ترتیب: عبدالعزیز بابا گرو نانک جی مشہور سکھ مذہب کے بانی پاکستانی مٹی کے بیٹے تھے۔ آپ پندرہ اپریل 1469ء کو موجودہ پاکستان کے مشہور شہر ننکانہ صاحب میں پیدا ہوئے۔ ذات کے لحاظ سے آپ راجپوت تھے۔ یہ شہر پاکستان کے ضلع فیصل آباد میں واقع ہے۔ آپ کے والد کا نام کلیان […]
ترتیب: عبدالعزیز بابا گرو نانک جی مشہور سکھ مذہب کے بانی پاکستانی مٹی کے بیٹے تھے۔ آپ پندرہ اپریل 1469ء کو موجودہ پاکستان کے مشہور شہر ننکانہ صاحب میں پیدا ہوئے۔ ذات کے لحاظ سے آپ راجپوت تھے۔ یہ شہر پاکستان کے ضلع فیصل آباد میں واقع ہے۔ آپ کے والد کا نام کلیان داس تھا جو گاؤں میں پٹواری تھے۔ آپ کی والدہ کا نام ٹرپتا دیوی تھا جو مذہبی اور رحمدل خاتون تھیں۔ آپ کا خاندان غریب نہیں تھا۔ اس خاندان میں پیار و محبت اور دولت کی فراوانی تھی۔ آپ کی دائی مسلمان تھیں، جن کا نام دولتاں تھا۔ اس لیے زیادہ امکان ہے کہ مسلمانوں کے طریقہ کے مطابق دولتاں زچہ کی خدمت کے وقت وضو سے ہوں گی اور نومولود کی ولادت کے وقت اس کے ہونٹوں پر مسلمانوں کے طریقہ کار کے مطابق رحمان و رحیم کا نام اور دعائیں ضرور ہوتی ہوں گی جن کی برکات سے یہ بچہ آگے جاکر ایک قابلِ عزت رہنما بن گیا۔ سکھوں کی ایک کتاب میں آپ کی تاریخ پیدائش 20 نومبر 1469ء بھی لکھی ہے۔ بابا گرو نانک جس زمانے میں پیدا ہوئے تھے۔ اس زمانے میں ہندستان میں مسلمانوں (پٹھانوں) کی حکومت آپس کی دشمنیوں کی وجہ سے کمزور ترین ہوگئی تھی اور موجودہ افغانستان کی طرف سے مغلوں کا سیلاب آنا شروع ہوگیا تھا۔ چوں کہ افغانستان سے آنے والے یہ لوگ بہت زیادہ خونخوار اور لٹیرے تھے، اس لیے بابا نے ان کو قہرِ خداوندی قرار دیا۔ ڈھائی تین صدیوں کے بعد ایک اور مقامی مسلمان صوفی بابا بلھے شاہ نے افغانوں (درانی کے لوگ) کے بارے میں اسی قسم کا فقرہ کہا کہ ”بلھے بس تیرے تو دو ٹکڑے ہیں ایک وہ جو کھا لیا اور دوسرا وہ جس سے اپنا ستر چھپایا۔ باقی سب کچھ درانیوں کا ہے“۔ پہلی صدی ہجری کے صرف چند سال اسلامی تعلیمات ریاست و حکومت پر عمل ہوتا رہا، لیکن جونہی مسلمانوں نے بھی بادشاہت شروع کی، تو علمائے حق کو ایک طرف ہونا پڑا۔ لہٰذا مختلف ممالک پر مسلمان تو حکمران تھے، لیکن حکومت اسلامی کبھی بھی اور کہیں بھی نہ رہی۔ یہی حالت ہندستان کی تھی جس میں حکمران تو مسلمان (اچھے یا برے) تھے لیکن وہ اسلامی نظریہئ حکومت اور اسلامی نظریہئ حقوق العباد کے عموماً پابند نہیں ہوا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ دولتمند ہندستان کی دولت آج تک غیر ہندستانیوں کیلئے پرکشش رہی ہے۔ حکمران خواہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، دولت جمع کرنے کے لالچ سے فارغ نہیں تھے۔ اس لیے ہندستان میں عام آدمی اس وقت بھی بھوکا، پیاسا، ننگا اور محروم تھا اور آج بھی پوری دنیا میں عوام بورژوا طبقے کی لوٹ کھسوٹ کا شکار ہیں۔ آج افغانستان آدھے سے زیادہ پاکستان کے علاقے پر دعویٰ کرتا ہے۔ صرف اس لیے کہ وہ ان زرخیز زمینوں کو اپنی ملکیت اور یہاں کے مزدوروں اور کسانوں کو اپنا غلام بنانا چاہتا ہے۔ ساڑھے پانچ سو سال قبل گرو نانک نے افغان حکمرانوں کے خلاف حقائق کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ”بادشاہ قصائی ہیں، ان میں فرض کی سمجھ ختم ہوچکی ہے، بادشاہ چیتے کی مانند ہیں اور ان کے لگان جمع کرنے والے کتوں کی طرح ہیں جو لوگوں کو جاکر دونوں اوقات میں بیدار کرتے ہیں، ان کے غلام لوگوں کو اپنے پنجوں سے زخمی کردیتے ہیں اور ان کا خون رذیل کتوں کی طرح چاٹتے ہیں“۔ (صفحہ نمبر 25) ڈیورنڈ لائن پر بک بک ہم اپنے لڑکپن سے سنتے ہیں۔ بات حدود ریاست کی نہیں زرخیز زمینوں کی ہے۔ حالاں کہ پاکستان کی زمینیں پاکستانی اقوام کی ہیں۔ ان پر مغربی اور مشرقی لوگوں کا دعویٰ غلط ہے۔ چوں کہ مسلمان حکمران قرآن و سنت کے اصولِ حکمرانی کو ہندستان میں نہ اپنا سکے تھے، اس لیے عوام میں محرومی اور بے چینی تھی، جس سے رد عمل کے طور پر مختلف غیر مسلمان مصلحین پیدا ہوئے۔ انہوں نے عام آدمی کی حالت سدھارنے کیلئے مختلف تعلیمات کی پرچار کی۔ بابا گرو نانک ان مصلحین میں اول نمبر پر ہیں۔ چوں کہ حکومتیں عوام کو قتل اور لٹ جانے سے نہ روک سکتی تھیں، اس لیے آپ نے عوام کو اپنا دفاع آپ کرنے کا اصول سمجھایا اور یہ بتایا کہ اپنی اور اپنے خاندان کے دفاع کیلئے ہر وقت تیار رہا کرو، یعنی خود انحصاری کی ہدایت۔ سکھ مت میں دس بزرگ نمایاں ترین ہیں، جن میں گرونانک پہلے نمبر پر اور گرو گوبند سنگھ جی (متوفی سات نمبر 1708ء) دسویں تھے۔ انہوں نے سکھ مذہب میں بہت کام کیا اور سکھوں کو مزید کسی کو گرو ماننے سے منع کیا۔ (صفحہ 37)۔ ’گرو‘ اس شخص کو کہتے ہیں جو لوگوں کی اصلاح اور حفاظت و رہنمائی کرتا ہو۔ گرو نانک جی بلا کے ذہین تھے۔ ہر بات کی تہ تک پہنچنے کی آپ کی عادت بچپن سے تھی۔ ہندی علوم کے ساتھ ساتھ آپ نے عربی اور فارسی اپنے مسلمان استاد مولوی قطب الدین سے سیکھی اور ظاہر ہے کہ آپ نے ان زبانوں کی کتب کا بھی مطالعہ کیا ہوگا۔ آپ انسانوں کے درمیان اچھے اور برے کے قائل نہیں تھے، بلکہ سب کو برابر سمجھتے تھے۔ یہی نظریہ قرآن کا ہے کہ ”تم سب کو ایک ماں اور ایک باپ سے پیدا کیا گیا، تم کو مختلف قبیلوں اور خاندانوں میں صرف اس لیے تقسیم کیا گیا کہ تم پہچانے جاؤ اور خدا خوفی ہی بڑے ہونے کا سبب ہوتا ہے“۔ گرو نانک نے انسانوں کے درمیان اونچ نیچ کے اصول کی سختی سے تردید کی۔ (صفحہ نمبر 65) سلطان پور کے حکمران دولت خان لودھی نے آپ کو اپنے اناج کے ذخیروں اور کھیتوں کھلیانوں کا نگران افسر مقرر کیا اور آپ نے یہ ملازمت مکمل دیانت اور امانت کے ساتھ انجام دی۔ دعا کے ایک طلب گار سے آپ نے یہ مطالبہ کیا کہ پہلے اپنی تمام ناجائز کمائی ہوئی دولت خیرات میں غربا کو تقسیم کرو۔ نواب دولت خان سے ایک دفعہ آپ نے فرمایا: ”میری خواہش ہے کہ تم ایک اچھے مسلمان بن جاؤ۔ اپنی ریاست کو اللہ کی ملکیت تصور کرو۔ (صفحہ نمبر 88) آپ نے کہا ”خدا کی باتوں کو سمجھنا آسان کام نہیں، بصیرت اور آگاہی صرف خدا کی رحمت سے ملتی ہے“۔ آپ نے سچائی کی تلاش میں لمبے سفر کیے۔ ہر مذہب کے بزرگوں سے ملے۔ آپ کی تعلیمات سے انسان دوستی، پرامن بقائے باہمی اور خود انحصاری اور خود اعتمادی کے اسباق ملتے ہیں۔ آپ دنیا کے جانے پہچانے مذہب سکھ مت کے بانی ہیں۔ یہ آپ کے اخلاص اور قابلیت کی بڑی نشانی ہے۔ آپ 22 ستمبر 1539ء کو کرتارپور میں فوت ہوئے۔ آپ کی تعلیمات اور ہدایات میں گہری سچائیاں پنہاں ہیں جن کو صاحبانِ بصیرت ہی جانتے ہیں۔ (اس تحریر کیلئے سردار جی سنگھ کی کتاب ”بابا گرونانک“ سے مدد لی گئی ہے)(یو این این)
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ یکم فروری 2020
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں