عیارشکاری نئے جال کے ساتھ

داعش کے جنگجوتربیت یافتہ عراقی اورشامی افواج کے پیچھے یوں بھاگتے ہوئے دیکھے گئے جیسے بلی چوہے کاتعاقب کرتی ہے،پھردیکھتے ہی دیکھتے داعش نے خلافت کااعلان کردیااورالبغدادی کی خلافت کااعلان کرتے ہوئے پوری دنیاکی تحریکوں خصوصاًملاعمرکوبھی بیعت کی دعوت دے ڈالی۔
یہ سب کچھ ہو رہا تھا ، داعش عراق کے تمام شمالی علاقے پرقبضہ کررہی تھی،شام میں اس کے قدم آگے بڑھ رہے تھے،ایران،ترکی ،سعودی عرب اورتمام پڑوسی ممالک حیرت وپریشانی سے دم بخودتھے کہ یہ اچانک وحشت کاطوفان کیسے نمودارہوگیاہے مگردوسری طرف امریکی اوراس کے اتحادی نہ صرف پر سکون بلکہ دوسری جانب اس سے لاتعلق بھی دکھائی دے رہے تھے جیسے کچھ ہواہی نہ ہو۔حقیقت یہ ہے کہ داعش کاداعیہ اصل امریکیوں کی منصوبہ بندی کے مطابق شام وعراق کوتقسیم کررہاتھا۔وہ خوش بھی تھے اورمطمئن بھی مگرجس روزداعش نے کردوں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے بلڈبارڈرزمیں طے کردہ امریکی نقشہ کی خلاف ورزی کی،اس روزامریکیوں کی دم پرپاؤں آیااورانہوں نے اعلان کردیاکہ اگرداعش نے کردریاست کی سرحد وں پرچھیڑچھاڑبندنہ کی توکاروائی ہوگی۔دوسری جانب داعش جوشروع سے امریکی دوستوں کی تعاون کی عادی تھی ،اس نے اس دہمکی کوپیاربھری ڈانٹ سمجھااورنظرانداز کرتے ہوئے امریکی منشاء کے مطابق نہ صرف قدم بڑھادیئے بلکہ اپنے ایجنڈے کابھی اعلان کردیاجس میں سعودی عرب پرقبضے سمیت ہر پڑوسی ملک کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ۔ 
اربابِ دانش کادعویٰ ہے کہ یہ سب کچھ امریکی منصوبے کے عین مطابق تھاکیونکہ عراق سے امریکی فوجوں کی رخصتی اورشام میں بشارالاسدحکومت کے خلاف اس کی ناکام بلکہ نیم دلانہ حکمت عملی نے عربوں کواس سے دورکردیاتھا۔سعودی عرب سمیت دیگرعرب ریاستوں نے امریکیوں سے علیحدگی اختیارکرتے ہوئے اپنے دفاع کوخودمختاری دینے کی طرف قدم بڑھا نے شروع کردیئے تھے اورسعودی وزیرخارجہ نے تونہ صرف اس کادوٹوک اعلان بھی گزشتہ نومبرمیں کردیاتھابلکہ امریکامیں سابق سعودی سفیرپرنس ترکی نے امریکی بینکوں سے اپنے سرمائے کونکالنے کی واضح دہمکی بھی دے ڈالی تھی اوریہ صورتحال امریکیوں کیلئے ناقابل برداشت تھی۔انہوں نے پہلے پاکستان کوسعودی عرب کے ساتھ دفاعی تعاون سے روکااوربعدمیں داعش کاپتہ پھینک دیا۔
حیرت انگیزامریہ بھی ہے کہ ہرجگہ ہرحال میں ہرمسئلے پرباہم سعودی عرب اورایران بھی امریکی پرچم کے سائے تلے ایک ساتھ دکھائی دے رہے ہیں،فرق صرف اتناہے کہ سعودی عرب کھل کرساتھ دے رہاہے اورایران ’’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘‘کی تصویربناہواہے۔ایران کے صدرحسن اومان کھل کرکہہ چکے ہیں کہ داعش غیراسلامی ہے اوراس کے خلاف امریکاکوفوجیں اتارناپڑیں گی اس کے بغیرصرفضائی حملوں سے اسے روکانہیں جاسکتا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ واحدپوائنٹ ہے کہ جس پرعرب اورایران کااتفاق ہے کیونکہ سعودی مفتی اعظم نے بھی داعش کواس دورکافتنہ خوارج قراردیکرسخت کاروائی کی حمائت کی ہے اورایران کے روحانی پیشواخامنہ ای نے بھی داعش کے خلاف بھرپورکاروائی کی منظوری دیتے ہوئے پاسدران انقلاب کی القدس فورس کوتیاری کاحکم دیاہے اورایرانی فوج کے سربراہ جنرل احمدرضابوادستان نے بھی کہہ دیاہے کہ داعش کی پیش قدمی روکنے کی خاطران کی فوج پورے عراق میں کاروائیوں کیلئے تیارہے۔ایران تذبذب میں کیوں ہے؟اس سوال کاجواب ایران کے اقوام متحدہ کے مندوب نے دیاہے کہ 
ایران داعش کے خلاف تعاون کیلئے تیارہے مگروہ صرف جوہری پروگرام پرریلیف چاہتاہے۔ 
بتایاجارہاہے کہ امریکاکی قیادت میں مغربی ممالک کے ساتھ پانچ عرب ریاستوں اورایران کااتحادایک کمزوراتحادہی نہیں بلکہ اس کے اندرمقاصدکے حوالے سے ایسے اختلافات بھی موجود ہیں کہ زیادہ دیرتک چلتادکھائی نہیں دے رہا۔ سعودی عرب ،قطراورمتحدہ عرب امارات کامطالبہ ہے کہ امریکاسنجیدگی کے ساتھ کام کرے اورداعش کے ساتھ ساتھ بشار الاسد کی حکومت کوبھی ختم کرے اورایران کوکوئی ایٹمی اعانت یارعائت نہ دی جائے جبکہ ایران اس شرط پرامریکاکے ساتھ شریک ہے کہ وہ بشارحکومت کوکچھ نہ کہے اوراس کے ایٹمی پروگرام کوتسلیم کرے۔ارباب، خبرونظرکادعویٰ ہے کہ امریکادونوں کولالی پاپ دے رہاہے اوردونوں بڑے ممالک کاایک اتحادکی چھتری تلے آجانایہ معنی نہیں رکھتاکہ دنیاشیعہ سنی تصادم سے محفوظ ہوگئی بلکہ آنے والے دنوں میں اس عنوان سے خونریزی بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔
ایک اہم سوال یہ بھی سامنے آرہاہے کہ داعش ہے کیااورامریکی کب سے اس سے آگاہ ہیں؟اس حوالے سے بہت کچھ کہاجارہاہے ۔ایک طبقہ داعش کوامریکاکاایجنٹ کہتا ہے تو دوسرا حقیقت سے کم خیال نہیں کرتامگرحقیقت یہ ہے کہ نیک نیتی سے جہادکی خاطرنکلنے والے نوجوانوں کواستعمال کرتے ہوئے امریکانے ایک ہواکھڑاکیاہے اورکچھ بھی نہیں۔ اس حوالے سے امریکی سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹرکی گواہی بہت معتبرہے جس نے کہاہے کہ امریکانے داعش کوتربیت اوراس کے خلاف جنگ کامتضادٹاسک سی آئی اے کو ۲۱۰۲ء میں دیااورسی آئی اے نے اسے بخوشی قبول کیا۔سٹیون ڈن کاکہناہے کہ شام میں مداخلت کیلئے اردن میں تربیتی مراکز بنائے گئے اوروہاں داعش کوسی آئی اے نے سپورٹ کیااورشام میں انہیں اس لئے استعمال کیاگیا کہ بشارالاسدکے مخالف سلفی جہادی گروپس کی قوت کوتباہ کردیاجائے جس کاسارے کاسارافائدہ جہاں بشارالاسداورایران کوہواوہاں امریکااوراسرائیل کے مستقبل کاخطرہ بننے والی قوت کوابتدا ہی میں تباہ کردیاگیا۔سٹیون کے مطابق سی آئی اے اب بھی داعش کے ساتھ ہے اوربمباری بھی کروارہاہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس فضائی حملوں میں داعش پہلے سے اس علاقے سے غائب ہوجاتی ہے اوراب اگلے مرحلے میں امریکااردن میں بھی بمباری شروع کردے گاوہاں اس کاہدف وہ تربیتی مراکزہوں گے جوسی آئی اے نے خودبناکردیئے تھے اوردلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ان مراکزکے بہانے اردن کوتاراج کیاجائے گااورجنگ کادائرہ پھیلایاجائے گامگرتربیتی مراکز اس سے قبل عراق منتقل کئے جاچکے ہیں۔یادرہے کہ پچھلے ماہ اسرائیل نے اردن کومتوقع داعش کے حملوں سے بچاؤ کیلئے اپنی فضائی فوج اورزمینی فوج بھیجنے کی پیشکش بھی کی تھی جسے اردن نے مستردکردیاتھا۔دراصل اس بہانے اردن پراسرائیلی قبضہ مقصودتھاجوکہ گریٹراسرائیل کی سازش کاایک حصہ بھی ہے۔ یہ گھرکے بھیدی کی گواہی ہے جس سے انکارممکن نہیں ہے۔دوسری جانب واقعات کاتسلسل بھی اس ساری تفصیل کی تصدیق کرتاہوادکھائی دے رہاہے ۔
دنیانے داعش کوجون ۲۰۱۴ء میں موصل پرحملہ سے جانامگریہ تنظیم اکتوبر۲۰۰۶ء میں قائم کروائی گئی جب القاعدہ سے الگ ہونے والے ایک گروپ نے دیگرکوساتھ ملاکردولت اسلامی عراق بنائی ۔۱۳فروری ۲۰۰۷ء کواس سے پہلے البغدادی نے سنی علاقوں میں اپنی حمائت کااعلان کیااوراسلامی عدالتیں بنانے کااعلان کیااورساتھ ہی سنی علاقوں میں شیعوں کا قتل شروع ہواجس کی قیمت بغدادکے سنیوں کواپنی لاشوں کی صورت چکانی پڑی۔اس سال مارچ میں بغدادکے نواح میں اس نے درجنوں مخالفین کے گھرجلاڈالے ۔۱۹/ اگست ۲۰۰۹ء کواس تنظیم نے عراقی فوج پربڑے حملے کئے۔مئی ۲۰۱۰ء میں ابوبکربغدادی کوسربراہ بنادیاگیاجوگوانتاناموبے سے رہاہوکرآئے تھے۔اپریل ۲۰۱۲ء کواس منصوبے کادوسرااور حتمی مرحلہ شروع ہواجب دولت اسلامیہ عراق نے شام میں القاعدہ کی تنظیم النوہ فرنٹ سے اتحادکااعلان کیااوردولت اسلامی عراق وشام کے نام سے داعش سامنے آگئی۔اس کے آتے ہی النوہ کی بشارالاسد حکومت کے خلاف فتوحات کوباہمی لڑائیوں میں الجھا کررکھ دیا،غدارقراردیکرالنوہ کے ایک جرنیل کوبھی مارڈالاگیا۔’’رْققہ‘‘ نامی شہرمیں بے گناہ شہری ذبح کرڈالے جس سے نہ صرف النوہ کی عوامی حمائت میں کمی آئی بلکہ اس کی صفوں میں اس اتحادکے حوالے سے اختلافات بھی پیداہوگئے جوآج تک ختم نہیں ہوسکے۔
جولائی ۲۰۱۲ء میں عراق کی جیل توڑکر۵سوقیدی رہاکروائے اورشام وعراق کے چھوٹے چھوٹے شہروں پرقبضہ شروع کرایا۔ فروری۲۰۱۴ء میں القاعدہ بھی ان سے تنگ آگئی اوراس نے داعش کوانتہاپسندقراردیتے ہوئے اس سے علیحدگی کااعلان کردیا۔اس کے بعدجون ۲۱۰۴ء میں انہوں نے تین چوتھائی شام اورعراق کے تمام سنی علاقوں پرقبضہ کرلیا۔داعش جنگجو شام میں النصرہ اوردیگربشارمخالف گروپس کے ساتھ لڑرہے ہیں جس سے اسرائیل کی یہ پریشانی ختم ہوگئی کہ گولان کی پہاڑیوں میں اگرالنوہ یاکسی دوسری جہادی گروپ نے قبضہ جمالیاتوان کیلئے خطرناک ہوگا۔ایک طرف داعش ایک سخت گیرمذہبی مخالفت کی حیثیت سے سامنے آئی ہے تودوسری جانب ایک برطانوی دہشتگردخاتون جوپہلے سے ہی دہشتگردی میں ملوث ہے اورکینیابم کیس میں مفرورہے،وہ داعش کیلئے نہ صرف بھرتیاں کررہی ہے بلکہ خواتین کیلئے خودکش دستے بھی تیارکررہی ہے۔سمانتھالوفلویٹ نامی یہ خاتون کئی برسوں سے امریکی اورکینیاکے اداروں کومطلوب ترین افرادکی فہرست میں شامل ہے۔اس کاوالدبرطانوی فوج میں خدمات سرانجام دیتارہاہے۔
داعش کے خلاف امریکی اتحادمیں ترکی ایک ایساملک ہے جس نے بغاوت کاعلم بلندکردیاہے اورکہاہے کہ وہ امریکی کاروائی کاحصہ نہیں بنے گا۔ترکی نے موصل میں پکڑے گئے اپنے ۴۹شہری بھی رہاکروائے ہیں جنہیں داعش نے ترک سفارت خانے سے پکڑاتھا،ان میں ترکی کے فوجی افسر،سفارت کار اوران کے بچے شامل تھے۔ ترک انٹیلی جنس ادارہ انہیں اپنی تحویل میں لیکرواپس ترکی پہنچ چکاہے جبکہ ۳مغربی باشندوں کویکے بعددیگرے وہاں ذبح کردیاگیاہے۔مبصرین کے نزدیک اس کی وجہ مغرب میں امریکی جنگی کاروائیوں کو جواز فراہم کرنابھی ہوسکتاہے۔امریکی بینکوں میں پہلے سے موجودعربوں کی اس دولت سے وہ بخوبی واقف ہیں ۔
صہیونی لابی کے تخلیق کردہ اسکرپٹ کے مطابق اگست میں داعش کاخطرہ جب عربوں کی گرن کودبوچنے لگاتوامریکاایک بار پھر مسیحا بن کرسامنے آگیا اورانہوں نے ۲۲ ستمبر کوپانچ عرب ممالک کوشیشے میں اتارکرداعش کے خلاف کاروائی کے بہانے ایک بارپھران کے وسائل پرقبضہ کی جانب پہلاقدم اٹھا دیا ہے ۔ ابھی اس قبضے کوایک ہفتہ بھی نہیں ہوا کہ پینٹاگون نے دہائی دیناشروع کردی ہے کہ اخراجات ان کے کنٹرول سے بڑھ رہے ہیں۔پینٹاگون کادعویٰ ہے کہ اب تک کے فضائی حملوں پراس کاایک ارب ڈالرخرچ ہو چکا ہے اوراگریہ نقصان جاری رہاتوچارارب ڈالرسالانہ خرچ ہوگا۔فوج بھیجی تویہ خرچ ۲۲گنابڑھ جائے گا۔اس واویلاکاواحدمقصد عربوں کوباورکراناہے کہ اپنے خزانے چھوڑنے کی تیاری کروورنہ داعش کھاجائیں گے۔
تازہ ترین اعدادوشمارجوجاری کئے گئے ہیں ان سے یہ بات پوری طرح عیاں ہورہی ہے کہ مقصدعربوں کے خزانوں کونچوڑناہے اورکچھ نہیں،اس سے قبل عراق اورکویت کی جنگ کے دوران اس منافع بخش کاروبارمیں کویت اورسعودی عرب سے ۹۶۳بلین ڈالر انہوں نے وصول کئے تھے جوپہلے سے ہی امریکی بینکوں میں موجودتھے اورعلاوہ ازیں اب تک مستقل خلیجی مہمان کے طورپربراجمان بھی ہیں۔امریکی بینکوں میں پہلے سے موجودعربوں کی اس دولت سے وہ بخوبی واقف ہیں اس لئے ایک مرتبہ پھر داعش کے نام پرجہاں مکروہ کاروبار شروع کیاجارہاہے وہاں ورلڈآرڈرکے تحت گریٹراسرائیل کی طرف پیش قدمی بھی کی جائے گی۔اس کیلئے ضروری ہے کہ مسلم امہ کی واحدایٹمی قوت کوبھی ختم کیاجائے۔پاکستان میں آزادی،انقلاب کے نام پردھرنوں کے بعد وزیراعظم نریندرمودی کاحالیہ امریکی دورہ اوراس کے فوری بعد سرحدی جھڑپوں کاچانک شروع ہوجانا بہت ہی معنی خیزہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی قومی سلامتی کے اجلاس کے بعدوزیرداخلہ چوہدری نثارنے بھی ان جھڑپوں کوایک عالمی سازش کاایک حصہ قراردیتے ہوئے متنبہ کیاہے ۔لیکن واضح رہے کہ بھارتی وزیراعظم اپنے ملک میں بہت بڑی غیرملکی سرمایہ کاری کیلئے جومنصوبہ بندی کررہے ہیں یقیناًاس کی کامیابی کی کلید اس پاک بھارت معاہدے میں ’’روسی ریاستوں سے بھارت کیلئے گیس اوردیگرانرجی کی سپلائی براستہ پاکستان‘‘میں پنہاں ہے جو۲۰۰۶ء میں ہلیری کلنٹن کے توسط سے طے پایاتھا! ۔

«
»

اب کیا کہا جائے گا داعش کے بارے میں؟

تھکن دور کرنے والی غذائیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے