عائشہ کا واقعہ؛ غور و فکر کے چند زاویے۔

صابر حسین ندوی

احمدآباد (گجرات) سے تعلق رکھنے والی عائشہ خاتون سابرمتی ندی کی بہاؤ میں مسلم سماج کی غیرت و حمیت، اسلامیت پر مر مٹنے کی باتیں، قرآن و حدیث پر لچھیدار تقریریں، دعوتیں توڑنے والوں کی نام نہاد تنظیموں کی عزت و وقار اور سماجی اصلاحات کی کاوشوں کی کھوکھلی اساس کو بہالے گئیں، گھریلو تشدد کی شکار، شوہر کی بے رخی، ستم اور جہیز کی ناسوز پَرتھا کی ماری ہوئی نے درد و آہ سے ٹوٹ کر، انسانوں کی مرتی انسانیت کو دیکھ کر مارے غیرت کے خود ہی رب کی حضور شکوہ سنجی کیلئے حاضر ہوگئی، چہرے پر مسکان، طمانیت کے ساتھ انسانی چہروں کے دوغلہ پَن اور معاشرتی کم ظرفوں کو لیکر وہ بنفس نفیس بارگاہ ایزدی میں دستک دینے چلی گئی، واقعہ یہ ہے کہ یہ زندگی کی سخت کڑواہٹ اور ہمارے معاشرے کی بدترین تصویر ہے؛ کہ ایک مکمل مخلوق اور دنیا و آخرت کی زینت بنت حوا کو رسم و رواج کے منحوس ترین دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے، اب بیٹیاں پیدا ہوتی ہیں کہ زمانہ جاہلیت کی یاد تازہ کرتی ہوئیں آتی ہیں، اگر والدین دیندار بھی ٹھہرے تو سماجی ٹھیکیدار منہ بسوڑتے ہوئے اس کا استقبال کرتے ہیں، ظاہر ہے یہ وہی ہندوانہ تہذیب اور حرص کی نفسانیت ہے جس نے صنف نازک کو ملعون بنا دیا ہے، والدین خود زندگی تھکا کر خود کو شکستہ کر کے اسے پالتے پوستے ہیں اور اپنے کلیجے پر پتھر رکھ کر اپنی جان اور سکون کو دوسرے مرد کے ساتھ عقد مقدس کی ڈور میں باندھتے ہیں؛ لیکن کیا معلوم کہ وہ انسانوں کی شکل اور خد و خال والا شخص درندہ صفت، جہیز، دولت اور مادیت کا بھوکا نکلتا ہے، جو انسان کو انسان نہیں سمجھتا، محبت و دلداری کا جنازہ اٹھائے اور اپنی مردانگی و غیرت کو خاک میں ملاتے ہوئے رحمت الہی کی بے توقیری کرتا ہے، جس کے پہلو میں زندگی کی سب سے بڑی راحت حاصل کرتا ہے، جس کی گود میں سر رکھ کر اور شانے سے شانہ ملا کر دنیا کی پیچیدگیاں سلجھانے کی کوشش کرتا ہے اسی کو پیچیدگیوں میں الجھا کر موت کو گلے لگانے اور خود کو انسانیت کا کَلنک بنانے پر راضی ہوجاتا ہے۔

سچ جانیے! عائشہ پہلی خاتون نہیں ہے اور خاکم بدہن کہنا پڑتا ہے کہ نہ آخری خاتون ہوگی جس نے سماج کی اس گندگی کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے؛ بلکہ شب و روز ایسے مشاہدات ہوتے رہتے ہیں، اگر وہ موت کی رسی پر جھول نہیں جاتے تو کیا؟ ان کی زندگی خود ایک موت بن کر رہ جاتی ہے، لمحہ لمحہ زندگی کو ایک سزا مان کر یا پھر اس امید میں کہ ایک نہ ایک دن سب کچھ اچھا ہوجائے گا، وہ اپنی جوانی اور بڑھاپا ضائع کرتی ہوئیں قبر کی باسی بن جاتی ہیں، ہمارے ارد گرد کتنے ہی ایسے باپ ہیں جو اپنی بچی کیلئے سینہ کوبی کرتے رہتے ہیں، سر پھوڑتے ہیں کہ کاش جہیز کی لعنت سے بچتے ہوئے بچی کو رخصت کرنے کا موقع ملے، انہیں عمریں عموم سے تجاوز کر رہی ہیں، نہ جانے جوانی کی ڈائن کب ڈَنس لے نہیں معلوم؛ لیکن سماج کے پڑھے لکھے طبقے سے لیکر جاہلوں تک خواہ وہ دیندار ہوں یا نہ ہوں (شاذ و نادر واقعات سے پرے) اس لعنت میں راست یا بالواسطہ ملوث ہوتے ہیں، اگر کوئی سرکاری نوکری والا یا دنیاوی تعلیم ہی اور اب تک نکما، نٹھلّو ہو تب بھی وہ جہیز کی دنیا کا بے تاج بادشاہ ہوتا ہے، دس لاکھ/ پندرہ لاکھ تو کچھ نہیں ایک فیشن بن چکا ہے، نیز آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے سماج میں دیندار گروہ خود اس لعنت کی مثال بنے پوئے ہیں، آپ یقین جانئے! عائشہ کی موت پر افسوس کرنے والے مولویوں میں نہ جانے کتنے ہیں جنہوں نے خود جہیز یا تو جائز بنا کر یا ناجائز ہی طور پر لیا ہے، جب ان سے کہا جائے تو کہنے لگتے ہیں کہ ہم نے مطالبہ نہیں کیا تھا؛ کیا انہیں نہیں معلوم کہ ایک خاتون سے ایجاب و قبول کے بعد اس کا نان و نفقہ شوہر کے سر ہوتا ہے تو بھلا کیا جواز ہے کہ کسی اور سے کچھ لیا جائے؟ اگر ہدیہ کہتے ہیں تو کیا ان کا عمل اس عامل (زکاۃ وصول کرنے والا) کی طرح نہیں جس نے صدقہ وصول کرتے ہوئے ہدیہ رکھ لیا تھا؟ جس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تم اپنے گھر بیٹھے رہتے، پھر دیکھتے کون تمہیں ہدیہ دیتا ہے؟ سچی بات یہی ہے کہ اس موضوع پر لکھنے سے کوئی خاص فائدہ نہیں؛ لکھنے والے بہت کچھ لکھ گئے اور اب بھی لکھ رہے ہیں؛ مگر اصلاً عملی پہلو پر اقدام کرنے کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں ایک اہم تحریر ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی علیگ کی شوسل میڈیا پر موجود ہے اس کا ایک اقتباس ضرور ملاحظہ کیجیے!

'خدارا ملت کا درد سمجھیے، اس کی صحیح حالت کا اندازہ کیجئے، سادگی کے ساتھ نکاح کو فروغ دیجئے، ہر جگہ ہر شخص کمر کس لے بلکہ میں تو کہتا ہوں صرف سند یافتہ علماء ہی مکمل طور پر سادگی کی قسم کھالیں تو دیکھیے ماحول کیسے بدلے گا! ترغیب دیجیے کہ دس لاکھ کا ولیمہ کرنے والے دس ہزار کا ولیمہ کریں، باقی رقم اپنے اعزاء و اقرباء اور ملت پر خرچ کریں، آپ جس قدر شاہانہ دعوت کرلیں دو تین دن یا ہفتہ بھر بعد کوئی اس کا ذکر تک نہ کرے گا، شادی ایک بہت آسان کام ہے، ایک مرد وعورت آپسی رضامندی یا اولیاء کی رضامندی سے دو گواہوں کے سامنے ایجاب وقبول کرلیں شریعت کی نظر میں شادی ہوگئی، خطبہ نکاح مستحب ہے، محفل و مجلس نکاح منعقد ہو اور نکاح کا اعلان ہو یہ بھی اچھی بات ہے، لڑکے کی طرف سے سادگی کے ساتھ اعلانِ نکاح کے لیے آس پاس کے اعزا واقربا اور پڑوسیوں کی ضیافت کر دی جائے تو بہت بہتر اور نہ کی گئی تو کوئی ملامت نہیں، یقیناً شادی شادمانی کا موقع ہے، لیکن اظہارِ شادمانی کے لیے اسراف و تبذیر کی گنجائش کہاں، کیا جو غریب پانچ کلو گوشت اور پانچ کلو آٹے سے ولیمہ کرتا ہے اس کے جذبات نہیں ہوتے یا وہ خوشی کا اظہار نہیں کرتا، مومن تو اظہار خوشی میں خدا کا شکر بجا لاتا ہے، اور خدا کا شکر بجا لانے کے لئے کیا کیا کام کیے جا سکتے ہیں آپ سمجھتے اور جانتے ہیں، لاکھوں کی دعوت کا اہتمام کرنے سے ہی خوشی کا اظہار نہیں ہوتا، اظہارِ خوشی اور رب کے شکرانے کا یہ بھی طریقہ ہے کہ آپ اپنی بیٹی کے ساتھ اپنے غریب عزیزوں کی رخصتی بھی شامل کرلیجئے، آپ صرف ایک ولیمہ پر ۵ لاکھ خرچ کرنے کے بجائے اپنے بھائی بھتیجوں کا ولیمہ بھی اسی میں اس طرح شامل کرلیجئے کہ انھیں اجنبیت واحسان کا احساس تک نہ ہو، مگر سچ یہ ہے کہ ظاہری اور حقیقی دینداری میں بہت فرق ہے، ظاہری دینداری قطعاً دل نہیں بدلتی اور جب تک دل نہیں بدلتا تب تک انسان ظاہری شکل وصورت کے باوجود دنیاداری کے مظاہر کے پیچھے بھاگتا ہے، ہمدردی وغمخواری اور باہمی تعاون وخدمت کے وہ جذبات پیدا نہیں ہوتے جو سیرت کا پرتو اور مومن کی خصوصیت ہیں، خدا کے واسطے نکاح و ولیمہ کو سماجی بوجھ مت بنایئے، دین آسان ہے تو اسے آسان بنائیے، دین کے ذریعے مشروع نکاح کو مشکلات کی بیڑیوں میں نہ جکڑیے، آج کتنے نوجوان اور جوان ہیں جو گھر بھی رکھتے ہیں، کھانے بھر کا کماتے بھی ہیں مگر شادی نہیں کر سکتے، کیوں؟ کہاں سے قرض لائیں، سماج کا پیٹ کیسے بھریں؟ لوگ کیا کہیں گے؟ اچھا بس پچاس لوگوں کو پوچھا؟ اچھا بس گوشت روٹی کھلائی؟ کہاں سے وہ سجاوٹ اور اہتمام کریں جس کو سماج نے لازمی قرار دے دیا ہے، نتیجہ آپ اور ہم سب جانتے ہیں، لیکن سماج کے دباؤ میں عمل سے فرار اختیار کرتے ہیں، جس دن ملت کے غیور ودیندار طبقہ نے سماجی دباؤ کا انکار کرنے کی ٹھان لی اسی دن سے نکاح انتہائی آسان ہوجائے گا۔

02 مارچ 2021

«
»

بنت حوا کی خودکشی کا ابن آدم ذمہ دار!! …. عائشہ ،جہیز، شریعت، ہم اور ہمارا معاشرہ

یہ دنیا ہزاروں رنگ بدلتی ہے!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے