بابری مسجد کی شہادت کے بعد۔۔۔۔؟

مسجد کی شہادت کے مجرم نمبر ایک اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہا راؤ کی مذمت اس طرح نہیں کی گئی تھی جس طرح کی جانی چاہئے تھی۔ انہوں نے تو اپنے عہدہ کی معیاد پوری کی۔ اقلیتی کانگریس حکومت یا نرسمہا راؤ کی کرسی کو برقرار رکھنے میں اس وقت بی جے پی نے مسجد کی شہادت کو ممکن بنانے میں نرسمہا راؤ کے شرم ناک تعاون اور مدد کے لئے سنگھ پریوار کا نرسمہا راؤ کے لئے یہ انعام تھا۔ اگر اس وقت کانگریس اپنی حکومت کی قربانی دے کر بھی نرسمہا راؤ کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹادیتی تو کانگریس کے مشکوک سیکولرازم پر مستند ہونے کی تصدیق کی مہر لگ جاتی! لیکن کانگریس اتنا بڑا اقدام کرتی تو بھی کیسے کرتی ! جبکہ 1986ء میں مسجد کا تالا کھول کر وہاں پوجا پاٹ کی عام اجازت کا انتظام راجیو گاندھی نے ہی کروایا تھا۔ جس طرح نرسمہا راؤ کے جرم کا دفاع ممکن نہیں ہے اسی طرح بابری مسجد کو عمداً مندر میں تبدیل کرنے کے راجیو گاندھی کے اقدام کے دفاع میں کوئی دلیل یا جواز پیش کرنا ناممکن ہے۔
بابری مسجد کی شہادت کے ضمن میں ہم اصل موضوع پر آنے سے قبل نوجوان نسل کو یہ بتادیں کہ باجود اس کے کہ 6 دسمبر1992ء کو بابری مسجد کی شہادت حالانکہ کھلی دہشت گردی تھی وہ بھی عظیم دہشت گردی! لیکن یہ دہشت گردی ہی نہیں مانی جاتی ہے! ہاں بابری مسجد کی شہادت پر احتجا کرنے والوں کو (حیدرآباد میں بطور احتجاج سڑکوں پر نماز پڑھنے والوں کو بھی) ضرور دہشت گردی کا ملزم قرار دیا گیا تھا! مسجد شہید کرنے والا نہیں بلکہ اس پر احتجاج کرنے والا دہشت گرد! یہ تھا چند ریاستوں کی کانگریسی حکومتوں کا مسلمانوں سے اس وقت سلوک! ممبئی، سورت اور جگہ جگہ مسجد کی شہادت پر احتجاج بلکہ کچھ نہ کرنے والوں کو بھی مسلم کش فسادات میں قتل و غارت گری کی سزا دی گئی تو فسادیوں کو تو دہشت گرد کسی نے نہیں کہا اور نہ ان کو سزائیں ہوئیں گو کہ فسادات کے رد عمل میں بموں کے سلسلہ وار دھماکوں کے مجرم عظیم دہشت گرد مانے جاتے ہیں۔ دھماکوں کے سلسلے میں ملزموں کو مجرم قرار دیا جاچکا ہے اب وہ پابند سلاسل ہیں۔ سزاؤں کے خلاف فیصلوں کے دائر کردہ مرافعہ (اپیل) کے فیصلہ کا ان کو انتظار ہے!
