چمپارن ستیہ گرہ بھارت کی جدوجہد آزادی میں ایک ناقابل فراموش سنگ میل ہے۔ 20 ویں صدی کے ابتدائی سالوں میں برطانوی پالیسیوں کی وجہ سے کسان متاثر ہو رہے تھے اور بہار کے چمپارن علاقے میں حالات ناقابل برداشت ہو چکے تھے۔ اس کے بعد، 1917 میں، مہاتما گاندھی نے اپنا پہلا ستیہ گرہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا، جس نے آزادی کی جدوجہد کے ڈھانچے کو نمایاں طور پر تبدیل کر دیا۔ آزادی کے لیے لڑنے کا عزم کرنے والے ہزاروں مقامی لوگوں میں پیر محمد مونس بھی تھے۔
پیر محمد مونس نے اپنی پوری زندگی اپنی قوم کو برطانوی راج کے چنگل سے آزاد کرانے کے لیے وقف کر دی اور اس کے سماجی تانے بانے کو محفوظ کیا۔ انہوں نے بھارت میں ہندو۔مسلم کے درمیان فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کا ذمہ لیا۔ ان کی صحافتی جمالیات اس وقت ایک سماجی تحریک کا کارخانہ بن گئیں۔پیر محمد مونس29مئی 1882میں غلامی کے دور میں پیدا ہوئے،لیکن انہوں نے انقلاب کا راستہ بچپن میں ہی چنا اور ان کی پسند کا ہتھیار قلم تھا۔ انہوں نے مقامی کسانوں کے مسائل کوبہت ہی مضبوطی کے ساتھ اٹھایا۔جو برطانوی حکومت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔
ایک ایسے وقت میں جب شمالی بھارت میں اُردو، فارسی اور انگریزی بولی جاتی تھی، مونس نے ایک موقف اختیار کیا اور اُردو کے ساتھ ساتھ ہندی کو ایک مقبول بولی جانے والی اور تحریری زبان بنانے کے لیے سخت محنت کی۔
پیر محمد مونس اپنے عزم پراس قدر ڈٹے رہے کہ انگریز ان کے موقف کو برداشت نہ کر سکے اور اس کے نتیجے میں انہیں ”ڈینجرس جرنالسٹ“ قرار دے دیا۔ برطانوی دستاویزات کے مطابق”پیر محمد مونس ایک خطرناک اور بدمعاش صحافی ہیں جنہوں نے اپنے قابل اعتراض لٹریچر کے ذریعے بہار کے چمپارن جیسے پسماندہ مقام کے لوگوں کی پریشانیوں کو اجاگر کیا۔ اور مہاتما گاندھی کو چمپارن جانے کے لیے متاثر کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ضلع چمپارن کے آس پاس کے مضافات، خاص طور پر انڈگو فیکٹریوں کے قریب کے مقامات نے 1915 میں ہی اپنے مسائل پر آواز اٹھانا شروع کر دی تھی۔ چنانچہ 1917 میں گاندھی جی کی آمد سے پہلے ہی انقلاب شروع ہو چکا تھا۔ اس کی تصدیق بہار اسپیشل برانچ انٹیلی جنس کی جانب سے 4 مارچ 1916 کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ سے ہو تی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ دیہات میں یہ افواہ بھی ہے کہ گاندھی، جس نے کبھی جنوبی افریقہ میں بھارتیوں کو مشتعل کیا تھا، یہاں لیکچر دینے آ رہے ہیں۔ یہ بحث مونس کے لکھے گئے پمفلٹ کا نتیجہ تھی۔مونس صاحب کا وہ خط جس کے ذریعے انہوں نے گاندھی جی کو وہاں کے مزدوروں کے برے حالات اور انگریزوں کے ظلم وزیادتی کے بارے میں لکھ کر آگاہ کیا اور وہاں آنے کی دعوت دی۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گاندھی جی نے چمپارن میں ہندی سیکھی تھی اور مونس نے اس میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ وہاں جانے سے پہلے گاندھی جی صرف اپنی مادری زبان گجراتی اور انگریزی جانتے تھے اور اپنے تمام ابتدائی نوٹ انگریزی میں لیتے تھے۔ اس کے بعد، جب ضرورت پیش آئی، مونس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ گاندھی جی ہندی سیکھیں اور جب بھی ضرورت ہو اسے استعمال کریں۔
پیر محمد مونس ایک مقامی کسان راج کمار شکلا اور اپنے قریبی دوست ہری ونش سہائے کے ساتھ لکھنؤ کانفرنس میں گئے۔ چمپارن واپس آنے کے بعدپیر مونس نے راج کمار شکلا کے ذریعے 27 فروری 1917 کو گاندھی جی کو ایک خط لکھا جس کا ان پر گہرا اثر پڑا۔ اس سے چمپارن جانے کے ان کے ارادوں کو تقویت ملی۔ پٹنہ کالج کے پرنسپل اور مورخ کے کے دتہ کو یہ خط مونس کے گھر سے ملا۔
اس کے بعد، 22 مارچ، 1917 کو، پیر محمد مونس نے خود گاندھی جی کو ایک خط لکھا، جس میں انہوں نے چمپارن کے حوالے سے کئی اہم سوالات اٹھائے۔ اس خط کے جواب میں گاندھی جی نے پوچھا کہ وہ مظفر پور کیسے جاسکتے ہیں اور کیا چمپارن میں ان کے تین دن قیام کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔
جب گاندھی جی انگریزوں کے خلاف جدوجہد شروع کرنے کے لیے چمپارن آئے تو پیر محمد مونس پورے سفر میں ان کے ساتھ رہے۔ انہوں نے گاندھی جی کے لیے کھانا پکایا اور پورے دل سے ان کی خدمت کی۔ جب برطانوی حکومت نے گاندھی کی مدد کرنے والے 32 افراد کی فہرست تیار کی تو دسویں نام ان کا (پیر مونس)تھا۔ وہ مونس کو گاندھی کے ایک بڑے اتحادی کے طور پر پہچاننے لگے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ H.W. لیوس کو معلوم نہیں تھا کہ پرتاپ کانپور میں مقیم اخبار تھا نہ کی لکھنؤ میں۔ مونس بتیا راج اسکول کے استاد نہیں تھے بلکہ وہ گروٹریننگ اسکول میں پڑھاتے تھے۔ وہ تبدیل شدہ مسلمان نہیں تھے بلکہ وہ پیدائشی مسلمان تھے۔ ان کے والد کا نام فتوگن میاں تھا۔ ترہوت ڈویژن کے کمشنر نے مئی 1917 میں ایک رپورٹ بھیجی جس میں واضح طور پر کہا گیا کہ ”دو افراد پارٹی کی بہت مدد کر رہے ہیں اور بہت سا مواد فراہم کر رہے ہیں یعنی ایک پیر محمدمونس جو تمام مضامین کو کاغذ پر سبسکرائب کرتے ہیں۔”پرتاپ آف کاون پور“ جس نے ممنوعہ پمفلٹ ”چمپارن کے ”پرجا پر اتیاچار“ لکھا۔دوسرے ایک دیگرشخص تھے۔
گاندھی جی پہلی بار 22 اپریل 1917 کو بتیا گئے تھے۔ وہ کچھ دیر ہزاری مل دھرم شالہ میں رہے پھر پیر محمد مونس کی والدہ سے ملنے گئے۔ مونس کے ہزاروں دوست گاندھی کے استقبال پر خوش تھے۔ مونس نے خود کو مجاہد آزادی ثابت کیا تھا اور اپنی پوری زندگی جنگ آزادی کے لیے وقف کر دی تھی۔ گاندھی جی بھی مونس کو دل و جان سے پیار کرتے تھے۔ درحقیقت، یہ مونس کے انقلابی الفاظ تھے جنہوں نے گاندھی کو چمپارن کی طرف کھینچا تھا۔
بنارسی داس چترویدی نے اپنی سوانح عمری میں مونس کے بارے میں لکھا ہے، ”کون ان جدوجہد کی مکمل کہانیاں سنائے گا جو مونس نے چمپارن کے لیے کی تھیں“؟ واضح رہے کہ مونس نے چمپارن کی طرف لوگوں کی توجہ دلانے کے لیے جتنا کام کیا ہے، کسی اور مصنف نے نہیں کیا۔
گنیش شنکر ودیارتھی نے مونس کے انتقال پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنے اخبار پرتاپ میں لکھا، ”ہمیں انتہائی دکھ ہے کہ بتیا، چمپارن ضلع کے پیر محمد مونس24/دسمبر1949 کو انتقال ہو گیا۔ ہمیں ایسے زندہ دل انسان سے ملنے اور دیکھنے کا شرف حاصل ہے جو اب خاموشی سے ایک طرف لیٹی ہوئی ہیں۔ دنیا ان کے مسائل کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ مادر وطن ”مدر انڈیا“ کے یہ فرزند جتنے کم مشہور ہیں، ان کا کام اتنا ہی گہرا ہے، اتنا ہی زیادہ انسان دوست ہے۔
انہوں نے مزید لکھا کہ ”آپ نے گاندھی جی کو چمپارن کی خوفناک کہانی سنائی اور یہ آپ کی محنت کا نتیجہ تھا کہ مہاتما گاندھی نے چمپارن کا دورہ کیا جس نے اس سرزمین کو ایک مقدس مقام بنا دیا اور وہ مقام جو تاریخ کے صفحات میں ناقابلِ تلافی ہے“۔
مادر وطن کے اس عظیم سپوت پیر محمد مونس کو آج بھلادیا گیا ہے۔ یہ وہ ہستی ہیں جن پر بڑی سے بڑی کتابیں لکھی جا سکتی تھیں،کیونکہ چمپارن ستیہ گرہ کا صحرا ان کے ہی سرجاتا ہے کیونکہ سب سے پہلے چمپارن ستیہ گرہ کا مدعہ انہوں نے ہی اٹھایا، لیکن افسوس! ان کے نام سے لوگ واقف بھی نہیں ہیں۔ پیر مونس کو بطخ میاں انصاری کی طرح ہی فراموش کردیا گیا۔آج ملک بھر میں گاندھی جی کے نام سے سنستھان(ادارے) بنے ہوئے ان سنستھان میں بھی ان مجاہدین آزادی،پیر محمد مونس فاؤنڈر آف چمپارن ستیہ گرہ اور گاندھی جی کی جان بچانے والے بخت میاں عرف بطخ میاں انصاری کی تصویریں نہیں ہیں۔
ہم تمام بھارت واسیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ بھارت کے ان عظیم سپوت جنہوں نے بھارت کو آزاد کرانے اور بھارت کی ترقی کے لیے زندگی وقف کردی،ان کو خراجِ عقیدت پیش کیا جائے۔دیش پریم کے ان کے جو جذبات تھے ان سے ہمیں سبق لینا چاہئے۔کسی نے کیا خوب کہا ہے:
حال کو مستقبل کی خاطر جوڑ رکھا ہے ماضی سے تیر کو جتنا پیچھے کھینچوگے اُتنا آگے جاتا ہے
جواب دیں