(سفرنامہ جنوبی افریقہ 3)
محمد سمعان خلیفہ ندوی
ایئرپورٹ سے باہر آئے اور رہبر کی ہدایت کے مطابق ایئرپورٹ ٹرمنل میں واقع جماعت خانے پہنچے، جنوبی افریقہ میں مسلمانوں کی طرف سے ایک قابل قدر کوشش یہاں کے اکثر مقامات پر بالخصوص عوامی اجتماع کی جگہوں پر مساجد کا قیام ہے، جنھیں یہاں کے لوگ جماعت خانے کا نام دیتے ہیں، کوئی تجارتی مرکز ہو، یا پٹرول بنک، ایئرپورٹ ہو یا کوئی اور جگہ، الحمد للہ ہر مقام پر جماعت خانے موجود ہیں، جس سے مسلمانوں کے لیے نماز کی ادائی میں خاصی سہولت ہوتی ہے۔
بورونڈی کے ہمارے دوست اسماعیل بدات کے کوئی عزیز ہمیں لینے کے لیے جماعت خانے پہنچے اور کچھ ہی دیر کے بعد مولانا اطہر صاحب کی آمد کے بعد ہم لوگ جیسے ہی باہر نکلے تو مولانا خلیل صاحب اور مولانا موسیٰ صاحب نے ہمارا استقبال کیا، مولانا خلیل لمباڈا تو ہمارے قارئین کے لیے نئے نہیں ہیں، گزشتہ اسفار میں بھی ہمارے رہبر مولانا ہی تھے بلکہ افریقہ کے اب تک کے اسفار کے محرک اور رہبر بھی اور عملی طور پر مشرقی افریقہ میں ہمارے کام کی اصل بنیاد بھی مولانا ہی ہیں۔
مولانا موسی اکوڈی گجراتی نژاد جنوبی افریقہ میں مقیم، جن کے آبا واجداد زمانۂ دراز سے یہیں آباد ہیں، نرم دمِ گفتگو گرم دمِ جستجو، مرنجاں مرنج اور باغ وبہار طبیعت کے مالک، پیشے سے کنٹراکٹر اور کئی ساری عمارتوں کے ڈیزائنر، مگر وجیہ چہرے اور اس پر سجی بھرپور سنت کے ساتھ ساتھ ایسے دل دردمند کے حامل کہ کبھی وہ اندھیرے پہر میں اٹھ کر اشکوں سے وضو کرنا سکھائے تو کبھی آفت زدہ اور مصیبت کے مارے انسانوں کے دکھ درد میں کام آنے کے لیے ملکوں کی سرحدوں سے ماورا پہنچادے، جس کے انفاس کی گرمی پہلے ہی معانقے میں اس گنہگار کے دل کو چھوتی ہوئی محسوس ہوئی۔ پہلی ملاقات ہی سے دل پر ایک تاثر قائم ہوا، حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب جلال آبادی رحمہ اللہ کے تربیت یافتہ و دست گرفتہ، پیر ذو الفقار صاحب نقش بندی مد ظلہ العالی کے اجازت یافتہ، مفتاح العلوم جلال آباد سے ۱۹۷۵ کے فارغ، تیس سے زائد بار حج بیت اللہ کی سعادت سے مالامال ہونے والے اور مسجد اقصیٰ میں رمضان کے اعتکاف سے نہال ہونے والے، جن کا زیادہ تر وقت انسانیت کی خدمت اور نفع رسانی کے لیے گزرتا ہے، روزانہ ساوتھ افریقہ کے ریڈیو چینل“مرکز صحابہ”پر جن کے بیانات نشر ہوتے ہیں۔“بینونی”میں“بینونی مسلم جماعت”کے قیام میں شریک، جس میں ایک ہزار سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں اور اس کے موجودہ چیئرمین بھی۔
مولانا موسی اکوڈی کی گاڑی پر ہم سوار ہوئے اور ان کی پرلطف باتوں سے محظوظ ہوتے رہے، راستے میں انھوں نے کئی ایک بینر دکھائے جس پر سیرتِ نبوی اور توحید کے پیغامات آویزاں تھے۔ مولانا کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ یہاں جنوبی افریقہ میں دعوت کے حوالے سے بہت ساری کوششیں کی جاسکتی ہیں، لوگوں کے ذہن ابھی کھلے ہوئے ہیں اور علمائے کرام کوششیں کر بھی رہے ہیں، پیام انسانیت کے حوالے سے اس کی ضرورت وافادیت اور کام کے امکانات پر بھی گفتگو ہوتی رہی۔ شہر سے دور کناروں پر آباد سیاہ فاموں کی بستیاں بھی نگاہوں کی دست رس میں اور سفید فاموں کی طرف سے ان پر ہونے والے مظالم کی داستانیں بھی زیر لب۔ وتلک الأیام نداولھا بین الناس۔
(سخنؔ حجازی۔ جوہانسبرگ سے ایراسمیہ جاتے ہوئے۔
چھ اکتوبر 2024)۔