مندرجہ بالا واقعات میں خاطیوں کے ساتھ دوہرا معیار یہ ہے کہ اصل (عمل) کرنے والے آزاد! اور ردعمل کرنے والے ملزم و مجرم!بابری مسجد کی شہادت کے بعد بے قصوروں اور ملزموں کو پہلے ملزم ہوسکے تو مجرم بنادیتے کا چلن عام ہوا۔ ملک کی آزادی کے بعد یوں تو مسلمانوں پر مستقلاً عدم تحفظ کا احساس طاری رہا نہ صرف مسلم کش فسادات بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں تعصب، جانبداری اور عدم تحفظ کا وہ شکار رہے۔ آزادی کے بعد ہوئے بھیانک مسلم کش فسادات، تمام مسلمان حکمرانوں کی ریاستوں کا زور زبردستی، دباؤ اور حکمرانوں کی مرضی سے انڈین یونین میں انضمام ہو ا مگر جو ناگڑھ اور آصف جاہی ریاست حیدرآباد دکن پر فوجی حملے اور حیدرآباد میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل ان کی تباہی و بربادی کے زخم بھی وقت کے مرہم نے بھر دئیے۔ حد تو یہ ہے کہ 1986ء میں انصاف کے تقاضوں اور عدل کے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر راجیو گاندھی کی مرضی کے مطابق حاصل کئے گئے عدالتی فیصلے کے ذریعہ بابری مسجد کا تالاکھول کر پوجا پاٹ کی ۔ عام اجازت اور مسجد کو عملاً مندر بنانے پر بھی ملک بھر میں وہ طوفان نہ اٹھاسکی جس کی ضرورت تھی نیز بابری مسجد میں ہونے لگی پوجا پاٹ کا اثر مسلمانوں پر نہ ہوا لیکن سنگھ پریوار اور ان کی حلیف جماعتوں بجرنگ دل، وشواہندو پریشد اور شیوسینا وغیرہ میں مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کی مہم میں نیاجوش اور جذبہ بھر دیا۔ بابری مسجد کو ڈھانے میں تمام انتہاء پسند ہندوتوادی متحد تھے۔ مسجد کو بچانے کی ذمہ دار مسلم قیادت کا یہ حال تھا کہ وہ دو کمیٹیوں میں بٹ گئی تھی اور کانگریس سے وابستہ مسلم قائدین نے مسلم مسائل پر وہی رویہ اختیار کیا جو مولانا آزاد رفیع احمد قدوائی اور آصف علی وغیرہ کا تھا ان کا وہی حال تھا ’’جو مزاج یار میں آئے‘‘ بابری مسجد کی شہادت کے بعد سنیل دت پارلیمان کی رکنیت سے مستعفی ہوئے تھے جبکہ مسلمان ارکان پارلیمان نے ہی نہیں بلکہ مسلم وزرأ نے مستعفی ہونے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ ’’ہم صرف مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں‘‘۔ 1947ء سے آج تک مسلمان کانگریسی یا غیر کانگریسی رہنماؤں کے اس جذبہ قوم پرستی ہی نے مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ مختصر یہ کہ بابری مسجد کے ہر مرحلہ پر(1949ء میں جب رات کے اندھیرے میں چوری سے مسجد میں مورتیاں رکھی گئی تھیں) سے آج تک یا ابوالکلام آزاد سے لے کر غلام نبی آزاد تک مسلمان قائدین کی بے حسی اور بے عملی یکساں رہی ہے اسی روش نے مسلم دشمنی کو پروان چڑھایا ہے۔
6دسمبر 1992 ء کے بعد کچھ ایسا تو نہیں ہوا کہ مسلمانوں میں کوئی نیا رہنماء مل گیا ہو جو یہ کہے کہ 
نیا سفر ہے نئی منزلیں بلاتی ہیں
مسافر وں روشِ کارواں بدل ڈالو
لیکن مسلمان عوام کے کارواں میں ’’روشِ کارواں‘‘ بدل دینے کی تحریک یا شعور ضرور پیدا ہوا لیکن قوم میں پیدا ہونے والی اس بیداری کو جلادینے والا قومی درجہ کا کوئی رہنما مسلمانوں میں نہ تھا لیکن پھر بھی مسلمانوں میں سنبھلنے اور کچھ کردکھانے کا سویا ہوا جذبہ کسی حدتک جاگ پڑا۔ اپنی شناخت کی برقراری، جدید تعلیم کا حصول، غیر ضروری، ڈر اور خوف میں کسی حدتک کمی ہوئی۔ انتہاء پسند اور فرقہ پرست ہندووں میں ہی نہیں عام ہندووں میں بھی بی جے پی کی حمایت اور مقبولیت بڑھی۔ مسلمانوں میں کانگریس سے ناراضگی اور ناپسندیدگی اتنی بڑھی کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں کانگریس ہار گئی اس کے بعد سے یو پی میں کانگریس آج تک مسلمانوں سے دوری ختم نہ کرسکی حالانکہ 2004ء میں ملک بھر کے مسلمانوں نے کانگریس کا ساتھ دیا لیکن یو پی میں کانگریس کے چراغ روشن نہ ہوسکے۔
1990ء کی دہائی میں یو پی، مدھیہ پردیش، بہار اور کئی دوسری ریاستوں میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور ہوئی۔ ڈاکٹری ، انجینئرنگ، ایم بی اے اور ابلاغی ٹکنالوجی (آئی ٹی ) کے شعبوں مسلمانوں شاذ و نادر نظر آتے تھے اور نہ ہی مذہبی تعلیم کیلئے اتنے دینی مدارس تھے جتنے آج ہیں۔ تعلیم کے میدان میں مسلمانوں کی ترقی میں دوسرے عوامل بھی کارفرما رہے ہیں لیکن مسلمانوں میں شعور کی بیداری کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان بابری مسجد کی شہادت کے بعد ادراک اور آگہی کی اس منزل سے دوچار ہوئے جہاں ان کو ملک میں اپنی حیثیت اور وقعت کا اندازہ ہوا۔ کچھ ایسا نہیں تھا کہ مسلمانوں میں کوئی سرسید جیسا مصلح اور دانشور آگیا بلکہ اپنی بے عزتی اور بے تو قیری کا احساس ان میں سرابت کر گیا ۔ مسجد کی شہادت کے وقت یو پی میں بی جے پی اور مرکز میں کانگریس کی حکومتیں بھی تھیں۔ گویا کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی اس جرم میں برابر کی شریک ہیں جبکہ مسلمان کانگریس کو ووٹ دیتے رہے اور اپنا ووٹ ضائع ہونے کااحساس پیدا ہو یہ بھی اہم تبدیلی ہے۔ بابری مسجد کی شہادت نے ملک بھر میں ہر سطرح، ہر معیار اور ہر مکتب فکر کے مسلمانوں کے دل و دماغ پر اثر کیا۔ یہ بات عام ہوگئی کہ اگر مسجد کو سنگھ پریوار نے شہید کیا تو کانگریس نے اس کو بچانا بھی نہیں چاہا۔ اس دل شکن حادثہ نے مختلف ریاستوں میں حزب مخالف کی جماعتوں سے مسلمانوں کی قربت بڑھا دی۔ دوسری طرف کانگریس سے مسلمانوں کی دوری بڑھتی گئی۔ اس سلسلہ میں یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد نرسمہا راؤ تو علی الاعلان نہ سہی، سوتے رہنے کے بہانے جشن منارہے تھے تاہم اس وقت کے صدر جمہوریہ شنکر دیال شرما کے اصرار پر نرسمہا راؤ کو اس حادثہ کے بعد میں قوم کو مخاطب کرنے ٹی وی اور ریڈیو پر آنا پڑا اور صدر شرما نے مسجد کو دوبارہ تعمیر کرنے کا اعلان کروایا تھا۔ نرسمہا راؤ نے تو کانگریسی اسٹائل میں بات کہہ دی لیکن اس پر عمل کے آثار نہ دیکھ کر اور دیگر کانگریسی قائدین کی بے حسی نے مسلمانوں کو کانگریس سے بالکل ہی مایوس کردیا۔ راقم الحروف سے ممتاز قائد سید شاہب الدین نے کہا تھا تھا کہ ’’اگر کانگریسی ارکان پارلیمان نرسمہا راؤ کو مستعفی کرواتے یا باقاعدہ مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے تو مسلمان اگلے کئی انتخابات میں کانگریس کا ووٹ بینک رہتے! لیکن کانگریس میں اتنی فراغ دلی، سیاسی شعور مفقود تھا ’’نرم ہندتوا‘‘ کا بھی کچھ اثر تھا۔ مسلمانوں کو کانگریس سے دور کرنے کا سامان خود کانگریسی باقاعدگی اور تسلسل سے کرتے رہے۔ گوکہ مسلمانوں میں ایک نئی سوچ اور فکر پیدا ہوئی لیکن وہ دو باتیں جس کی مسلمانان ہند کو ضرورت تھی (یعنی مخلص اور بے لوث قیادت اور ملی اتحاد) وہ مسلمانوں میں پیدا نہ ہوسکا۔ قومی سطح کا کوئی قائد ہم میں آج بھی نہیں ہے صرف چند ہیں جو قومی منظر نامہ میں نمایاں ہوکر ابھر سکتے ہیں (مثلاً اسد الدین اویسی، محمد ادیب) رہا مسلم اتحاد تو بظاہر یہی لگتا ہے کہ ہم متحد ہونے کے ایک نکتہ پر ہی متحد ہے۔ بابری مسجد کی شہادت سے تقریباً16 سال قبل قائم ہوا۔ آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ نے کچھ کام تو کیا ہے لیکن توقعات بہر حال پوری نہ ہوسکیں۔ ایک حوصلہ افزا بات یہ ضرورہوئی کہ آستینوں میں پلنے والے سانپ کی طرح کے قائدین، علماء، دانشور اور صحافی بے اثر ہوگئے ہیں مثلاً بابری مسجد کی شہادت کے بعد بابری مسجداور دیگر مساجد سے دستبردار ہونے کا مشورہ دینے والے ایک بڑے عالم دین اور دیگر علماء یا مسلم پرسنل لاء میں تبدیلی کا مشورہ دینے والے دانشوروں کو ملت نے مسترد کردیا ہے۔ مختصر یہ کہ مجموعی طور پر صورتحال آج بھی تسلی بخش نہیں ہے۔ 

«
»

خالی جیلیں

ہاتھ کنگن اور آرسی!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے