گفتگومیں خطیبانہ اندازآپ کی ایک اور قابل ذکر خوبی تھی اور مکے ان چند لوگوں میں سے تھے جو پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔آپ کی شخصیت کے بعض پہلؤں میں مزاج کی تند خوئی اور طبیعت کا کھردراپن تھااور آپ معاملات میں سختی پسند واقع ہوئے تھے۔اعلان نبوت کے بعد حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ نے محسن انسانیت ﷺکی بہت مخالفت کی لیکن آپ کی صلاحیتوں کے باعث نبی اکرم ﷺ نے دعاکی کی ابوجہل(عمر بن ہشام) یا حضرت عمر(بن خطاب)رضی اﷲ تعالی عنہ میں سے کسی ایک کو دولت اسلام سے مالا مال فرما۔ایک رات جب باپ کے خوف سے حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ غلاف کعبہ کے پیچھے چھپے بیٹھے تھے تورات گئے محسن انسانیت ﷺ نماز پڑھنے کے لیے تشریف لائے اور بلند آواز سے سورۃ الحاقہ کی تلاوت فرمائی۔حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ فرماتے ہیں میرے دل میں خیال آیا کہ خدا کی قسم یہ آدمی تو شاعر ہے جیسا کہ قریش کہتے ہیں اتنے میں آپ ﷺنے یہ آیت تلاوت فرمائی کہ’’یہ ایک بزرگ رسول کا قول ہے ،یہ کسی شاعر کا قول نہیں ،تم لوگ کم ہی ایمان لاتے ہو‘‘۔حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ فرماتے ہیں میں نے دل میں کہا یہ آدمی تو کاہن ہے تب آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی کہ’’یہ کسی کاہن کا قول بھی نہیں ،تم لوگ کم ہی نصیحت قبول کرتے ہو‘‘۔حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ نے سوچا کہ یہ شاعر بھی نہیں ،کاہن بھی نہیں تو ایسا عمدہ کلام کہاں سے آیا؟؟تب محسن سنسانیت ﷺ نے سورۃ الحاقہ کی اگلی آیت تلاوت فرمائی کہ ’’یہ اﷲ رب العالمین کی طرف سے نازل کیا گیا ہے‘‘۔یہ حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ کے دل میں اسلام کے اترنے کا پہلا موقع تھا۔
اسلام کی تحریک جیسے جیسے زور پکڑتی گئی تو ایک بار حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ نے ابوجہل سے کہا کہ کیا اس آدمی ﷺ کو میں قتل نہ کردوں؟؟ابوجہل رک کراپنا چہرہ اونچاکرکے حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ کو دیکھنے لگااور اس نے کہا کہ اگر تم یہ کام کردوتو عرب قبائل صدیوں تک تمہارا احسان نہ بھولیں گے۔حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ ننگی تلوار لیے نبیﷺکے قتل کے ارادے سے چل کھڑے ہوئے۔راستے میں پتہ چلا بہن اور بہنوئی مسلمان ہو چکے ہیں ۔انکے ہاں پہنچ کر دونوں کی پٹائی لگائی لیکن انکی استقامت دیکھ کر دل ماند پڑ گیا،ان سے قرآن سنا اور اسی طرح ننگی تلوار لیے محسن انسیت ﷺ کے پاس اسلام قبول کرنے چلے آئے۔داربنی ارقم جو کعبۃ اﷲ سے کچھ فاصلے پر تھاوہاں سے اس موقع پر مسلمانوں کے اس زور سے نعرہ تکبیرکی آواز حرم تک آئی کہ قریش حیران رہ گئے کہ مسلمانوں کو آج کیا ہو گیا ہے۔مکی زندگی اور مدنی زندگی میں ہر اچھے برے وقت میں نہ صرف یہ کہ آپ نبی ﷺ کے ہم رکاب رہے بلکہ نبی ﷺ آپ کو ہمیشہ شریک مشورہ بھی رکھتے تھے۔جنگ ہو یا امن کا زمانہ ،دشمن سے مزاکرات ہوں یا دوستوں سے معاملات حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ کے مشوروں کو دربار نبوت میں ہمیشہ صائب گردانا گیا۔کئی مواقع پر آپ کی تائید میں وحی الہی بھی نازل ہوئی۔آذان،پردہ اورحرمت شراب کے احکامات حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ کے مستقل اسرار کے بعد نازل ہونا شروع ہوئے۔اورکچھ مواقع پر آپ کی تجاویز کو نبیﷺنے ناپسند بھی فرمایاجیسے اسیران بدر کے بارے میں حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ نے مشورہ دیا تھا کہ انہیں انکے قریبی رشتہ دار قتل کر دیں اورصلح حدیبیہ کے موقع پر آپ کا رویہ۔اسکی وجہ آپ کی طبیعت کی وہ جہتیں ہیں جن کا ذکر پہلے ہو چکا۔شاید اسی وجہ سے ہی آپ کی جذباتیت اس وقت اپنے جوبن پر آگئی جب وصال نبویﷺ کی خبر پہنچی اور آپ نے غصہ میں آکر کہا کہ میں اسے قتل کردوں گا جس جو ایسا کہے گا۔
حضرت ابوبکررضی اﷲ تعالی عنہ کے زمانہ اقتدار میں آپ قریبی اور بااعتماد وزیر کی حیثیت سے ریاست کے کاموں میں براہ راست دخیل رہے۔قرآن مجید کی جمع و تدوین آپ کے مشورے سے ہی عمل میں آئی،خود حضرت ابوبکر،حضرت عمر اور حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اﷲ تعالی عنھم جب سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار کو اس بات پر قائل کر چکے کہ خلیفہ مہاجرین میں سے ہونا چاہیے توانصار نے پوچھا کون خلیفہ ہوتوحضرت ابوبکر نے اپنا دایاں ہاتھ باقی دونوں ،حضرت عمراور حضرت ابوعبیدہ کی طرف بڑھایا کہ ان دونوں میں سے جسے چاہے چن لو تو حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ نے وہی بڑھاہواحضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالی عنہ کا ہاتھ تھام کر کہا کہ دیکھو یہ ہمارے خلیفہ ہوئے اور انکے ہاتھ پر بیعت بھی کر ڈالی۔حضرت ابو بکر رضی اﷲ تعالی جب آخری عمر میں صاحب فراش ہو گئے تو ریاست کے جملہ معاملات حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ کے ہاتھ میں ہی رہے۔حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ نے یہ اعتماد اس حد تک حاصل کر لیا کہ مسلمانوں کے مشورے سے حضرت ابو بکررضی اﷲ تعالی عنہ نے انہیں اپنے بعد کاخلیفہ نامزد کر دیا۔
زمام اقتدار سنبھالتے ہی لوگوں پر اپنے پہلے خطاب میں یہ واضع کیا کہ یہ بار گراں انکی مرضی کے بغیر ان کے کندھوں پر ڈالا گیا ہے۔دورفاروقی تاریخ اسلام کا ہی نہیں تاریخ انسانیت کاایک سنہرادور ہے،دس سالہ دور اقتدارمیں بہت سی فتوحات ہوئیں روم و ایران،ہندوستان،چین اور یورپ کے متعدد علاقے اسلامی قلمرومیں شامل ہوئے اورمسلمان افواج نے معلوم دنیاکا آخری کونہ تک چھان مارا۔آپ کادور اس لحاظ سے بھی بہت اہم ہے کہ شریعت اسلامی کی بیشتر قانون سازی اسی دورانیے میں ہوئی،نکاح و طلاق کے قوانین،وراثت کے معاملات اور حدوداﷲ جیسے قضیے وغیرہ اسی دور میں روبعمل لائے گئے۔آپ کا دور اس لحاظ سے بھی بہت وقیع ہے کہ حضرت علی کرم اﷲ وجہ سمیت اکابرین صحابہ و اہل بیت آپ کی شوری کے قابل قدر اراکین تھے۔امن و امان،عدل و انصاف،عوام و حکمرانوں کے مثالی تعلقات اور بے نظیر انتظامیہ سمیت اچھی حکومت کی جتنی بھی خصوصیات ہو سکتی ہیں وہ آپ کے دور میں جمع ہو چکی تھں۔
اولیات فاروقی وہ اقدامات ہیں جنہیں سب سے پہلے حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ نے تاریخ انسانیت میں متعارف کرایا۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ نے اپنی حکومت کے مختلف شعبوں میں جن نئی نئی باتوں کا اجرا کیا وہی اولیات فاروقی یا اولیات عمر کہلاتی ہیں۔انکی تعدادبعض محققین کے نزدیک ستر تک پہنچتی ہے۔ان میں سے بیشتر آج تک موجود ہیں اور بعض تو یورپ جیسے سیکولر ملکوں میں بھی رائج ہیں ۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ نے سب سے پہلے عدلیہ کوانتظامیہ سے الگ کیااورانصاف کی غرض سے باقائدہ عدالتیں قائم کیں اور ان میں قاضی مقرر کیے۔اس وقت تک حکمران خود ہی منصب قضا پر بیٹھتے تھے ،لیکن حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ نے اپنے دوراقتدار میں اس ریت کو تبدیل کیا اور قاضیوں کو انصاف فراہم کرنے کی مکمل آزادی فراہم کی۔حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ نے سن ہجری کا آغاز کیا،اس وقت تک قمری مہینے رائج تھے اور قریش اپنی مرضی سے انہیں آگے پیچھے بھی کرتے رہتے تھے ۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ نے حضرت علی کرم اﷲ وجہ کے مشورے سے تاریخ اسلام کے بہت بڑے واقعے ہجرت مدینہ کو آغاز قرار دے کر تووہاں سے نئے ہجری کیلنڈر کا آغاز کیااورمہینوں کو آگے پیچھے کرنے کی ممانعت کر دی۔ آپ نے سب سے پہلے ’’امیرالمومنین‘‘کا لقب اختیارکیا،اس سے پہلے حضرت ابوبکر کو’’خلیفۃ الرسول‘‘کہا جاتا تھا، حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ کو’’خلیفۃ الخلیفۃالرسول‘‘کہاجانے لگالیکن آپ نے اسے ناپسند فرمایا اور اپنے لیے ’’امیرالمومنین‘‘کا لقب اختیار کیاجو آج تک مسلمانوں میں رائج ہے اور اس لقب کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔
حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ نے صیغہ بیت المال قائم کیا،اس سے قبل اس محکمہ کا کوئی تصور نہ تھا اور ہر حکمران سرکاری خزانے کو اپنا ذاتی مال تصور کرتا تھااور اس میں سے بے دریغ خرچ کرتا اور جب بھی کمی ہوتی توعوام پر ٹیکس لاگو کر کے تو مزید رقم اینٹھ لی جاتی۔دور نبوت میں حضرت بلال رضی اﷲ تعالی عنہ خازن نبویﷺ تھے، حضرت ابوبکرکے زمانے میں اگرچہ حکمران کی ذات بیت المال سے جدا تھی اورآمدن عوام میں میں تقسیم کر دی جاتی یا جملہ ضروریات پر خرچ کر دی جاتی تھی لیکن حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ کے زمانے میں اس شعبہ نے باقائدہ ایک نظام کی شکل اختیارکی اسکا حساب کتاب رکھاجانے لگا،آمدن اور اخراجات کی مدات طے ہوئیں اورایک خازن اور اسکاعملہ اس کام پر مقررہوا۔آپ نے مردم شماری بھی کرائی اور مملکت کے عوام کی ترتیب قائم کی۔حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ نے فوج کاباقائدہ نظام قائم کیا۔اس سے قبل ہرلڑنے کے قابل شہری فوج کا سپاہی گردانا جاتاتھااور حکمران جب چاہتا بھیڑبکریوں کی طرح شہریوں کو ہانک کر تو میدان میں لے جاتا،شکست کی صورت میں وہ غلام بنالیے جاتے اور فتح کی صورت میں مال غنیمت کی لوٹ مار میں بہت بڑا حصہ حکمران کا ہی ہوتا۔آپ نے فوج کے نظام کو ایک شکل دی،باقائدہ فوج اور رضاکار الگ الگ سے مقرر کے،انکی تنخواہیں مقررکیں،فوج کے اندر حکم و اختیارات کا ایک متوازن نظام قائم کیا۔متعددبار آپ نے چاہا کہ میدان میں خود افواج کی قیادت کریں لیکن مرکزخلافت کے خالی رہ جانے کے پیش نظر آپ کے مشاوروں نے اس اقدام سے آپ کو باز رکھا۔
راتوں کو گشت کے ذریعے عوام کے احوال سے آگاہی کاآغاز حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ نے ہی کیا۔ کسی رات دوران گشت آپ نے ایک گھرسے عورت کی آواز میں جدائی کے نغمے سنے ،اگلے دن تحقیق پر پتہ چلا کہ اسکا شوہر محاذ پر گیاہواہے،آپ نے اپنی بیٹی ام المومنین حضرت حفصہ سے دریافت کیا کہ عورت بغیر شوہر کے کتنی مدت رہ سکتی ہے،انہوں نے جواب دیا کہ چارماہ۔اس دن سے حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ نے یہ قانون جاری کر دیا کہ ہرسپاہی کوچارماہ کے بعد جبری رخصت پر گھربھیجاجاتا۔آج کل یورپ کے اسکینڈے نیوین ممالک میں یہی قانون Umar Lawکے نام سے رائج ہے۔راتوں کے گشت کے دوران ہی ایک بار حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ نے ایک بچے کے رونے کی آواز سنی ،معلوم کرنے پر اسکی ماں نے بتایا کہ اسکا دودھ چھڑارہی ہوں کیونکہ دودھ چھڑانے پر حکومت کی طرف سے بچے کا وظیفہ ملناشروع ہوگا۔آپ نے اگلے دن بچے کی پیدائش سے ہی اسکا وظیفہ لگانے کے احکامات جاری کر دیے۔آج ترقی یافتہ دنیا میں بے روزگاری کا وظیفہ دراصل حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ کا شروع کیا ہوا طریقہ ہے۔آپ نے مملکت کی انتظامی تقسیم کی اور اسے صوبوں اور ضلعوں میں تقسیم کیا اور ان پر انتظامی حکمران’’والی‘‘مقررکیے۔اس سے قبل کسی حکومت کے تحت جوکمانڈرجس علاقے کوفتح کرتا وہ اسی کے تحت آتا اوروہ اس علاقے کا خراج حکومت کو اداکر کے توشہریوں پراپنی مرضی کاقانون مسلط کر دیتا۔حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ نے ظلم کے اس سلسلے کو ختم کردیا۔حج کے موقع پر ہرسال تمام صوبوں کے والی مکہ میں آتے اور حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ انکے خلاف عوام کی شکایات سنتے اور موقع پر ہی تنبیہ ومداواکیاکرتے۔
حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ نے تجاری ٹیکس’’عشور‘‘مقررکیا،زمین کی پیمائش کے پیمانے جاری کیے،آب پاشی اور دیگرضروریات کے لیے نہریں کھدوائیں۔آپ نے پولیس کا محکمہ قائم کیا،اس سے قبل فوج ہی پولیس کاکام کرتی تھی اور شہریوں پر ظلم ڈھاتی تھی،آپ نے فوج کو محاذ تک محدودکرکے تو شہری نظم و نسق پولیس کے حوالے کیا اور انکے اختیارات متعین کیے۔پویس کوعدلیہ کے ماتحت کیااور پولیس وعدالت کے باہمی امتزاج سے’’محکمہ احتساب‘‘قائم کیا۔بازار میں وزن اور پیمائش کی نگرانی،لین دین کے جھگڑوں کا فیصلہ اور دیگر اسی نوعیت کے فوری مقدمات کافیصلہ اسی شعبہ کے ذمہ تھے۔آجکل یورپ میں بھی اسی نوعیت کے معاملات کے لیے اسی سے ملتا جلتاایک عہدیداربیٹھتاہے جسکے پاس محدودعدالتی و انتظامی اختیارات ہوتے ہیں۔آپ نے جیل خانے بھی قائم کیے،اس سے قبل اس نوعیت کی سزا کے لیے ملک بدری ہوا کرتی تھی۔حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ نے فجر کی آذان میں’’الصلوۃ خیر من النوم‘‘کا اضافہ کیا،بیس تراویح کا آغاز کیا،حکمران پر آزادی رائے سے تنقید کا حق دیا۔چنانچہ آپ کے زمانے میں بیس تراویح پر اجماع نہ ہو سکا تاہم بعد میں آنے والوں نے یہ سلسلہ شروع کیا جو آج تک جاری ہے۔اسی طرح ایک خطبے کے دوران آپ نے مہر کی رقم کی ایک حد مقرر کر دی،ایک عورت نے اسی وقت کھڑے ہوکراس فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا،کوئی اورحکمران ہوتا تواس عورت کی خیر نہ تھی،لیکن حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ نے اگلی صفوں میں بیٹھے بزرگ اصحاب رسول ﷺ سے دریافت کیا کہ اس عورت کاموقف درست ہے یا میرا؟؟سب نے اس عورت کے حق میں رائے دی،آپ نے اسی وقت منبرپر کھڑے کھڑے اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔
حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ نے مساجد میں مکاتب ومدارس قائم کیے،بعض مدارس اونٹوں پربھی قائم تھے انہیں’’گشتی مدارس‘‘کہتے تھے علماء ان اونٹوں کے ساتھ مختلف قبائل میں جاتے اور ایسے افراد جنہیں قرآن کاکوئی حصہ یادنہ ہوتا انہیں قرآن کی تعلیم دیتے اور یہ حکومت کی طرف سے لازمی تعلیم تھی۔آپ نے تنخواہ دارائمہ مساجداورعلماء مقرر کیے جو لوگوں کو اور بچوں کو تعلیم دیا کرتے تھے۔آپ نے اصحاب رسول ﷺ کے وظائف مقررکیے ،سب سے زیادہ رقم کاوظیفہ بدری صحابہ کو ملتا تھا۔مشاورت کے لیے آپ نے اسی ترتیب سے صحابہ کو تقسیم کیاہواتھا،عام مشورہ مسجد میں ہوتا،خاص مشورہ بیعت رضوان میں شامل صحابہ سے ہوتا اور خاص الخاص مشورہ اصحاب بدر سے کیاجاتاتھا۔مشورہ سے پہلے ایک آواز لگانے والا ’’صلوۃ صلوۃ‘‘کی صدا لگاتے ہوئے گلیوں سے گزرتا اور سب لوگ مسجد میں جمع ہوجاتے۔
اولیات عمر کی ایک طویل فہرست ہے جسے ایک مختصر تحریر میں نہیں سمیٹاجاسکتا۔حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ خود فرمایا کرتے تھے کہ یہ سب عزت صرف اسلام کی وجہ سے ہے۔وہ کہا کرتے تھے کہ میراباپ مجھے مارتاتھا کہ تم اتنے نکمے ہوکہ اونٹ بھی نہیں چرا سکتے لیکن جب اسلام لائے تو دنیاکو اس طرح چلایا اایک زمانہ رطب اللسان ہے۔یہی اسلام بھی آج بھی مسلمانوں کو اس قابل بناسکتاہے کہ دنیا ان کے سامنے زمین پر اپنا ماتھا رگڑنے لگے۔ابوجہل کوئی نکما یا نالائق شخص نہیں تھا،حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ اورابوجہل دونوں میں کسی ایک کو اﷲ کے رسول ﷺنے مانگا تھا،ایک اسلام کی دولت پا کر اوج ثریا تک جاپہنچاجبکہ دوسرااسفل السافلین کی اتھاہ گہرائیوں میں پہنچ کر رسوائے انسانیت ہوا۔
حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ نے کم و بیش دس سال تک حکومت کی،روم کا سفیر جب مالاقات کے لیے آیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیاکہ آدھی دنیاکاحکمران تپتی دوپہرمیں ایک درخت کے نیچے اینٹ پر سر رکھے استراحت کر رہاہے،اس نے کہا تمہارا حکمران انصاف کرتا ہے اور بے خوف ہے جبکہ ہمارے حکمران ظلم کرتے ہیں اور خوف زدہ رہتے ہیں۔آپ کو فجر کی نماز کے دوران حملہ کر کے شدیدزخمی کر دیاگیا،تین دن کی علالت کے بعد آپ مقام شہادت پا گئے۔وصیت کے مطابق حجرہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالی عنہا کے باہر جسدخاکی رکھ کر صدا لگائی گئی کہ عمر اندر آنے کی اجازت مانگتا ہے،آپ کا حکم تھاکہ اگر ام المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالی عنہااجازت دیں تو درست وگرنہ جنت البقیع میں دفنا دینا۔ام المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالی عنہانے کہا کہ اگرچہ یہ جگہ میں نے اپنے لیے رکھی تھی لیکن میں عمررضی اﷲ تعالی عنہ کو اپنے پر ترجیح دوں گی،چنانچہ وہ اپنا سامان اٹھا کر باہر آگئیں اور آپ کو وہاں دفنا دیاگیا۔وہ دنیامیں بھی اکٹھے تھے،قبروں میں بھی ایک ساتھ ہیں اور آخرت میں بھی انشاء اﷲتعالی ہم انجام ہوں گے،رضی اﷲ عنہ ورضوا عنہ۔
آج کے وقت کا سیکولرطاغوت ایک اور عمرفاروق کا تقاضا کررہاہے۔ماضی کے روم و ایران کوجس طرح فاروقیت نے زیربام کیاتھا اور انسانیت کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلا کر ایک رب واحد کے حضور سربسجودکیاتھا،آج بھی سیکولرازم کے ہاتھوں سسکتی انسانیت اور سرمایادارانہ نظام میں سود سے جھلستی ہوئی انسانی دنیاکوایک اور فاروق اعظم کی ضرورت ہے۔جس طرح قال قال اﷲتعالی اور قال قال رسول اﷲﷺکی صدائیں آج بھی زندہ ہیں،جس طرح آذان بلالی آج بھی تابندہ و درخشندہ ہے اور جس طرح صدیاں گزرچکنے کے باوجود بھی علوم اسلامیہ کے چشمہ ہائے فیض جاری و ساری ہیں اور جس طرح دشمنوں کی لاکھ خنجر زنی و تلوارزدنی کے باوجود بھی مدارس ہائے اسلامیہ میں نسلوں کی سیرابی کاحسین فریضہ سرانجام دینے والے علمائے حق کے قدموں میں استقامت کے پہاڑ باقی ہیں اسی طرح یہ سورج چاند ستارے گواہی دے رہے ہیں کہ فاروق اعظم کا سبق بھی تاریخ بہت جلد دہرانے کو ہے،انشاء اﷲ تعالی۔
جواب دیں