|
از: محمد ندیم الدین قاسمی
اذان دیگر شعائر وأحکامِ اسلام کی طرح ایک قابلِ احترام شعار ہے،یہ محض نماز کے وقت کا اعلان ہی نہیں؛ بلکہ ایسے حقائق کا مجموعہ ہے،جن تک ہماری نظر وفکر کی رسائی نہیں؛چنانچہ علماء امت نے اذان کے بہت سے حقائق بیان کیے ہیں:
۱۔پہلی حقیقت : اللہ کی عظمت وبڑائی:
انسان ظاہر پرست،مادی چیزوں کی عظمت سے جلد متأثر ہوجاتا ہے،آسمانوں کی عظمت،زمین کی وسعت وطوالت، پہاڑوں کی ہیبت،سورج وچاند کی چمک دمک ، مال و دولت کی ریل پیل سے مرعوب ہوکر یہ یقین کر بیٹھتا ہے کہ یہی مشکل کشا ہیں یا ان کے اندر خدائی روح حلول کر گئی ہے،نیز کبھی کبھی تو دولت کے نشہ میں خود کو بڑا سمجھنے لگتا ہے؛ اسی لئے سب سے زیادہ ضرب اسی بڑائی کے عقیدے اور تصور پر لگائی گئی، اور زبان سے بار بار " اللہ اکبر، اللہ اکبر"کہلایا گیاکہ مادی چیزوں کو بڑا سمجھنے والو! عظمت وکبریائی کے مستحق صرف اللہ ہے اس کے مقابلے میں سب بزرگیاں ہیچ ہیں، اس لئے آؤ! اور اس کےسامنے سجدہ ریز ہوجاؤ۔
۲۔دوسری حقیقت " لاالہ الا اللہ کی شھادت:
یہ وہ شھادت ہے جسے آدم سے لے کر حضرت محمدﷺ تک ہر نبیؐ نے مخالفتوں کے ہجوم میں،پتھروں کی بارش میں،گالیوں کی بوچھاڑ میں،ڈنکے کی چوٹ پر بیان کیا۔ جس کے ایک معنی " لامعبود الا اللہ" ( عبادت صرف اللہ کی ہے) عبادت میں دو چیزیں پائی جاتی ہیں ۱۔محبت ۲۔اطاعت۔اگر محبت ہو مگر اطاعت نہ ہو تو بھی عبادت نہیں،اگر اطاعت ہے مگر محبت نہیں تو بھی عبادت نہیں ،محبت کا تقاضہ تو یہ ہے
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی۔
گویا دل میں اللہ تعالی کی محبت اس قدر سماجائے کہ غیر کی محبت کے لئے جگہ ہی باقی نہ رہے،اور ظاہر سی بات ہے جب خدا سے محبت ہوجائے گی تو خدا سے قریب کرنے والی چیزوں سے بھی محبت ہو گی، لہو ولعب کی محفلوں سے نفرت اور اس کے ذکر سے محبت پیدا ہوجائے گی جیسا کہ ایک حدیث میں ہے
من أحب شیئا اکثر ذکرہ( جس سے انسان محبت کرتا ہے اس کا کثرت سے ذکر بھی کرتا ہے)
اور محبت کا تقاضہ ہے کہ اس کے سامنے ہم سجدہ ریز ہوجائیں اور اس کی دعوت پر "لبیک" کہیں۔
۳ تیسری حقیقت: حضرت محمدﷺ کی رسالت کی شھادت:
جب مؤذن محمدﷺ کی رسالت کی شہادت دیتا ہے تو وہ حقیقت میں تمام مسلمانوں کی جانب سے تین باتوں کا اعلان کرتا ہے:
۱۔ہم آپﷺ سے بے انتہا محبت اور آپ کی تعظیم کرتے ہیں؛ کیوں کہ جب تک آپﷺ سے محبت نہ ہو تو شھادت تو کیا ایمان بھی ناقص ہے جیساکہ ایک حدیث میں ہے کہ
لایؤمن احدکم حتی أکون أحب الیہ من نفسہ( رواہ البخاری) تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ مجھے اپنی جان سے زیادہ محبوب نہ رکھے۔
۲۔ہم آپؐ کے پیغام اور کام کی اشاعت بھی کریں گے اور حفاظت بھی۔
۳۔ہم زندگی کے ہر شعبہ میں آپؐ کی اتباع واطاعت بھی کریں گے کیوں کہ
محمدؐ کی غلامی دینِ حق کی شرطِ اول ہے
اسی میں ہو اگرخامی تو سب کچھ نامکمل ہے۔
۴۔چوتھی حقیقت: فلاح وکامیابی کا راستہ:
مؤذن " حیّ علی الصلاۃ " کے بعد " حیّ علی الفلاح" کہہ کر بتاتا ہے کہ لوگو! کامیابی مال ودولت اور اللہ کی نافرمانی میں نہیں؛بلکہ اللہ کی بندگی میں ہے،اور بندگی کی کامل ترین صورت " نماز" ہے۔
۵۔ دوبارہ اللہ کی عظمت وکبریائی کا اعلان:
آخر میں مؤذن دوبارہ "لاالہ الا اللہ" کہہ کر بتلاتا ہے کہ لوگو! پھر سن لو! عبادت کے لائق وہی اللہ ہے جو قوتوں اور عناصر کا مالک ہے،امیدوں کا مرجع وہی ہے، اس سے مفر کہیں بھی نہیں۔
اگر ہم ان حقائق کو سامنے رکھ کر اذان سنیں گے تو کچھ اور ہی روحانی لطف محسوس ہوگا،اللہ ہمیں زندگی کے ہر قدم پر ان حقائق کو سامنے رکھنے کی توفیق نصیب فرمائے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں