اشتہار کو اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا کہ معلوم ہو نہ جانے ادارے کی کتنی وسیع عریض بلڈنگیں اندرون احاطہ میں موجود ہیں ۔لیکن ایک ہی عمارت کو دو جگہ اور بقیہ عمارت جو حقیقی میں اپنے سنگ بنیاد سے سات آٹھ سالوں بعد بھی حقیقی شکل اختیار نہیں کر سکی ہے آٹو کارڈ کے سہارا دیدہ زیب عمارت کی شکل دی گئی تا کہ اخبار پورا پیج کور ہو جا ئے بھائی۔ ملت کا تو ہی روپیہ ہے اب پیغا م ملاحظہ ہو پچاس لاکھ کی آبادی جس کی اکثریت ناخواندہ ہونے کی وجہ کر افلاس اور قبائلی زندگی جینے پر مجبور ہے ملک کایہ ممتازادارہ اپنے قیام کے 25 سالوں میں 25 شاخوں کی مددسے صرف 7459بچے بچیوں کو تعلیم سے جوڑا ہے اوریہاں بھی سبھی علوم اسلامی کی تعلیم دی جا رہی ہے بغور دیکھا تو بیشک ایک چھوٹے سے کمپیوٹر سنٹر پر بھی نظر پڑی ۔ ہم نے علم کی دو قسیں ۔ ایک علم نافعہ دوسرا غیر نافعہ کوجانا، دیکھا اور سنا اب سبھی اسلامی علوم کی تکمیل علم تجا رت، علم تعمیرات، علم ادویہ علم، معالجہ علم جغرافیہ ، علم معاشیات کے بغیر ہی پورا ہوجائے حیرت میں ڈال رہاتھا۔ جب کہ تجارت ومعالجہ نبیؐ کی سنت اور سول انجینئرنگ کی تعلیم تو خلیل اللہ اور ذبیح اللہ کو خدا نے اپنے حکم سے عطا کیا پھر انہوں نے اس کی بجا آوری خانہ کعبہ تعمیر کر کے عملی طور پوری کی ۔ بحر کیف میں اس چھان بین میں خیالی سفر پر نکلا اور مسجدحرام، مسجد نبوی ہوتے ہوئے ہر اس چھوٹے بڑے سبھی علوم اسلامی کے قلعوں میں گیا خانہ کعبہ کو دیکھ کر ہم نے پوچھا کون ہے اس کا معمار ؟ لوگ دیکھ کر حیرت سے پوچھا تو کس خاندان سے ہے میں نے کہا ہاشمی یعنی سید ان لوگوں کی آنکھیں بھر آئیں اور کہا آپ کو معلوم نہیں کہ سید نا ابراہیم خلیل اللہ اور ان کے لائق مند فرزند حضرت اسماعیل ذبیح اللہ نے بحکم خدا وندی اسے اپنے ہاتھوں سے تعمیر کیا ہم نے کہا وللہ کیا خوب ہمارا خالق ہمیں فن تعمیر کی بھی تعلیم دیتا ہے اسی لئے اپنی ازواج مطہرات کو لئے با پر دہ الگ الگ گھر خود ہمارے رسول اللہ ﷺ نے دیاتھا پھر اسے بیوی کا حق بتا یا شوہر پر اسے واجب قرار دیا ۔ماں جن کے پاؤں کے نیچے جنت ہے اور وہ محرم زادیاں جو ہمیں برائیوں سے روکتی ہیں ہمارے اولاد کی پرورش کر تی ہیں صالح سماج کی تشکیل میں ان کا کیا مقام ہے یہ وارتین انبیاء کرام سے زیادہ کون جانتا ہوگا ۔ ممبر و مہراب سے گھنٹوں خطابات بھی اس عنوان پر ہوتے رہتے ہیں کیا وہ کسی عارضہ میں مبتلا ہوجائیں اور انکا علاج ہم صنف کرکے تو بہترنہیں مگر آپ نے تو اس علم کو اسلامی علوم کے قعلوں میں داخل ہونے نہیں دیا جب کہ آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ ملک کے بہت سے سرکاری اسپتالوں میں خواتین ڈاکٹروں کی جگہ اب مرد ڈاکٹر ہی زچگی کراتے ہیں دوران حمل بھی ایسے مواقع آتے ہیں جب فلاپن ٹیوب کو کاٹنا پڑتا ہے تو وقت بھی مریضہ کے جسم کا وہ حصہ کھولا جاتا ہے جو عام طور سے بے حیا عورت بھی دیکھا نے سے گریز کر تی ہیں پیس میکر اور بائیپاس سرجری میں تو پورے جسم سے کپڑے کو ہٹا نا لازم ہے ہماری غریب ماں بہنیں بیٹیاں اس شرمندگی کو برداشت کر تی ہیں آپ تو ایک قبائلی مسلمان کا درد اٹھا رہے ہیں اس کرب کو محسوس کر رہے ہوں گے رہی علم تجارت اس سے تو دوری محبوب خدا سے بغض مانی جائے گی ملت کے مظلومین کو انصاف دلا نے کے لئے قوانین کے ماہرین کاہونا لازم ملزوم ہو گیا ہے آپ کومعلوم ہے کہ دنیا کی دوسری یا تیسری بڑی مسلم آبادی ہندوستان میں رہتی ہیں اور لاتعدادبے قصور نوجوان گرفتارہورہے ہیں ۔ اتنا ہی نہیں جس قلعے کا انتظام و انصرام آپ کے ہاتھوں میں ہے اس کے تعمیر و توسیع کے لئے آپ کے پاس اپنا کوئی معمار نہیں جس کی فراغت آپ کے ادارے سے ہو اس لئے ہم نے خیالی سفر میں مسجد نبوی کے اس حصے کو بھی بغور دیکھا جس کی تعمیر ترکوں کے زمانے میں ہوئی اور دوران تعمیر ایک نقشہ نویس سے لے کر گاڑا بنا نے اور اسے منزل تک پہنچا نے والے مزدور بھی صرف مسلمان نہیں بلکہ با وضو تھے ۔ انہیں سبھی اسلامی علوم کا مفہوم معلوم تھا اسی لئے کسی بھی شعبہ کو ترقی دینے کے لئے انہیں مدد کی ضرورت نہیں پڑتی تھی ۔ انکے تعلیمی قلعوں میں یورپ کے پوپ علم نافعہ حاصل کر نے جاتے تھے اس کے برعکس اگر آج آپ کا اکاؤنٹ ، ویب سائٹ ، ای میل اور یو ٹو ب ،ہائی جیک ہو جا ئے ایازمحمود مدد کو آ بھی جائیں تو اس کی فراغت اس قلعہ سے نہیں ہوگی جسے سبھی علوم اسلامی کا قلعہ کہا جار ہا ہے ۔ یاد کیجئے 1967 کا وہ دور جب خطے عرب میں تیل نکل رہا تھا اس وقت اگر وہاں کے باشند ے علم نافعہ سے آراستہ و پیراستہ ہوتے تو آج ایسی نوبت عرب ممالک کی ہر گز نہیں ہوتی کہ اسرائیل فلسطین پر حملہ کرے اور حکمران عرب خاموش رہیں ۔وہ لاچارہیں اسی طرح جھارکھنڈ کے اصلی باشندے جو ستر فیصد معدنیات کے حقیقی وارث ہونے کے باوجود اسی طرح قبائلی زندگی گذار رہے ہیں جس طرح آپ کے علا قے کے پچاس لاکھ مسلمان اس کی اہم وجہ علم کی غلط تشریح ہے ۔ فکری اختلافات اگر کسی علم نافعہ کے فروغ میں معنی بن جائے تو وہ بغض کہلا ئے گا اور قرآن میں اس کی اجازت ہر گز نہیں جس کی ترویج واشاعت کا بیٹرا آپ کندھے پر اٹھا ئے ہوئے ہیں ۔ آزاد ہندوستا ن میں یہ بغض اس وقت کھل کرسامنے آیا جب سر سید احمد خاں ایسے ہی علوم کے ماہرین پیدا کر نے کے لئے علی گڑھ مسلم یونیور سیٹی کی بنیادڈال رہے تھے آج جب اس کی افادیت عام ہو گئی تو مخالفین کی نسلیں وہاں کے فراغت کو اپنے لئے باعث افتخار سمجھنے لگی ۔ ساٹھ سال بعد ایک بار پھر وہی بغض کی طشت ازبام ہواجب ایک مرد مجا ہد جو گذشتہ 30 سالوں سے اپنے تعلیمی مشن کو مزید وسعت دینے کے لئے وہ دوسرے دینی قلعے کا رخ کیا تو اس بند ئے خدا کو وہاں سے نکال کر ہی دم لیاگیا۔لیکن چار سال کی قلیل مدت میں عزم کا پختہ بندہ ایک میڈیکل کالج کو ملت کے حوالے کر چکا ہے دوسرا میڈیکل کالج جو صرف ملت بیٹیوں کے لئے ہوگا۔ امید قوی ہے کہ 2017ء تک مکمل ہوکر عوام کے سپرد دیاجائے گا ۔ یہ وہ قلعہ ہے جسے توسیع کی ضرورت ہو تو معمار سے لے کر نقشہ نویس سبھی موجود قلعہ کا نگہباں کسی عارض کاشکار ہو جا ئے تو معالج موجود ۔ حتیٰ کے کسی ملازم یا زیر تعلیم بچوں کا کپڑا پھٹ جائے تو وہیں کا فراغت یافتہ درست کر نے کے لئے ہمیں وقت تیار ۔ انٹر نیٹ ہائی جیکرس کوروکنے کے لئے تو انہیں مستعمار کی ضرورت نہیں کیوں کہ سینکڑوں آئی ٹی این وہ خود پیدا کر رہے ہیں ۔آخر ان قلعوں کی تعمیر توسیع کہاں سے ہو رہی ہے یقین مانئے معاونین کا فقدان نہیں ہے بلکہ وسیع انظر مخلصین عنقا ہیں آج بھی ہماری تنگ نظری میں کمی واقع ہو جائے تو ہمارے مسائل بتدریج حل ہو تے رہیں گے ۔فرنگیوں کے فریب سے محتاط ہو نا عقل مند ی لیکن انکے علوم و زبان سے نفرت کرنا ہلاکت ہے اسی قرآن پر فرنگی تحقیق کر کے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں اور ہم اپنے ادارے میں قرآن کے محقق تو پید ا کر نا دور ایک چھوٹے سے کمپیوٹر سنٹر کے قیام کو باعث فخر سمجھ رہے ہیں لہذا ہم سلفی ، قاسمی ، ندوی ، اظہری ، بریلوی ، وہابی ، دیو بندی ، خانقاہی کے خول میں رہتے ہوئے اپنے تمام قلعوں میں علم نافعہ کو اسی طرح وسعت دیں جس طرح شعبہ حفظ کو دے رہے ہیں تبھی ہمارے اسلامی قلعے دورحاضر چیلنجوں کے لئے مینارۂ نورہوں گے۔رہی فنڈ کی بات پہلے پختہ عزم اور وسیع انظری ضروری ہے ملت کے لاکھوں افراد جو ادارے(اے ایم یوکشن شاخ) کے زمین کی احصولیابی کے لئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی ہوسکتی ہے وہی علم نافعہ کے لئے ضرورکھڑی ہوگی ۔کیونکہ ملک میں پندرہ کروڑ ملت کی صرف بیس فیصد صدقہ فطر اوراتنے ہی صاحب نصاب ساڑھے تولہ سونے کی زکوۃ موجودہ قیمت کے حساب سے اداکرتے ہوں تو 16ہزارکروڑ روپے سے کہیں زیادہ رقم صرف ماہ صیام وصول ہوتی ہے ۔ یہ کوئی قلیل رقم نہیں اس لئے سب کچھ ممکن ہے شرط ہے کہ ہمیں ملت کا درد ہو نہ کے کمبہ پروری ،برادری ، کسی خاص مسلک کے فروغ کی فکر۔
جواب دیں