیا جائے۔ ہاں البتہ ہمیں ایسی کوششیں ضرور کرنی چاہئیں کہ ہمارے محلہ کی مسجدیں آباد ہوں اور مسلمان خاص کر نوجوان جمعہ کی طرح تمام نمازوں کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے والے بنیں کیونکہ فرض نماز ہمیں جماعت کے ساتھ مسجد میں جاکر ہی ادا کرنی چاہئے۔ نیز ہمیں اپنے قول وعمل سے غیر مسلموں کو یہ بتانا ہوگا کہ مساجد، مکاتب ومدارس سے دہشت گردی نہیں بلکہ امن وسلامتی اور محبت کا پیغام دیا جاتا ہے، اور وہاں دوسروں حتی کہ غیر مسلموں کے حقوق ادا کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ آئیے اس موقع پر اسلام میں مسجد کے مقام اور اس کی اہمیت کو قرآن وحدیث کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ 
زمین کے تمام حصوں میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب مساجد ہیں، یہ آسمان والوں کے لئے ایسے ہی چمکتی ہیں جیسا کہ زمین والوں کے لئے آسمان کے ستارے چمکتے ہیں۔ ان مساجد کو نماز، ذکر وتلاوت، تعلیم وتربیت، دعوت وتبلیغ اور دیگر عبادتوں سے آباد رکھنے کا مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے۔ آج مسلمانوں میں جو دن بدن بگاڑ آتا جارہا ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا تعلق مساجد سے کمزور ہوگیا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اللہ کے گھر یعنی مساجد سے اپنا تعلق مضبوط کریں کیونکہ مساجد مسلمانوں کی نہ صرف تربیت گاہیں ہیں بلکہ مساجد مسلم معاشرہ کی عکاسی کرتی ہیں۔ دنیا میں سب سے پہلا گھر بیت اللہ ہے جو مسجد حرام کے وسط میں واقع ہے جس کی طرف رخ کرکے ہم ایمان کے بعد سب سے اہم رکن یعنی نماز کی ادائیگی کرتے ہیں۔ حضور اکرمﷺنے مدینہ منورہ پہنچنے سے تھوڑا قبل قبا بستی میں ”مسجد قبا“ اور مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد سب سے پہلے جس مسجد کی بنیا رکھی وہی بعد میں مسجد نبوی کے نام سے موسوم ہوئی، جو اسلام کے دنیا کے کونے کونے تک پہنچنے کا ذریعہ بنی۔ لہٰذا ہم اپنا تعلق مسجدوں سے جوڑ کر اس بات کی کوشش کریں کہ ہماری مسجدیں آباد ہوں۔ اگر ہمارا تعلق مسجد سے جڑا ہوا ہے تو جہاں اللہ تعالیٰ سے قربت حاصل ہوگی اور کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے (رحمت کے) سایہ میں جگہ ملے گی، وہیں ان شاء اللہ دشمنان اسلام کی تمام کوششیں بھی رائیگاں ہوں گی۔ مساجد سے جہاں مسلمانوں کی روحانی تربیت ہوتی ہے، یعنی ہم کس طرح منکرات سے بچ کر اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق نبی اکرمﷺ کے طریقہ پر زندگی گزاریں، وہیں سماجی زندگی میں بھی رہنمائی ملتی ہے کیونکہ جب مسلمان آپس میں دن میں پانچ وقت ملتا ہے تو ایک دوسرے کے مسائل سے واقفیت ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کو سلام کرتا ہے، جمعہ وعیدین کے موقع پر بڑی تعداد میں لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے، اس کی وجہ سے بیمار کی عیادت کرتا ہے، جنازہ میں شرکت کرتا ہے، ایک دوسرے کے کام آتا ہے، محتاج لوگوں کی مدد کرتا ہے اور بندوں کے حقوق کو ادا کرنے کا احساس پیدا ہوتا ہے، یہ سارے امور مسجدوں کا اصلاح معاشرہ میں اہم کردار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ماہ رمضان میں تو ہماری مسجدیں کسی حد تک آباد نظر آتی ہیں، مگر عید کے بعد نمازیوں کی تعداد دن بدن کم ہوتی جاتی ہے، حالانکہ پانچ وقت کی نماز رمضان المبارک کی طرح پورے سال فرض ہے اور مرد حضرات کو عذر شرعی کے بغیر پانچوں نمازیں مساجد میں ہی ادا کرنی چاہئیں۔
مساجد کو آباد رکھنے والوں کے لئے بے شمار فضیلتیں قرآن وحدیث میں وارد ہوئی ہیں جن میں سے بعض کا تذکرہ یہاں کیا جارہا ہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اللہ کی مسجدوں کو وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں اور نمازوں کے پابند ہوں اور زکاۃ دیتے ہوں اوراللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں، توقع ہے کہ یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ (سورۃ التوبۃ: ۸۱) اسی طرح فرمان الہٰی ہے: ان گھروں میں جن کے بلند کرنے اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے وہاں صبح وشام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید وفروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز کے قائم کرنے اور زکاۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی ہے۔ اس دن یعنی قیامت سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ پلٹ ہوجائیں گی۔ (سورۃ النور: ۶۳-۷۳) ان گھروں سے مراد مساجد ہیں اور ان کا ادب یہ ہے کہ ان میں ناپاکی کی حالت میں داخل نہ ہوا جائے، کوئی ناپاک چیز داخل نہ کی جائے، شور نہ مچایا جائے، دنیا کے کام اور دنیا کی باتیں نہ کی جائیں، بدبودار چیز کھاکر نہ جایا جائے،حتی الامکان صاف ستھرے لباس پہن کر جایا جائے جیسا کہ فرمان الہٰی ہے: خُذُوْا زِینتکم عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ۔ 
مسجد کی آبادی کی اہمیت کے متعلق دو آیات ذکر کرنے کے بعد مسجد کی آبادی کی فضیلت کے متعلق چند احادیث نبویہ پیش خدمت ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کو سب جگہوں سے زیادہ محبوب مساجد ہیں اور سب سے زیادہ ناپسند جگہیں بازار ہیں۔ (مسلم) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مساجد زمین میں اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں،یہ آسمان والوں کے لئے ایسے چمکتے ہیں جیسا کہ زمین والوں کے لئے آسمان کے ستارے چمکتے ہیں۔ (طبرانی) حضرت عمر بن خطّاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جس نے کوئی مسجد بنائی جس میں اللہ تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک محل بنادیتے ہیں۔ (صحیح ابن حبان) حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: جو لوگ اندھیروں میں بکثرت مسجدوں کو جاتے رہتے ہیں ان کو قیامت کے دن پورے پورے نور کی خوشخبری سنادیجئے۔ (ابوداود، ترمذی) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص صبح اور شام مسجد جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں مہمان نوازی کا انتظام فرماتے ہیں، جتنی مرتبہ صبح یا شام مسجد جاتا ہے اتنی ہی مرتبہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے مہمان نوازی کا انتظام فرماتے ہیں۔ (بخاری ومسلم) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم کسی کو بکثرت مسجد میں آتے جاتے دیکھو تو اس کے ایماندار ہونے کی گواہی دو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: مسجدوں کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔  (ترمذی)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: سات قسم کے آدمی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اپنے (رحمت کے) سایہ میں ایسے دن جگہ عطا فرمائے گا جس دن اس کے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔۔۔ اُن سات لوگوں میں سے ایک وہ شخص بھی ہے جس کا دل مسجد سے اٹکا ہوا ہو (یعنی نمازوں کو وقت پر ادا کرنے کا اہتمام کرتا ہو)۔ (بخاری ومسلم) حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: مسجد ہر متقی کا گھر ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہے کہ جس کا گھر مسجد ہو (یعنی مسجدوں سے خصوصی تعلق ہو) اسے راحت دوں گا، اس پر خصوصی رحمت نازل کروں گا، پل صراط کا راستہ آسان کردوں گا، اپنی رضا نصیب کروں گا اور اسے جنت عطا کروں گا۔ (طبرانی) 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو لوگ کثرت سے مسجدوں میں جمع رہتے ہیں وہ مسجدوں کے کھونٹے ہیں، فرشتے ان کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔ اگر وہ مسجدوں میں موجود نہ ہوں تو فرشتے انہیں تلاش کرتے ہیں۔ اگر وہ بیمار ہوجائیں تو فرشتے ان کی عیادت کرتے ہیں۔ اگر وہ کسی ضرورت کے لئے جائیں تو فرشتے ان کی مدد کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا: مسجد میں بیٹھنے والا تین فائدوں میں سے ایک فائدہ حاصل کرتا ہے کسی بھائی سے ملاقات ہوتی ہے جس سے یا تو کوئی دینی فائدہ ہوجاتا ہے یا کوئی حکمت کی بات سننے کو مل جاتی ہے یا اللہ تعالیٰ کی رحمت مل جاتی ہے جس کا ہر مسلمان کو انتظار رہتا ہے۔ (مسند احمد) 
آخر میں عرض ہے کہ مسلمانوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کاقرآن کریم میں اعلان ہے کہ ہر پریشانی کے بعد آسانی آتی ہے۔ اس ملک کی آزادی کے لیے ہم نے کندھے سے کندھا ملاکر اپنے ہم وطنوں کے ساتھ بھرپور حصہ لیا ہے، اور آج بھی اس کی تعمیر وترقی میں حصہ لے رہے ہیں۔ یہ ملک کسی مخصوص مذہب کی ملکیت نہیں ہے بلکہ یہ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور پارسی سب کا ہے، اور اس پر سب کا یکساں حق ہے۔ اسی سمت میں ہمیں سوچ سمجھ کر ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جو سماجی بھائی چارہ کو مضبوط کریں اور دوسری اقوام کے ساتھ ساتھ ہماری روز مرہ کی زندگی کو بہتر بنانے کی جدوجہد میں معاون ہوں۔ علماء کرام ودانشوران قوم اور عام مسلمانوں سے درخواست ہے کہ ہم اپنے اخلاق وکردار کے ذریعہ مسلم و دیگر قوموں کے درمیان پیدا شدہ فاصلہ کو کم کرنے کی کوشش کریں اور اپنے عمل سے لوگوں کو بتائیں کہ اسلام امن وسلامتی کا مذہب ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے، آپ سب کو اور پوری امت مسلمہ کو نماز کا اہتمام کرنے والا بنائے، قرآن وحدیث کے مطابق زندگی گزارنے والا بنائے، مساجد سے خصوصی تعلق رکھنے والا بنائے، اللہ تعالیٰ تمام مساجد، مکاتب ومدارس کی حفاظت فرمائے، آمین۔ 

 

«
»

انصاف اور مساوات ضروری بھی ہے اور ضرورت بھی ہے !

بابری مسجد کے فیصلہ پر ہندوستانی مسلمانوں کا صبر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے