خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے جمعہ کو قوم سے خطاب میں اس حقیقت کی جانب اشارہ کیا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کے جنگی جرائم پر دنیا کی خاموشی ناقابل معافی ہے۔
ٹویٹر پر ٹویٹس میں جنگ بندی کے لیے کوئی سفارتی سرگرمی نہ ہونے اور غزہ کی بارڈر کراسنگ کی بندش پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے محاصرے کا شکار خواتین اور بچوں کو جسم اور روح کا ناتا برقرار رکھنے کے لیے بنیادی اشیائے ضروریہ بھی مہیا نہیں ہو رہی ہیں۔
فلسطین نہیں انسانیت
پوپ فرانسیس امن کی اپیل کرتے ہوئے رو دیے۔ یہودیوں ،عیسائیوں اور ہندوں نے دنیا بھر میں غزہ میں رونما ہونے والے المیے کو اجاگر کرنے کے لیے مارچ کیے ہیں اور ریلیاں نکالی ہیں،غزہ کے ان بچوں کے لیے جن کے ہر منٹ کے بعد چیتھڑے اڑائے جا رہے ہیں۔ یہ فلسطینیوں کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کے لیے ہیں۔
میں جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو کنڈرگارٹن اسکولوں ،اسپتالوں، یتیم خانوں اور پناہ گزین کیمپوں کو جان بوجھ کر حملوں میں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تو اسرائیلی حملوں میں تیزی آ چکی ہو گی۔
عرب دنیا باہمی لڑائیوں اور بغاوتوں کے اپنے ہی جال میں الجھی ہوئی ہے اور اس نے ابھی کوئی اقدام کرنا ہے۔ بعض ریاستوں (اور یہ عرب نہیں ہیں) نے اسرائیل سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا ہے۔ ارجنٹینا نے ایک حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں کہا ہے کہ اس کا جو کوئی بھی شہری اسرائیلی فوج میں شمولیت اختیار کرے گا تو اس کو شہریت سے محروم کر دیا جائے گا۔ بولیویا نے اسرائیل کو ایک دہشت گرد ریاست قرار دے دیا ہے۔
یہاں حماس سے متعلق سوال نہیں ہے جس کو بعض تنگ نظر لکھاری تنازعے کو شروع کرنے کا الزام دے رہے ہیں۔ بعض عرب اس صہیونی جھوٹ کی جگالی کر رہے ہیں کہ حماس کے راکٹوں نے اسرائیل کو اس کارروائی کے لیے اشتعال دلایا تھا۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک پوری قوم کا معاملہ ہے جس کو ایک کھلی جیل میں مقید کر دیا گیا ہے،وہ محاصرے میں ہے اور اس کو اللہ کے عطاکردہ بنیادی انسانی حقوق اور آزاد حیثیت میں رہنے کے حق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔
یہ تو ایک برے نظریے کی نوآبادی اور جبرواستبداد ہے جو اپنی جبلت میں نسل پرستانہ اور غیر انسانی ہے۔یہ ایک طاقتور اور سفاک سپرپاور کا معاملہ ہے جو لوگوں کے زندہ رہنے کی خواہشات سے بھی آگاہ نہیں ہے۔ایک ایسی طاقت جو اسرائیلیوں کے پاں پڑ کر ان سے پوچھتی ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔وہی اسرائیلی جن کا وزیراعظم اس طاقت کے وزیرخارجہ جان کیری کو آنکھیں دکھا دیتا ہے۔
یہ جنگ دراصل انسانی تباہی والے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ایک ملک اور بے یارومددگار افتادگان خاک کے درمیان ہے۔ ایک طرف کلسٹر بم ،گیس بم اور انسانوں کوآنا فانا موت سے ہم کنار کرنے والے میزائل ہیں اور دوسری جانب ناتواں نہتے لوگ ہیں۔ یہ جنگ نہیں ہے بلکہ قتل عام ہے۔
اس کے بعد کیمرونز، اولاندز اور مرکلز آتے ہیں جن کے لیے اسرائیل کی سرزنش توہین مذہب سے بھی شدید تر ہے۔ انسانیت کے خلاف جرائم جاری ہیں اور میں یہاں ایک فلسطینی کے ساتھ ہونے والی مختصر گفتگو نقل کرنا چاہوں گا۔اس فلسطینی کا جاری قتل عام کے حوالے سے بیان چشم کشا ہے۔
ایک فلسطینی کی حیثیت سے میں صرف امن اور وقار کے ساتھ زندہ رہنا چاہتا ہوں لیکن مجھے ان دونوں سے محروم رکھا جا رہا ہے۔مجھے دنیا کے موقف پر بھی گہری مایوسی ہوئی ہے کیونکہ خون کے بہتے دریا رائیگاں جا رہے ہیں۔
لیکن میں یہ گھسے پٹے روایتی جملے سن سن کر تھک چکا ہوں کہ خواتین اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ گھسے پٹے جملے وہی لوگ ارشاد کررہے ہیں جو فلسطینی عوام پر بے رحمانہ بمباری کو نظرانداز کر رہے ہیں۔
لیکن عربوں کے لیے کوئی بھی آواز نہیں۔ ہم ہمیشہ کے لیے اجنبیوں کی ہمدردی پر نہیں جی سکتے۔ہم برسوں سے بھیک مانگتے اور رحم کی درخواستیں کرتے چلے آ رہے ہیں۔زندہ رہنے کے لیے ہمیں جدوجہد کرنا ہو گی۔ اس کے لیے ہمیں اپنے گھر کو درست کرنا ہو گا۔
آپ امریکا کی کسی دوسرے عرب ملک پر حملے اور چڑھائی کے لیے مدد لے سکتے ہیں لیکن آپ اقوام متحدہ میں اس سے سیاسی یا سفارتی ہمدردی کا ایک اونس بھی نہیں لے سکتے۔اس وقت جبکہ بہت سے دیانت دار اور محب الوطن عرب یہ دیکھ رہے ہیں کہ ہم اکیلے ہیں۔ آئیے ہم اپنے لیے اپنے پاں پر کھڑا ہونا سیکھیں۔
جواب دیں