الیکٹرونک میڈیا کی دلچسپی اس طرح کی خبروں میں کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے کئی صحافیوں کو کہتے سنا گیا ہے کہ جو بلتا ہے وہی ہم دکھاتے یا چھاپتے ہیں یا جو شرکاء دیکھنا یا قاری پڑھنا پسند کرتے ہیں وہ دکھانا یا لکھنا ہماری مجبوری ہے ۔سوال یہ ہے کہ عوام کا یہ مزاج کس نے بنایا ؟ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی ہوڑ میں صحافت کو بازار میں کس نے تبدیل کیا ؟ آپ کہہ سکتے ہیں کہ صحافیوں کو مالکوں کی مرضی اور بازار کے مطابق چلنا پڑتا ہے یہیں رک کر یہ سوچئے کہ کیا ہم صحافت کا ایک اوزار (Tool) محض ہیں یا پھر سماج کے لئے ہماری کوئی ذمہ داری بھی ہے ۔
جہاں مرض وہاں علاج کہاوت بہت پرانی ہے لیکن معلومات کی کمی اور مرض سے حفاظت اور علاج سے دور رکھتی ہے مثلا صابن سے ہاتھ دھونے سے کئی بیماریاں پاس نہیں آتی ۔ صٖاف پانی اور صفائی ستھرائی ڈائریا و پیٹ کے امراض سے بچاتا ہے ۔خراب یا آلودہ پانی سے سر کے بال وقت سے پہلے پک یا جھڑ جاتے ہیں دانت جو زندگی کے لئے بہت ضروری ہیں خراب ہو جاتے ہیں کھلے میں رفع حاجت بیماریوں کو دعوت دیتی ہے ۔آلودگی (ہوا ، پانی ، آواز، وغیرہ )
سے پھیپھڑے ، دل ، گردے کی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے ہائی بلڈپریشر ، شوگر ، مٹاپے اور جلد کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں ، کینسر جیسی مہلک بیماری اس کا نتیجہ ہے ۔ ماں کا دودھ بچوں کی نشود نما کے لئے انتہائی اہم ہے متوازن غذا نہ ملنے سے بچے غذائیت کی کمی ( کپوشن ) کاتو حاملہ عورتیں خون کی کمی کا شکار ہوتی ہیں ۔ آئیڈین ملا نمک نہ کھانے سے بچوں کی گروتھ پر خراب اثر پڑتا ہے اور بڑے کئی طرح کی بیماریوں سے دو چار ہو جاتے ہیں ۔سیکس میں احتیاط نہ برتنے سے ایڈ ز جیسی موذی بیماری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ بھارت میں ہر روز لگ بھگ چار ہزار اور سال میں 14لاکھ بچے بچپن میں ہونے والی علاج کے لائق بیماریوں سے موت کا نوالہ بن جاتے ہیں ان میں سے ایک چوتھائی کو تو صرف ٹیکے لگا کر ہی بچایا جا سکتا ہے ۔
انسدادی اقدامات میں ٹیکہ کاری ، سینیٹیشن ، صاف پانی ، صفائی ستھرائی کی ضرورت ہے تو صحت کو بہتر بنانے کے لئے ماں کا دودھ ، متوازن غذآآلودگی سے پاک ماحول اور صحیح علاج بھی ضروری ہے ۔ علاج کو لیکر سماج کئی طرح کی پریشانیوں کا سامنا کررہا ہے کئی معاملے ایسے دیکھے گئے ہیں کہ جس مرض کا علاج کیا گیا کچھ عرصہ بعد دوبارہ اسی کی شکایت سامنے آئی اس کو ٹھیک کرنے کے لئے مریض کو زیادہ پاور کی دوائیں دینی ہوتی ہیں جس کے کبھی کبھی منفی اثرات بھی ہوتے ہیں اکثر اسپتالوں میں ڈاکٹر اینٹی بائیٹک دوائیں اس کے نقصانات کی پرواہ کئے بغیر دے کر مریض کو راحت پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔یہ وقتی راحت مریض کو مہگی پڑتی ہے کیونکہ آرام ملنے کی صورت میں وہ اپنا علاج بیچ میں چھوڑ دیتا ہے کچھ دن بعد وہ پھر بیمار ہوتا ہے تب یہ انٹی بائیٹک دوائیں بھی کام نہیں کرتیں اس لئے علاج ( Treatment) ایسا ہونا چاہیے جو مرض کو پوری طرح ٹھیک کرے تاکہ دوبارہ اس کی واپسی کا کوئی امکان باقی نہ رہے ۔
صحت کے لئے عوام کو بیدار کرنے میں میڈیا کا رول بہت اہم ہے لیکن میڈیا سے جڑے اکثر لوگ سماجی علوم کی تعلیم حاصل کرکے اس پیشہ میں آئے ہیں میڈیکل کی بیک گراؤنٖڈ نہ ہونے کی وجہ سے نہ وہ عوامی صحت کے مسئلوں کی باریکی کو سمجھ پاتے ہیں اور نہ ان کی وکالت ۔ مین اسٹریم میڈیا میں تو پھر بھی صحت کو الگ پہچان (Recognition) دی گئی ہے لیکن ریجنل یا لنگویج میڈیا میں صحت کو کور کرنے کے لئے نامہ نگار یا ڈیسک مخصوص کرنے کا چلن نہیں ہے ۔ الیکٹرونک میڈیا کی ترجیحات (Priorities) میں صحت کو بہت نیچے جگہ دی گئی ہے ۔عام طور پر یہ شکایت کی جاتی ہے کہ ہیلتھ جرنلسٹ نہیں ملتے یا ہیلتھ پر لکھنے والوں کی کمی ہے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صحت پر لکھنے کے لئے ، ڈیٹا یا معلومات دستیاب نہیں ہو پاتیں ۔اس لئے صحت پر اسٹوری کرنا دشوار ہوتا ہے ۔ صحت ایک خشک اور دلچسپ موضوع ہے اس لئے اس کی مانگ کم ہے جبکہ سچائی یہ ہے کہ اگر صحت پر اسٹوری دلچسپ انداز میں کی جائے تو عوام اس پر توجہ دیتی ہے آپ نے دیکھا ہوگا کہ ٹیلی ویژن چینل پر صحت سے متعلق سوالات پوچھنے کا عوام کو موقع دیا جاتا ہے تو اتنے فون کالز آتے ہیں کہ ان کے جواب دینے کے لئے وقت کم پڑ جاتا ہے ۔
عوامی صحت کو فروغ دینے کیلئے عالمی سطح پر مانا جاتا ہے کہ متعدد مضامین کے ماہرین کو ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے ان کا ماننا ہے کہ جب میڈیکل آفیسر معاون میڈیل آفیسر ،ہیلتھ انسپکٹر ، معالج ،( فیزیشن ) ڈاکٹر ، ہیلتھ ورکر ۔ نرسیں ، مڈوائف، اے این ایم ، جانوروں کے ڈاکٹر ، ڈینٹنس ،وبائی بیماریوں کے ماہرین ، ماہر ماحولیات ، نفسیات، سماجیات، سنیٹیشن و ہائجین ، بائیلوجسٹ ،نیو ٹیشین ، وکیل ، انجینئر ، کمیونٹی ڈیولپمنٹ کارکنان اور ماہر مواصلات وغیرہ مل کر کام کریں گے تب بیماریوں پر قابو پایا جا سکے گا ۔ عوام کے رویوں میں تبدیلی آئے گی ۔ بیماریاں پھیلنے سے رکیں گی کئی امراض سے بغیر دوا کے ہی بچا جا سکے گا مثلا ماحول کو صاف رکھ کر ، صابن سے ہاتھ دھو کر ، تازہ کھانا ، صاف پانی ، کنڈوم کا استعمال ، معمول کے ٹیکے لگوانا وغیرہ ۔ یہ معمولی نظر آنے والے عمل لمبی عمر بہتر زندگی میں معاون ہیں ۔
2004میں صحت سے متعلق تیرہ سو خبروں کا جائزہ لیا گیا ماہرین نے ان میں سنگین کمیوں کی نشاندہی کی انہوں نے اپنی رپورٹ میں صلاح دی کہ عوامی صحت کی رپورٹنگ تحقیق و تفتیش کے بعد کی جانی چاہئے ماہرین نے معیاری رپورٹنگ کے لئے صحت پر لکھنے والوں کی ٹریننگ کرنے پر زور دیا انہوں نے کہا کہ صحافی کو خبر کے ذرائع و مواد کی فراہمی کے طریقوں سے واقفیت ہونی چاہئے ۔جہاں بیماری ہو وہان پہنچ کر اس کی خبر لکھنا اچھا عمل ہے لیکن عوام کو بیماری سے بچنے کے طریقہ بتانا ، اندھ وشواسوں اور گلظ فہمیوں کو دور کرنا بھی ضروری ہے ۔
جارج انسٹی ٹیوٹ آف گلوبل ہیلتھ نے ماہرین کے مشوروں کی روشنی میں یونیسیف اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے اشتراک سے ملک کی الگ الگ ریاستوں راجستھان ، مغربی بنگال،اڑیسہ،آسام،پنجاب،گجرات،مہاراشٹروغیرہ میں صھافیوں صحافتی انسٹی ٹیوٹ کے ذمہ داران اور ماہرین صحت کی عوامی صحت کو فروغ دینے کے لئے ورکرنگ جرنلسٹ اور جرنلزم میں کےئر بنانے والوں کی تربیت کے ذیل میں مشاورتی ورکشاپ منعقد کیں ان مٹنگوں میں عوامی صحت کے فروغ میں میڈیا کے رول اس کو حساس بنانا ،اورینٹیشن ، خبروں کے لئے معلومات کی فراہمی کے طریقوں ، شعبہ صحت سے صحافیوں کو معلومات دستیاب کرانے جیسے پہلوؤں پر غور کیا گیا ۔ ورک شاپ میں یہ بات بھی زیر غور آئی کہ تربیتی کورس آن لائن ہو یا باضابطہ کلاسیز لگائی جائیں اور عملی مشق کرائی جائے ، ٹریننگ کی مدت کیا ہو ۔ تربیت پوری ہونے پر سرٹیفیکٹ کون دے ۔ تاکہ اس سرٹیفیکٹ کی پیشہ وارانہ زندگی میں افادیت ہو ۔
حکیم ڈاکٹر یا طبیب جانداروں کی نبض کو اچھی طرح سمجھتے ہیں انہیں ہاتھ پکڑتے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کے پاس آنے والا کس تکلیف میں مبتلاء ہے اسی کے مطابق وہ دوا تجویز کرتے ہیں کبھی کبھی مرض سمجھ میں نہ آنے پر جانچ کرائی جاتی ہے رپورٹوں کا بغور جائزہ لیا جاتا ہے ضرورت کے مطابق زیادہ تجربہ کار یا سینئر ڈاکٹروں سے مشورہ کیا جاتا ہے اسی طرح میڈیا سماجی ڈاکٹر کے طور پر کام کرتا ہے اس کی انگلیاں سماج کی نبض پر ہوتی ہیں وہ سماج کی نقل و حرکت پر نظر رکھتا ہے سماج کی رائے بنانے بگاڑنے میں اس کا دخل ہے میڈیا کی پہنچ دور دراز علاقوں تک ہے میڈیا کی یہ طاقت عوامی صحت میں بہت مفید ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ وہ صحت کی جانکاری کو ساجھا کر پھیلا سکتا ہے غلط فہمیوں کو دور کر ٹیکوں کی مانگ بڑھا سکتا ہے بیداری لا کر بیماریوں سے بچا کر میڈیا اپنے ڈاکٹر ہونے کا کردار ادا کرسکتا ہے اس کی کوششوں سے سماج کی صحت میں سدھار آسکتا ہے بس میڈیا کو احساس کرانے کی ضرورت ہے جارج انسٹی ٹیوٹ کا یونیسیف اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے ساتھ مل کر میڈیا ڈاکٹر تیار کرنے کا منصوبہ میڈیا کو حساس بنانے کی ہی ایک کوشش ہے اس سے بھارت میں عوامی صحت کے تصور کو فروغ ملے گا ۔
صحت اور حفاظت ہر ایک کا بنیادی حق ہے خود کو صحت مند رکھنے کے لئے دوسروں کی صحت کی فکر کرنی ہوں گی عوام کی صحت کی سرگرمیوں میں شمولیت کے بغیر سماج کو صحت مند رکھنے کا خواب پورا نہیں ہو سکتا عوا م کو بیدار کرنے کے لئے میڈیا کو سنجیدگی سے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا میڈیا کی عوامی صحت کے لئے سنجیدگی کا اندازہ اس وقت ہوگا جب ٹیکہ کاری کی خبر اخبار کے پہلے صفحہ پر یا پرائم ٹائم میں جگہ پائے گی وہ دن منزل کی طرف کامیابی کا پہلا قدم کہلائے گا ۔۔
جواب دیں