آج جب اُن کی سیاسی و سماجی زندگی پانچ دہائیوں کو عبور کرچکی ہے تو یہ امیج پہلے سے زیادہ واضح ہوگئی ہے، ممبر اسمبلی، ریاستی وزیر، رکن پارلیمان، کانگریس تنظیم کے عہدیدار، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے وائس چیئرمین، اردو اکادمی مدھیہ پردیش کے صدر ، اتراکھنڈ اور اترپردیش کے گورنر، یہ اُن کی سیاسی زندگی کے وہ پڑاؤ ہیں جس میں وہ اپنی متنوع شخصیت کے گہرے نقوش مرتسم کرچکے ہیں۔ اِن سبھی کرداروں کو نبھاتے ہوئے میں نے فضیلت مآب عزیز قریشی کو دیکھا ہے اور مجھے جو خوبی نظر آئی اُس نے گہرے طور پر متاثر بھی کیا ہے۔ مشہور صحافی حکیم سیدقمرالحسن صاحب مرحوم نے اُنہیں ’’عزیزِ بھوپال‘‘ کا خطاب دیا تھا، خوشونت سنگھ کو وہ مسلمانوں کے حقیقی بہی خواہ نظر آئے، پروفیسر ایے ایم خسرو اُن کی صلاحیتوں کے بڑے معترف تھے، ارجن سنگھ نے اپنا معتمد بنایا تو دگوجے سنگھ نے انہیں اپنا بڑا بھائی مانا۔
کہتے ہیں کہ بڑے لوگوں کی نسبت سے انسان بڑا بن جاتا ہے لیکن جو بڑوں سے تعلق کا استحقاق پیدا کرے وہ ہی اُن کی نظر میں جگہ پاتا ہے، فخرالدین علی احمد ہوں یا ڈاکٹر شنکردیال شرما، اندرا گاندھی ہوں یا چندرپرکاش سیٹھی، اِن سبھی بااثر شخصیتوں کی سرپرستی عزیز قریشی کو میسر آنا، خود اُن کے باصلاحیت ہونے کی نشانی ہے۔ عزیز قریشی کی جس دوسری خوبی نے میری نظر میں اُن کی توقیر بڑھائی وہ ملک و قوم کے ساتھ ملت کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ ہے، جس کو بروئے کار لاکر انہوں نے بعض ایسے کام کئے جو ہمیشہ یاد کئے جائیں گے۔ خاص طور پر انہوں نے پہلی جلاوطن سرکار کے وزیراعظم اور فرزندِ بھوپال پروفیسر مولانا برکت اللہ بھوپالی سے نئی نسل کو متعارف کرایا، سب سے پہلے ایم عرفان مرحوم نے اُن پر کتاب لکھی لیکن آج کی پیڑھی کا اِس محب وطن سے رشتہ قائم کرنے کا کام جس نے انجام دیا وہ محترم عزیز قریشی ہیں، موصوف کی پُرزور تحریک اور اُس وقت کے وزیراعلیٰ ارجن سنگھ کی حمایت سے بھوپال میں منعقد ہونے والے کانگریس کے ریجنل اجلاس کے لئے بسائے جانے والے نگر کا نام ’’برکت اللہ نگر‘‘ رکھا گیا۔ اِس کی پاداش میں عزیز قریشی کو کانگریس کے ہی ایک حلقہ کے عتاب کا شکار بننا پڑا، جو چاہتا تھا کہ برکت اللہ بھوپالی کے بجائے روی شنکر شکل کے نام سے مذکورہ اجلاس گاہ کو منسوب کیا جائے۔ بہرحال اُن کی پہل سے نئی نسل کو یہ جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا کہ ملک و قوم کے تئیں مولانا برکت اللہ بھوپالی کی شخصیت و خدمات کیا ہیں؟ کوئی ۷ سال بعد اقلیتوں کی فلاح وبہبود کے لئے تشکیل دی گئی ایک کمیٹی کی سفارشات میں انہوں نے بحیثیت کمیٹی صدر بھوپال یونیورسٹی کا نام ’’برکت اللہ یونیورسٹی‘‘ رکھنے کی پُرزور سفارش کی، مجھے یاد ہے ۱۵؍ اگست ۱۹۸۸ء کو جب وزیراعلیٰ ارجن سنگھ نے اِس فیصلہ کا اعلان کیا تو برکت اللہ بھوپالی کا نام عوام کے ذہن میں ازسرنو تازہ ہوگیا۔ بعد میں ارجن سنگھ نے مرکزی وزیر فروغ انسانی وسائل کا عہدہ سنبھالا تو عزیز قریشی صاحب کے سپرد پھر کئی کام کئے، انہیں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کا وائس چیئرمین بنایا، اُن کی سفارش پر کونسل کے دائرہ کار میں اضافہ کیا، اُس کے بجٹ کو کئی گنا بڑھادیا، یو این آئی کی اردو خبررساں سروس لینے کے لئے اردو روزناموں کو سبسڈی فراہم کرنے کی منظوری دی، اُسی زمانے میں ’’عزیز قریشی کمیٹی‘‘ نے ملک میں ایک اردو یونیورسٹی قائم کرنے کی سفارش کی تو اُس کو بھی عملی جامہ پہنانے کی کاروائی آگے بڑھی اور آج حیدرآباد میں یہ یونیورسٹی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے نام سے نئی نسل کو اردو کی تعلیم سے آراستہ کرنے کا اہم کام انجام دے رہی ہے۔
گرامی قدر عزیز قریشی کے یہی کام دوسروں کی طویل سیاسی زندگی پر بھاری ہیں لیکن انہوں نے اپنی لیاقت سے اس کے علاوہ اور بھی کئی کام کئے، یہاں میں خصوصیت سے جس کا ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ ہے ایشیاء کی مایہ ناز مسجد تاج المساجد سے متعلق آراضی کے قضیہ کو سمجھانا ہے، اُن کی گہری دلچسپی سے وزیراعلیٰ چندرپرکاش سیٹھی نے تاج المساجد کی دوکانوں کو تعمیر کرنے کی اجازت دی، بعد میں ارجن سنگھ سے بھی انہوں نے آراضی کا ایک حصّہ تاج المساجد کو دلایا، جس پر دوکانوں کے علاوہ شاندار لائبریری کی عمارت آج تعمیر ہوچکی ہے، اِن کاموں کی اہمیت کا اندازہ اُس وقت ہوا جب شرپسندوں نے اس علاقہ میں دراندازی کی کوشش کی۔ امیردارالعلوم تاج المساجدمولانا عمران خاں صاحب ندوی ازہری نے اِس کاروائی پر اپنے مکتوب میں جن الفاظ کے ذریعہ تشکر و امتنان کا اظہار کیا وہ کسی بھی عوامی رہنما کے لئے باعث فخر ہوسکتا ہے۔
بھوپال میں ’’اقبال ادبی مرکز‘‘ کا قیام ہوا، اردو کے باوقار اعزاز ’’اقبال سمان‘‘ کا اجراء ہو یا ’’اقبال میدان‘‘ کی تعمیر، اس میں عاشقِ اقبال ممنون حسن خاں صاحب کے تصورات و خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے حکومت و انتظامیہ کے گلیاروں سے منظوری دلانے کے کام میں قریشی صاحب ہی پیش پیش رہے ہیں۔ اُن کی شخصیت جن عناصر سے گندھ کر تشکیل پائی۔ اُس میں تدبر، تہذیب اور شائستگی کے ساتھ اُن کی قوتِ ارادی کا بڑا دخل ہے، وہ اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگانا پسند نہیں کرتے حالانکہ اردو، عربی، انگریزی کے ساتھ سوشل سائنس کے بھی وہ اسکالر ہیں، مختلف علوم پر اُن کی جو گہری نظر ہے ، اس کی ترجمانی اکثر ان کی تحریر و تقریر میں ہوتی ہے، جس کے اظہار میں وہ کسی مصلحت و منافقت سے کام نہیں لیتے بلکہ جو سچ سمجھتے ہیں اُس کو برملا بیان کردیتے ہیں، علامہ اقبال پر ایک سیمینار میں، میں نے انہیں شاعر مشرقِ اقبالؔ کے تعلق سے ترقی پسندوں کے ذہنی تضاد پر حملہ آور ہوتے اور جواب میں سردارجعفری جیسے جہاندیدہ ترقی پسند کو مدافعانہ رویہ اپناتے دیکھا ہے۔
’’اللہ کے بندوں کو آتی نہیں روباہی‘‘ کے مصداق ‘‘، یہی وہ خوبیاں ہیں ، جنہوں نے عزت مآب عزیز قریشی کو ’’عزیزِ ہند‘‘ بنادیا ہے، جب سے وہ اتراکھنڈ کے گورنر بنے ہیں ، آئے دن اُنہیں تعلیمی و تہذیبی انعقادات میں مدعو کیا جارہا ہے اور اپنی فکرونظر کے جرأت مندانہ مظاہرہ سے وہ ایک جہاں کو معترف بنارہے ہیں، اِسی جرأت و بانکپن کے اعتراف میں اُنہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بجاطور پر ڈی لٹ جیسی پُرافتخار ڈگری تفویض کی گئی ہے۔
عام تجربہ ہے کہ سیاست داں جب کسی بڑے آئینی عہدہ پر فائز ہوتے ہیں تو اُس عہدہ کے دباؤ کا شکار ہوکر وہ مصلحت اندیشی سے کام لینے لگتے ہیں، اُن کی گفتار و کردار عہدہ کی اسیر بن جاتی ہے لیکن فرزندِ بھوپال عزیز قریشی نے جب سے گورنر کا عہدہ سنبھالا ہے اُن کے جوہر کھلتے جارہے ہیں ۔ ابھی حال میں موصوف نے اترپردیش کے گورنر کی حیثیت سے مشرقی علوم کی مولانا محمد علی جوہرؔ یونیورسٹی رامپور کے برسوں سے بستہ خاموشی میں پڑے قانون کو منظوری دے کر جو ولولہ انگیز کارنامہ انجام دیا ہے، وہ تو سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ عزیز قریشی کے ایسے ہی گوناگوں کارناموں پر دل چاہتا ہے کہ یہ شعر اُن کی نذر کیا جائے
شمعِ نظر ، خیال کے انجم، جگر کے داغ
جتنے چراغ ہیں، تری محفل سے آئے ہیں
جواب دیں