(مُحمّد قَاسِم ٹَانڈؔوِی=09319019005)
اس وقت پوری دنیا پر کرونا وائِرس کا ڈر خوف چَھایا ہوا ہے، اس سے بچاؤ کےلئے ماہرین طِب اور محکمۂ صحت سمیت دنیا کی ہر ایک حکومت اس فکر میں غرق ہیں کہ انسانی جانوں کو بڑے پیمانے پر نقصان ہونے سے کیسے بچایا جائے؟ اس کےلئے حکومتیں عوام میں مسلسل شعور و آگہی لانے کے لئے مکمل کوشاں ہیں اور ہر ملک طرح طرح کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور ہر ممکن طور پر اس وائرس نامی عالمی وبا کو کنٹرول اور ختم کرنے میں عوام سے تعاون مانگ رہا ہے، اس لئے کہ وائرس جتنا پھیلا گا اسی بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کے تلف ہونے کا سبب بنےگا، اس لئے کہیں تو اس کی روک تھام کیلئے عوامی رابطوں کو زیادہ سے زیادہ مسدود کرنے کے آرڈر جاری کئے گئے ہیں اور کہیں عوام کو اپنے مابین دوری بنائے رکھنے اور خود کو نظر بند و گھروں میں مقید رکھنے کا حکم ہوا ہے۔
الغرض ! اس بیماری سے نِمٹنے کےلئے جس ملک کے پاس جیسے وسائل کی فراوانی ہے ویسی ہی پالیسیاں اور جُداگانہ احتیاطی تدابیریں اختیار کرنے کے فرامین عوام کو جاری کئے جا رہے ہیں۔ چونکہ ہندوستان طِبی شعبہ جات میں ترقی یافتہ ممالک سے کافی پیچھے ہے اور ماہرِ نفسیات و اطباء حضرات نے بڑے پیمانے پر اس بَلا و وبَا کا شکار ہونے یا اس ہَلاک کُن وائرس سے سماج کے ایک بڑے طبقہ کو متأثر کرنے کے خدشات ظاہر کئے ہیں جس کی وجہ سے حکومت نے ملک گیر سطح پر 21/دنوں کےلئے عوامی ناکہ بندی کر رکھی ہے باوجودیکہ پورا ملک بنیادی ضروریات کے فُقدان اور بےتَحاشہ عوامی مسائل کے اَنبار سے پہلے ہی جوجھ رہا تھا مگر پھر بھی عوام حکومت کے مذکورہ "لاک ڈاؤن" والی اپیل پر سختی سے عمل پیرا ہے کیونکہ عوام جانتے ہیں کہ اسی میں اپنا اور اپنے اہلِ خانہ کا دائمی تَحفُّظ کا راز پنہاں ہے۔
اِس عالمگیر وَبا و آزمائِش میں گِھری اِنسانیت کےلئے یہ وقت بڑا مشکل اور حالات انتہائی پریشانی کا باعث ضرور ہو سکتے ہیں مگر مایوس و ناامید ہو کر خود کو بےبَس کر لینا یا خود کو حالات کے سُپُرد کر دینا عقل و بینش کے خلاف اور تقاضۂ فطرت کے عین منافی عمل ہوگا اور پھر جن لوگوں کو اعتماد و یقین کی دولتِ بےبَہا سے وافَر مِقدار میں حصہ نصیب ہوا ہو وہ سب بھی حالات کے آگے یوں ہی سِپر ہو جائیں تو یہ امر ان کےلئے اور بھی اعتقاد و یقین کی کمزوری کو ظاہر کرنے والا ہوگا اس لئےکہ "مؤمن ہے تو لڑتا ہے بےتیغ سپاہی" کے مانِند حالات سے مقابلہ کرتے کرتے حالات کے دھارے کو پھیرنے اور موسم میں تَغیُّر و تبَدُّل پیدا کرنے کےلئے مختلف شکلیں اختیار کرتا ہے، جدید ترین نُسخے آزماتا ہے، مادی اَسباب و وَسائل کا رونا نہ رو کر وہ اپنے ایمان و یقیں کی بدولت ایک عظیم انقلاب برپا کرتا ہے، خود میں حاصل شدہ روحانی پُختگی کو آزماتا ہے اور بطورِ اوراد و وظائف ان کی پابندی کرنے اور اپنے کریم رب کی بارگاہ عالی مقام میں دعا و مناجات میں مشغول کرتا ہے اور شب و دن آہ و زاری کرنے میں صرف کرتا ہے۔ مصیبت کی اسی نازک گھڑی میں اس موقع کی مناسبت سے عوامی سہولت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم نے آیاتِ قرآنی سے چند جُملے اور فِقرے کشید کر انہیں یومیہ "واٹس اَپ اسٹیٹس" پر ترتیب دینے کی کوشش کی تھی جو ألحَمدُ لِلہ توقع سے زیادہ پسند بھی کئے گئے اور احباب کی طرف سے انہیں باقاعدہ پرنٹ کی شکل دینے کا مطالبہ بھی دہرایا گیا۔ چنانچہ آج جمعہ کی مناسبت سے "اِسلامیات" کے خصوصی کالم میں ان قرآنی جُملوں فِقروں پر مبنی مختصر انداز میں روانہ کئے جانے والے اسٹیٹس کو شاملِ اشاعت کرنے کی غرض سے تحریراً حاضرِ خدمت کیا جا رہا ہے، اس امید کے ساتھ کل کی اشاعتِ خاص میں شامل فرمایا جائےگا۔
تو اس سلسلے میں ہمارا سب سے پہلا اسٹیٹس حالات کی سنگینی اور مواقع کے اتار چڑھاؤ سے متعلق تھا جس کے تحت ہم نے یہ باوَر کرانے کی کوشش کی ہے کہ انسان کو چاہے جتنے بھی نشیب و فراز سے واسطہ پڑے اسے ہر حال میں اسوۂ رسول اکرم ﷺ میں رہ کر ہی راہِ نجات تلاش کرنی ہے، کیونکہ نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ سَتودَہ صفات نوعِ بنی انساں کے واسطے بہترین نمونہ اور آئڈیل قرار دی گئی ہے، قرآن کا فرمان ہے:
﴿أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ﴾
جب لوگوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر لیا کہ: دنیا کے بیشتر حصہ پر وائرس نامی وبا نے قبضہ جما لیا ہے تو وہی لوگ جو کبھی قرآن اور کبھی صاحبِ قرآن کی اِہانت میں سرِفہرست رہتے تھے، وہی لوگ آج قرآن سے رہنمائی حاصل کرنے میں لگے ہیں، جس سے رب تعالی کے فرمان جو تمام انسانیت کےلئے ہےکہ:
"تمہارے لئے بہترین طریقہ نبی (ﷺ) کا طریقہ ہے" پر حق و صداقت کی مہر لگی۔ اس لئے لوگوں کو عموماً اور جن کے سینے ایمان و یقیں کی دولت سے آباد و شاداب ہیں انہیں خصوصاً نبیؐ کا پاکیزہ طریقہ اختیار کرنے کا تاکیدی حکم ہے۔
ہمارا دوسرا اسٹیٹس تھا:
﴿یُدَبِّرُ الْأَمْرَ﴾
کوئی بھی کام اللہ پاک کی مرضی اور اس کی حِکمت و مَشِیَّت سے خالی نہیں ہوتا؛ اسی پر ہمارا یقینِ راسخ ہونا چاہئے۔
اس لئے یاد رہے اللہ تعالیٰ کاموں کی انجام دہی میں تمام مبادی و اسباب کے اختیار کرنے سے مُبرّا ہے، اور یہ اس وقت جو ناگفتہ بہ حالات ہیں دنیا کے سامنے عموماً اور اور ایمان والوں کے سامنے خصوصاً سب اسی کی حکمتِ بالِغہ پر مبنی مَظاہر ہیں۔ لہذا جب بھی کبھی ایسے پیش آمدہ مسائل اور حالات کا سامنا کرنا پڑ جائے تو لوگوں کو دو کام کرنے چاہئیں۔ دیکھو ایک تو تمہیں صبر و ضبط سے کام لینا ہوگا اور دوسرے حالات کو موافقِ حال بنانے کےلئے شانِ رُبوبِیت کو ذہن میں رکھ کر شریعت کے ہر ایک تَقاضے کو پورا کرنا ہوگا۔
تیسرا اسٹیٹس تھا:
﴿جَاءَکُمُ النَّذِیْرْ﴾
یاد رکھئے ! جب بھی کسی قوم یا اہلِ علاقے کو بُرے حالات یا بُرے اَشخاص سے واسطہ لاحِق ہوتا ہے تو اس کا اصل مقصد لوگوں کو (عذابِ خداوندی سے) ڈرانا اور خوابِ غفلت سے بیدار کرنا ہوتا ہے، تاکہ لوگ اللہ پاک کی عطا کردہ عقل کی روشنی میں اس مختصر زندگی کو بہتر سے بہتر بنائیں اور خود کے تئیں حالات ہی کو ڈرانے والا سمجھ کر احتیاط کے ساتھ حالات کے سازگار ہونے میں اپنا بھرپور تعاون پیش کریں! بصورت دیگر حَوادِثِ زمانہ بَرپا کرنے کے بعد اس کی طرف سے یہ اعلان کرایا جاتا ہے کہ تمہاری طرف سے ہمارے قوانین کی پاسداری میں برتی جانے والی معمولی غَفلت بھی "لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی" کے مِصداق حرف بہ حرف صادق کردکھائی جائےگی؟ اس لئے ہمہ وقت محتاط رہو، احتیاط ہی میں حفاظت کا راز پِنہاں ہے۔
چوتھا اسٹیٹس تھا:
﴿رَأْفَۃٌ وَّ رَحْمَۃٌ﴾
اس اسٹیٹس کے تحت لوگوں کو موجودہ حالات کی روشنی میں "عادت اللہ" سے واقف کرانا تھا کہ دیکھو اللہ پاک کی عادت و سُنت یہی ہےکہ:
"وہ اپنے محبوب و برگزیدہ بندوں کو کبھی تو عین جنگ کی حالت میں، کبھی موسَم کی حَرارت و بُرودَت سے اور کبھی پورے اِنسانی معاشرے کو مُختلف قِسم کے عَذابات سے دوچار کرکے آزمانا چاہتا ہےکہ: اِبتِلاء و آزمائِش کی اس نازک گھڑی میں کون صبر و ضبط سے کام لیتا ہے اور کون مَن مَرضی سے کام لیتا ہے"؟
بس اسی سے اندازہ لگا کر موجودہ حالات میں ہمیں اپنے اعتقاد و یقین کو مَشِیّتِ الہی کے ماتحت اور خلقِ خدا کے ساتھ اپنا بَرتاؤ اعلیٰ درجہ کی محبت و شفقت والا رکھنا چاہیے؛ 'إن شاءَاللہُ العزیز' ہمارا رب ہمارے ساتھ نرمی اور اپنی خاص مہربانی کا معاملہ فرمائےگا۔
جس عالمی پیمانے پر "کورونا وائِرس" نے واہی تباہی مچا کر اس نے یکسر طور پر لوگوں کو سوچنے اور اپنی بےبَسی پر آنسو بہانے پر مجبور کیا، یہاں تک کہ نمازی حضرات کےلئے مساجد میں اِجتماعی طور پر جمعہ کی ادائیگی پر پابندی تک لگا دی گئی (اور پابندی عائد ہونے کی صورت میں چونکہ احتیاط برتنا ضروری ہو گیا تھا اور جب لوگوں کو ادائیگی جُمعہ کے واسطے فِکر و تَشویش لاحِق ہوئی) تو ہم نے یہاں بھی اہلِ ایماں کےلئے سبق کا پہلو نکالا اور ان کی توجہ دینِ رحمت اور وَقفہ وَقفہ سے مُستَنبط ہونے والے مسائِل کی طرف مبذول کرائی، چنانچہ ہمارا پانچواں اسٹیٹس اسی محور پر مرتکز تھا:
﴿حِکْمَۃٌ بَالِغَۃٌ﴾
لوگوں یہ "کورونا وائِرس" نامی بیماری بھی ہمیں غور کرنے پر اسی ایک ذات کے اتارے ہوئے دینِ بَرحَق کی طرف توجہ دِلا رہی ہےکہ:
"ان پریشان کُن حالات (ادائیگی جمعہ کے موقوف ہونے) میں بھی اللہ پاک اپنے بندوں پر کِس طرح مہربانی کا معاملہ فرما رہا ہے اور کِس اعلیٰ پیمانے پر اللہ پاک کی طرف سے دین اور تجدیدِ دین کا کام انجام پا رہا ہے، کہ عوامُ الناس تو کیا اَخصُّ الخَواص کے ذہن و خیال تک سے جن مسائلِ شرعِیہ کا اِستِحضار یا عمل معدوم ہو چکا تھا، آج اللہ پاک نے اسی (موقوفِ جمعہ) کے بہانے سے نہ جانے کتنے مسائل کو جاننے اور ان پر عمل پیرا ہونے کا امت کو موقع فراہم کیا ہے" (وَلِلہ الحَمدْ) کیا معلوم اس مہلک و خطرناک وائِرس کے پس پردہ یہی عوامِل کار فرما ہوں اسی لئے علماء کرام کی طرف سے ہمیشہ یہ یاد دہانی کرائی جاتی ہےکہ:
"اللہ کی حکمت اللہ ہی بہتر جانے"؟
چھٹا اسٹیٹس نافرمانی کرنے والوں کےلئے اللہ پاک کی متعین کردہ سزاؤں سے باخبَر رہنے کے متعلق تھا:
﴿عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾
یاد رکھیں! اللہ پاک 'علیم الملک اور مالک المُختار' ہے، کوئی گناہ گار اس کی سزا سے بَچ نہیں سکتا۔ اس لئے اللہ و رسولؐ کے حکموں کی خِلاف ورزی اور نافرمانی کرنے والوں کو ڈرتے رہنا چاہئے تاکہ دنیا کی کسی سخت آفت و مصیبت یا آخِرت کے دَردنَاک عذاب میں مبتلا نہ کر دِئے جائیں؟ (یہ قُرآنی مفہوم متعدّد جگہ اِرشاد ہوا ہے) اس لئے یہ بات ہمیشہ یاد رہنی چاہیےکہ:
"آفتِ اَرضی ہو یا سَماوی؛ دونوں کا سببِ نزول اکثر بندوں کے اعمالِ بد کا نتیجہ ہوا کرتا ہے، اس لئے لوگوں کو ہرقِسم کے 'ظلم و شَرکشی، عَداوت و نااِنصافی اور فساد فی الارض' سے کنارہ کَش رہنا چاہیئے اور حُدودُ اللہ پاسداری کرنی چاہیے۔
ہمارا ساتواں اسٹیٹس تھا:
fik_سَارِعُوْآ إِلٰی مَغْفِرَۃٍ
فِطرتِ انسانی میں خیر و شرّ دونوں طرح کا مادہ رکھا گیا ہے، انتہائی کامیاب ہے وہ شخص جسے گناہ ہو جانے کے بعد توبہ و استغفار کی توفیق حاصل ہو جائے۔
آیتِ کریمہ کے اس فِقرے میں اپنے مالکِ حقیقی کی طرف دوڑ کر اسے راضی کرنے کا آسان طریقہ و نسخہ بتایا گیا ہے؛ کہ: "اللہ رحمٰن و رحیم اور بڑی مغفرت کرنے والا ہے، جو گناہ گاروں کو مغفرت طلب کرنے پر بخشش کا پروانہ عطا کرتا ہے" تو آئیے! ہم بھی اپنے گناہوں کی معافی طلب کر اپنے 'اعمالِ حَسنہ و اخلاقِ کریمانہ' سے اس زندگی کو مُزیّن کر 'حسبِ وعدۂ خداوندی' بخشش اور خود کو جنت کا مستحق بنائیں!
آٹھواں اسٹیٹس ہر بندہ کو ہر وقت خدا سے ڈرتے رہنے پر مبنی تھا، جس کا مفہوم ایک تمثیل کے سہارے لوگوں کے اذہان میں پیوست کرنے کی اَدنیٰ کوشش کی گئی ہے:
fik_یٰعِبَادِفَاتَّقُوْنِ
لوگوں! غلطی ہونے پر تو والدین بھی فوراً بچہ کو سزا نہیں دیتے بلکہ سمجھا بُجھا کر غلطی پر تنبیہ کرتے ہیں، تو پھر نامُوافق حالات کے پیش آنے پر ہم کیوں شکوہ کرنے لگتے ہیں کہ: "قدرت ہم سے اِنتقام لے رہی ہے"؟ نہیں پِیارو ! ایسا نہیں ہوتا، بلکہ ہمارا تو یہ یقین ہےکہ وہ رب جس کی رحمت و شفقت ہر چیز سے سَوا ہے جو رات و دن ہمارے اوپر اپنی رحمتوں کی بارش فرماتا ہے وہ مستقل ہمیں کیوں مُبتلاۓ آزمائش کرےگا؟ ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ مُتعدَّد مرتبہ ہمیں متنبہ کرتا ہے بیدار کرتا ہے اور پیار بھرے انداز میں ہمیں سمجھاتا ہےکہ:
"اے میرے بندو مجھ سے ڈرو" لیکن جب ہم نہیں ڈرتے تو وہ ڈرانا بند کر دیتا ہے۔
نواں اسٹیٹس اللہ کے یہاں ہونے والے حق و انصاف پر مبنی فیصلوں اور ہماری طرف سے کئے جانے والے اعمال کے سلسلے میں تھا:
﴿أللہُ یَقضِیْ بِالْحَقِّ﴾
آیتِ مُبارکہ کے اس مُختَصر جُملے میں ہم نے عام لوگوں کو یہی سَمجھایا کہ دیکھو ! "جب تک ہم اس دنیا میں حیات ہیں عمل کا ساتھ رہےگا، لیکن بڑی خوبی کی بات یہ ہوگی کہ ہم عمل کے ساتھ مُکافاتِ عمل کو بھی اپنے ذہن میں ہر وقت تازہ رکھا کریں، تاکہ کئے جانے والے اعمال کے اوپر سے جس وقت بھی مِلاوٹ و آمیزِش کے کھوٹ اور زیادتی کی تہہ کو ہٹایا جائے تو اس وقت حق تَلفی، نااِنصافی، عہد و پیماں کی شِکنی، بَدنَظری، جھوٹ فریب پر مبنی معاملات، دوسروں کی تذلیل، بُرائِیاں، غیبت، چُغلی، بُہتان تَراشی اور عزتِ نفس کو مجروح کرنے والے اعمال کی پوٹلی کو دیکھ کر یہ کہنے کی نوبت نہ آئے کہ: "وائے ناکامی میں لُٹ گیا" اور ساتھ ہی اس بات کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ "اللہ کا فیصلہ انصاف والا ہوتا ہے"۔
آج کی اس تحریر کا اِختتام ہم تمام لوگوں کا ذہن اور ان کی توجہ ایک سَماجِی کہاوت کی طرف مبذول کراتے ہوئے کرتے ہیں کہ دیکھو دنیا کا بھی یہ اصول اور کہاوت ہے جو شاید ہر سماج اور علاقے میں مشہور ہےکہ:
"جب گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلی کو ذرا ٹیڑھا کر لو" بس سمجھ جاؤ آج مشیتِ الہی بھی شاید اس افسانوی کہاوت کی حقیقت و صداقت کا لوہا انسانیت سے منوا رہی ہے؛ کہ تمہارے نزدیک تو اسے صرف ایک کہاوت سے تعبیر کیا جاتا ہے مگر ہمارے یہاں حقیقت ہی حقیقت ہے۔
مشاہدہ کرو ذرا مشرق تا مغرب کہ موجودہ وقت جس میں ہر ذی روح سانس لینے میں بھی مَشِیتِ الہی کا پابند و محتاج ہے، آج پَروَردِگار عالم مالکِ کون و مَکاں اپنے امور کی بابت اور بروقت ان کی ادائیگی میں "ٹیڑھی انگلی" سے کام لے رہا ہے کہ نہیں …؟؟؟ سوچئے ذرا…؟؟؟ (اللہ پاک ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے اور جلد از جلد اس مہلک و جان لیوا بیماری سے پوری انسانیت کو نجات عطا فرمائے؛ آمین)
ممضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں