ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لا ساقی
(علامہ اقبال ؒ)
آج (13اپریل2023)کی شام مجھے مولانامحمد ذوالفقار ندوی صاحب نے بتایا کہ مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ؒاب اس دنیا میں نہیں رہے۔یہ سن کر میرے دل و دماغ کی کیفیت دگر گوں ہوگئی،میں ان کا منہ دیکھتا رہ گیا،جیسے کہ مجھے اپنی سماعت پر یقین نہ آرہا ہو۔مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ؒ میرے لیے سایہ دار شجر کی مانند تھے،وہ میرے استاذ ہی نہیں مربی بھی تھے،وہ ابھی تک میری سرپرستی کررہے تھے۔ان کا وجود میرے لیے بڑا سہارا تھا۔وہ چلے گئے گویا اب میں بے سہارا ہوگیا۔وہ میرے مرشد تھے۔میں ان کی دعاؤں کا حصہ تھا،اب کون میرے لیے بارگاہ ایزدی میں ہاتھ اٹھائے گا؟وہ میرے غم خوار تھے۔اب کون میرا درد بانٹے گا؟وہ میرے رازدار تھے۔اب میں کس سے اپنا حال دل بیاں کروں گا؟وہ مولانا علی میاں ؒ کے بعدندوہ کی روح اور جان تھے،ہائے اب ندوہ کیسے سانس لے گا؟ وہ رونق بزم اور شمع انجمن تھے۔اب کون تاریکی کے خلاف کھڑا ہوگا؟وہ ملی اتحاد کا مضبوط ستون تھے۔اب کس کے نام پر مختلف الخیال لوگ متفق ہوں گے؟ وہ کشادہ دل،وسیع الظرف اور دوراندیش تھے۔اب کون اختلاف رائے کرنے والوں کو بھی احترام سے پکارے گا؟
میرے لیے یہ سعادت کی بات ہے کہ میں نے براہ راست مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ؒسے علم حاصل کیا اورمجھے ان کی دوکتابیں ’الادب العربی بین عرضِِ و نقدِِ‘ اور ’جزیرۃ العرب‘ خود انھیں سے سبقاً سبقاً پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ جس وقت ندوہ میں میرا داخلہ ہوا اس وقت ہمارے اساتذہ میں عبد الحمید برمی صاحب بھی تھے،مجھے نہیں معلوم اب وہ کہاں ہیں،اگر حیات ہوں تو اللہ انھیں سلامت رکھے اور اگر وہ دنیا سے رخصت ہوچکے ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔انھوں نے عربی پنجم میں ہمیں مولاناسید محمد رابع ندویؒ کی تصنیف کردہ ”منثورات“ پڑھائی تھی۔مولانا عبد الحمید برمی صاحب نے جب اس کتاب کا افتتاح کیا تو انھوں نے ہمیں مولاناسید محمد رابع ندویؒ کا تفصیل سے تعارف کرایا۔اس طرح مولانا سے براہ راست استفادے سے قبل ہی ان سے ہم کافی حد تک واقف ہوچکے تھے۔ہم دیکھتے تھے کہ مولانا دفتر اہتمام سے لے کر درس و تدریس تک کے فرائض بحسن و خوبی انجام دیتے تھے۔طلبہ کے درمیان ان کی خاندانی نجابت اور ان کا تقویٰ مشہور تھا۔ہمارے دل میں یہ خواہش کروٹیں لیتی تھی کہ کاش ہمیں بھی مولاناسید محمد رابع ندویؒ سے براہ راست استفادے کا شرف حاصل ہوجائے۔
مولاناسید محمد رابع ندویؒ حضرت مولانا علی میاں ؒ کے حقیقی بھانجے اور تلمیذ رشید تھے،حضرت مولانا علی میاں ؒان کی خصوصی تربیت کرتے تھے،ہمہ وقت انھیں اپنے ساتھ رکھتے تھے،یہاں تک کہ بیشتر اسفار میں انھیں ہم راہی کا شرف عطا فرماتے،مولانا انھیں اپنے جانشین کے طور پر تیار رکررہے تھے۔حضرت علی میاں ؒ نے انھیں خطوط اور مضامین لکھنے سکھائے،انتظامی امور کے گر سکھائے،عالم اسلام میں ان کا تعارف کرایا۔اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مولاناسید محمد رابع ندویؒ میں وہ کمالات و اوصاف پائے جاتے تھے جو مولانا علی میاں ؒ کے اندر تھے،خاص طور پر،خلوص و للٰہیت،ملت کے لیے کچھ کرگزرنے کا جذبہ،دنیا سے بے رغبتی،مادر علمی کو بام عروج پر پہنچانے کی تمنا،بزرگوں سے سیکھنے کی تڑپ،عاجزی و انکساری وغیرہ
یہ عربی ہشتم کی بات ہے مولانا حسب معمول رجسٹر حاضری اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے درجے میں داخل ہوئے،اس وقت دو طلبہ شرارت کررہے تھے،مولانا یہ دیکھ کر ناراض ہوگئے،انھوں نے زبان سے کچھ نہیں کہا،لیکن اپنے چہرے کے تاثرات سے بتادیا کہ انھیں ان طلبہ کی یہ حرکت انتہائی ناگوار گزری ہے،وہ بغیر پڑھائے درجہ سے چلے گئے۔ان کے جانے کے بعد ہم سب ان دونوں طلبہ پر برس پڑے،اور انھیں لے کر مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے،ان سے نہ صرف ان دونوں طلبہ نے معافی مانگی بلکہ ہم سب نے بھی معافی مانگی۔تب مولانا درجہ میں پڑھانے کے لیے آئے۔مولانا کا یہ انداز تربیت اس قدر پر اثر تھا کہ پھر کسی طالب علم نے انھیں ناراض ہونے کا موقع نہیں دیا۔ اس کی جگہ اگر وہ ڈانٹ دیتے،یا ایک دو چھڑی لگادیتے تو اس قدر اثر نہ ہوتا جس قدر ان کے ناراض ہوکر درجے سے چلے جانے سے ہوا۔ہمیں اندازہ ہوا کہ ایک مشفق استاذ کو اپنے شاگردوں کی کی معمولی غلطی سے کس قدر تکلیف پہنچتی ہے۔آج کل تو یہ تعلق ناپید ہوگیا ہے۔
حضرت مولاناسید محمد رابع ندویؒ نے میری کئی کتابوں پر مقدمہ لکھا ہے۔میں جب ندوہ جاتا،حضرت کی خدمت میں ضرور حاضری دیتا،حضرت بھی مجھ سے اظہار اپنائیت فرماتے اور موجود لوگوں سے میری تعریف کرتے تھے۔
میں جب سہارن پور کی درس گاہ اسلامی میں صدر مدرس تھا۔اس وقت مولاناسید محمد رابع ندویؒ اور حضرت مولانا علی میاں ؒ ہر رمضان میں تین دن کے لیے سہارن پور تشریف لاتے تھے،اور شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحبؒ کی خدمت میں رہتے تھے،اس لیے کہ مولانا علی میاں ؒ اور مولانا زکریا صاحبؒ دونوں شیخ عبد القادر رائے پوریؒ سے بیعت تھے اور پیر بھائی تھے۔اس دوران میں بھی ان دونوں اساتذہ سے ملنے کے لیے مظاہر العلوم جاتا تھا۔ایک بار مولاناسید محمد رابع ندویؒ نے مجھ سے کہا کہ ہمیں مولانا زکریا اسعدی صاحب کی عیادت کرنا ہے،وہ ہفت روزہ بیباک کے ایڈیٹر اور اپنے وقت کے مشہور صحافی تھے۔تو میں نے مولانا اسعدی صاحب کے بیٹے سے مل کرملاقات کا وقت لیا اور اپنے دونوں اساتذہ کی مولانا زکریا اسعدی صاحب سے ملاقات کرائی۔اس طور پر مجھے حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒ اور مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ؒ کی خدمت کا موقع ملا۔اس ملاقات میں مولانا تقی الدین صاحب بھی ساتھ تھے وہ شارجہ کی یونیورسٹی میں شیخ الحدیث تھے اور میرے دوست شاہد زبیری بھی تھے ۔
غالباً 1967یا 1968کی بات ہے،ندوہ میں طلبہ نے اسٹرائک کردی،اس موقع پر شر پسندوں نے خوب ہنگامہ کیا،شہر بھر میں پوسٹر لگائے،اساتذہ کا گھراؤ کیا،ندوہ انتطامیہ کے خلاف نعرے لگائے،مخالفین ندوہ سے ساز باز کی،پورا نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا،اس وقت ندوہ کے مہتمم مولانامحب اللہ ندوی صاحب تھے۔وہ طلبہ سے بچتے بچاتے مولاناسید محمد رابع ندویؒ صاحب سے جا کر ملے،مولانا لکھنو شہر میں رہتے تھے،اس وقت نہ وہ ناظم تھے،نہ مہتمم۔انھیں جب صور ت حال کا علم ہوا تو وہ بے چین ہوگئے،فوراً مہتمم صاحب کے ساتھ ندوہ آگئے اورحکمت عملی کے ساتھ اسٹرائک ختم کرانے کی کوشش کی۔نیز ان کی بے چینی اس لیے بھی کہ حضرت علی میاں ؒ ان دنوں ناظم تھے،وہ اپنے استاذ کی رسوائی قطعا ًبرداشت نہیں کرسکتے تھے۔وہ بغیر ذمہ داری کے بھی ندوہ کی ترقی کے لیے جدو جہد کرتے تھے،جب ان پر نظامت کی ذمہ داری آئی تو انھوں نے اپنی زندگی کا لمحہ لمحہ ندوہ کی علمی ترقی اور دنیامیں ندوہ کو قابل رشک مقام دلانے کے لیے وقف کردیا۔
1975میں ندوہ کا 85سالہ جشن منایا گیاتھا،اس وقت ملک میں ایمرجنسی لگی تھی،ان حالات میں ایک ایسی کانفرنس منعقد کرنا،جس میں اسلامی ممالک کے سفراء،اہل دانش،عالمی شہرت یافتہ علماء اور آسمان علم کے ستارے جمع ہورہے ہوں کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔اس وقت ہم نے دیکھا کہ مولانا علی میاں ؒ کی سرپرستی میں جو لوگ ہمہ تن لگے ہوئے تھے ان میں مولاناسید محمد رابع ندویؒ پیش پیش تھے،ان کے ذمہ کئی شعبے تھے،ایک شعبہ عرب مہمانوں کی ضیافت کا بھی تھا،مہمانوں کی آمدو رفت،قیام و طعام اور ان کے پروگرام کی ذمہ داری مولاناسید محمد رابع ندویؒ کے کاندھوں پر ہی تھی۔
طالب علمی کے دور سے تادم آخرحضرت مولاناسید محمد رابع ندویؒ کی شفقتیں،دعائیں اور سرپرستی مجھے حاصل رہی ہے۔جب ہم نے جامعۃ الفیصل میں رابطہ ادب اسلامی کی سالانہ کانفرنس کے انعقاد کی حضرت سے استدعا کی تو حضرت نے اجازت عطا فرمائی،اپنے آنے کا رزرویشن بھی کرایا،اپنے قیمتی مشورے بھی دیتے رہے،لیکن عین وقت پر موصوف کی طبیعت خراب ہوگئی اس لیے نہ آسکے،لیکن انھوں نے اپنا خطبہ صدارت ارسال کردیا تھا،جس کو کانفرنس میں پیش کیا گیا۔موصوف کی توجہ اور دعاؤں کا ہی نتیجہ تھا کہ کانفرنس زبردست کامیاب رہی۔
مولاناسید محمد رابع ندویؒ ضلع رائے بریلی کے موضع تکیہ کلاں میں 1929کو پیدا ہوئے۔آپ کے والد ماجد کا نام سید رشید حسنی تھا۔ مولاناسید محمد رابع ندویؒ کی شہرت میں ان کے علم،ان کا ورع و تقویٰ اور ان کی خدمات جلیلہ کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ کی نسبت کا بھی دخل تھا۔حضرت علی میاں ؒ آپ کے حقیقی ماموں اور استاذ تھے۔مولانا علی میاں ؒ صاحب اولاد نہ تھے،انھوں نے اپنے بھانجوں کو ہی اپنی اولاد کی طرح پالا پوسا اور تعلیم و تربیت کی۔
بے پناہ کمالات و صفات کا حامل،نمونہ اسلاف،غم خوار ملک و قوم،عزم و استقلال کی چٹان،لاکھوں طلبہ اور انسانوں کا مربی اور مرشد،عرب و عجم میں یکساں قدرو منزلت رکھنے والاآج اپنے مالک حقیقی سے جاملا۔ہر وہ آنکھ اشکبار ہے جس میں ملی حسیت کی تھوڑا سی بھی نمی موجود ہے،دنیا کے ہر حصے میں آپ کے سوگوار دعاگو ہیں کہ بار الٰہ اس مرد مومن کو جس کی نگاہ سے تقدیریں بدل جاتی تھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عنایت فرما۔اس کی خدمات جلیلہ جس کا بیان بھی ممکن نہیں قبول فرما۔اس کی بشری فروگزاشتوں کو معاف فرما۔آمین
جواب دیں