باتیں لطف اندوز بھی اور نصیحت آموز بھی

  تحریر :جاوید اختر بھارتی 

ایک عالم اپنے ایک شاگرد کو ساتھ لئے کھیتوں میں سے گزر رہے تھے۔چلتے چلتے ایک پگڈنڈی پر ایک بوسیدہ جوتا دکھائی دیا۔ یعنی جوتا بہت ہی خستہ حالت میں تھا جس سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ یہ کسی غریب اور پریشان حال مزدور و ضعیف شخص کا ہے جو قریب کے  کسی کھیت کھلیان میں مزدوری سے فارغ ہو کر اسے پہن کراپنے  گھر کی راہ لیگا ۔ شاگرد نے جنابِ شیخ سے کہا؛ حضور! کیسا رہے گا کہ تھوڑی دل لگی کا سامان کرتے ہیــــں، کچھ سیروتفریح کرتے ہیں، تھوڑا ہنستے اور ہنساتے ہیں اور جوتا ادھر ادھر کر کے خود بھی چھپ جاتے ہیــــں۔ وہ بزرگ آکر اپنا جوتا تلاش کریگا تو انکی کیفیت اور ان کا ردِ عمل دلچسپی کا باعث ہو گا۔
شیخ کامل نے کہا؛ بیٹا اپنے دلوں کی خوشیاں دوسروں کی پریشانیوں سے وابستہ کرنا کسی طور بھی پسندیدہ عمل نہیـں۔ بیٹا تم پر اپنے رب کے احسانات ہیــــں۔ ایسی قبیح حرکت سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اپنے رب کی ایک نعمت سے تم اس وقت ایک اور طریقے سے خوشیاں اور سعادتیں سمیٹ سکتے ہو۔ اپنے لئے بھی اور اس بیچارے مزدور کے لئے بھی۔ ایسا کرو کہ جیب سے کچھ نقد سکے نکالو اور دونوں جوتوں میں  رکھ دو۔ پھر ہم چھپ کے دیکھیں گے جو ہو گا۔ بلند بخت شاگرد نے تعمیل کی اور استاد و شاگرد دونوں جھاڑیوں کے پیچھے دبک گئے۔

کام ختم ہوا، بڑے میاں نے آ کر جوتے میں پاؤں رکھا ۔۔۔ تو سکے جو پاؤں سے ٹکرائے تو ایک ہڑبڑاہٹ کے ساتھ جوتا اتارا تو وہ سکے اس میں سے باہر آ گئے۔ ایک عجیب سی سرشاری اور جلدی میں دوسرے جوتے کو پلٹا تو اس میں سے بھی سکے کھنکتے ہوئے باہر آ گئے۔ اب بڑے میاں آنکھوں کو ملتے ہیــــں، دائیں بائیں نظریں گھماتے ہیــــں۔ یقین ہو جاتا ہے کہ خواب نہیـں بلکہ یہ حقیقت ہے ، تو آنکھیں  تشکر کے آنسوؤں سے بھر جاتی ہیــــں۔ بڑے میاں سجدے میں گر جاتے ہیــــں۔ استاد و شاگرد دونوں سنتے ہیــــں کہ وہ اپنے رب سے کچھ یوں مناجات کر رہے ہیــــــــں۔
میرے مولا! میں تیرا شکر کیسے ادا کروں، تو میرا کتنا کریم رب ہے۔ تجھے پتہ تھا کہ میری بیوی بیمار ہے، بچے بھی بھوکے ہیــــں، مزدوری بھی مندی جا رہی ہے ۔۔۔ تو نے کیسے میری مدد فرمائی۔ ان پیسوں سے بیمار بیوی کا علاج بھی ہو جائے گا، کچھ دنوں کا راشن بھی آ جائے گا۔ ادھر وہ اسی گریہ و زاری کے ساتھ اپنے رب سے محو مناجات  تھے اور دوسری طرف استاد و شاگرد دونوں کے ملے جلے جذبات اور ان کی آنکھیں بھی آنسوؤں سے لبریز تھیں۔ کچھ دیر کے بعد شاگرد نے دست بوسی کرتے ہوئے عرض کیا؛ استاد محترم! آپ کا آج کا سبق کبھی نہیـں بھول پاؤں گا۔ آپ نے مجھے مقصدِ حیات اور اصل خوشیاں سمیٹنے کا ڈھنگ بتا دیا ہے۔ شیخ جی نے موقعِ مناسب جانتے ہوئے بات بڑھائی اور کہا کہ اپنی خوشی کیلئے کسی دوسرے کے جذبات سے کھیلنا غلط ہے بلکہ اپنی خوشی میں دوسروں کو شامل کرنا چاہیئے اور دوسروں کا غم جہاں تک ممکن ہوسکے بانٹنا چاہیے دیکھو اس غمزدہ کو کچھ راحت ملی اور کچھ امید بندھی تو پہلے سجدہ شکر ادا کیا اور جو کلمات اپنی زبان سے ادا کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسے اللہ پر بھروسہ ہے اسے اس بات کا یقین ہے کہ رزق دینے والا اللہ ہے، مصیبتوں کو آسانیوں میں تبدیل کرنے والا اللہ ہے وہی مددگار ہے اس کی باتیں ہمارے لئے بھی سبق آموز ہیں ہمیں کبھی بھی اپنی اوقات نہیں بھولنا چاہیے،، آئیے تحریر کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے،، روح البیان جلد دوئم اٹھاتے ہیں بنو امیہ کا بادشاہ عبد الملک بن مروان جب ملک شام میں طاعون کی وبا پھیلی تو موت کے ڈر سے گھوڑے پر سوار ہو کر شہر سے بھاگ نکلا،، اور ساتھ میں اپنے خاص غلام اور کچھ فوجی بھی لے لیا اور وہ طاعون کے ڈر سے اس قدر خوفزدہ تھا کہ زمین پر اپنے پاؤں تک نہیں رکھتا تھا بلکہ گھوڑے کی پشت پر سویا کرتا تھا دوران سفر ایک رات اسے نیند نہیں آرہی تھی تو اس نے اپنے غلام سے کہا کہ کوئی آج رات تم مجھے کوئی قصہ سناؤ غلام بھی بڑا ہوشیار تھا اللہ پر اس کا بھروسہ بڑا مضبوط تھا اس نے سوچا کہ بڑا اچھا موقع ملا ہے خود بادشاہ نے قصّہ سنانے کے لیے کہا ہے تو کیوں نہ سبق آموز اور نصیحت آموز قصہ سنایا جائے ہوسکتا ہے بادشاہ کے دل سے طاعون جیسی وبا کا خوف نکل جائے اور اللہ کی ذات پر مکمل بھروسہ ہوجائے اب غلام نے یوں قصہ سنانا شروع کیا کہ اے بادشاہ سلامت ایک لومڑی اپنی جان کی حفاظت کے لئے ایک شیر کی خدمت گذاری کیا کرتی تھی اور اسے یقین تھا کہ شیر کی ہیبت کی وجہ سے میرے نزدیک کوئی درندہ نہیں اسکتا میرے اوپر کوئی حملہ نہیں کر سکتا بلکہ شیر کے خوف سے کوئی میری طرف نظریں اٹھا کر دیکھ بھی نہیں سکتا لومڑی انتہائی اطمینان کے ساتھ بے خوف ہو کر شیر کی خدمت گذاری کررہی تھی اور اپنی زندگی بسر کر رہی تھی اچانک ایک دن ایک عقاب لومڑی پر جھپٹا تو شیر نے لومڑی کو اپنی پشت پر سوار کرلیا عقاب دوبارہ جھپٹا اور لومڑی کو شیر کی پشت سے اپنے چنگل دبا کر اڑگیا لومڑی چیخ چیخ کر شیر سے فریاد کرنے لگی مجھے بچاؤ مجھے بچاؤ تو شیر نے کہا کہ اے لومڑی میں زمین پر رہنے والے درندوں سے تیری حفاظت کرسکتا ہوں لیکن آسمان کی طرف حملہ کرنے والوں سے میں تجھے نہیں بچا سکتا جسے ہی یہ جملہ سنا تو بادشاہ عبد الملک فوراً متاثر ہوگیا، بادشاہ کو عبرت حاصل ہوئی اور اس کی سمجھ میں آگیا کہ میری فوج ان دشمنوں سے تو میری حفاظت کرسکتی ہے جو زمین پر رہتے ہیں مگر جو بلائیں، و بائیں آفتیں آسمان کی طرف سے مجھ پر حملہ آور ہوں ان سے میری بادشاہت نہیں بچاسکتی، میری دولت و عزت اور شہرت نہیں بچا سکتی آسمانی بلاؤں، وباؤں سے بچانے والا بجز خدا کے اور کوئی ہوہی نہیں سکتا غرضیکہ بادشاہ عبد الملک کا ایمان میں پختگی آئی اور اس کے دل سے طاعون کا خوف جاتا رہا اور وہ رضائے الہی پر راضی رہ کر سکون اور اطمینان کے ساتھ اپنے شاہی محل میں رہنے لگا،، اور یہی حقیقت ہے کہ جب ایمان کامل ہوگا اور اللہ پر بھروسہ ہوگا تو اللہ رب العالمین بندے کو مصیبت کے لمحات میں نجات کا ایسا اسباب پیدا کر دیگا کہ بندے وہاں تک بندے کا وہم گمان بھی نہیں پہنچ سکتا ہے-

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے

20جون2020(فکروخبرنیوز)

«
»

پہلے گستاخی، پھر معافی، یہ رسمِ مکاری ہے!!!

اتنا ہی یہ ابھریگا جتنا کہ دباؤگے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے