نواب علی اختر
بی جے پی زیر قیادت مرکزی حکومت مسلسل بنیادی مسائل کو نظر انداز کرکے ایسے تنازعات کوہوا دے رہی ہے جس سے کسانوں، بیروزگاروں، کارو باریوں، نوجوانوں اور خواتین کی آوازکو آسانی سے دبایا جاسکے۔ کشمیر کو خصوصی اختیارات فراہم کرنے والے آرٹیکل 370 کوغیرمو ثرکیے جانے کے سبب اٹھے عوامی طوفان کوٹھنڈا کرنے کی کوشش کے ساتھ شروع ہوا سلسلہ اب گوڈسے نواز سادھوی پرگیہ تک پہنچ چکا ہے جس کی وجہ سے حکمراں پارٹی کواپنا منہ چھپانا مشکل ہوگیا ہے۔ مہاراشٹرا میں جس دیدہ دلیری کے ساتھ حکومت اور دستوری عہدوں پر فائز گوشوں کی جانب سے رات کے اندھیرے میں جمہوریت کا قتل کیا گیا اور اقتدار کی ہوس و لالچ کا مظاہرہ کیا گیا اس نے سارے صحیح العقل افراد کو متحیر کردیا۔ جنگ کی اصطلاح میں شب خون کا لفظ تھا تاہم مہاراشٹرا میں علی الصبح ڈاکہ زنی ہوئی اور یہ سب دستور اور قانون کے محافظوں کی جانب سے کیا گیا۔
وہیں ملک کی معیشت بدحالی کا شکار ہے، جی ڈی پی کی شرح گزشتہ سہ ماہی میں 5 فیصد سے گھٹ کر 4.5 فیصد پر آ گئی ہے۔ پچھلی 26 سہ ماہی میں یہ سب سے خراب کارکردگی ہے۔ وزیراعظم نریندرمودی کی طرف سے 2016 میں نوٹ بندی کے وقت کہا گیا تھا کہ اس کے دور رس نتائج اچھے ہوں گے۔ تین سال بعد جی ڈی پی کے گرتے نمبر کو کیا نوٹ بندی کا دور رس نتیجہ کہا جا سکتا ہے؟ 6 سال میں ہندوستان کی جی ڈی پی اتنی کم کبھی نہیں ہوئی تھی۔ مودی کے اس فیصلے سے عام لوگوں میں پیدا ہوئی ناراضگی آج تین سال بعد بھی کم نہیں ہوسکی ہے۔ نوٹ بندی سراسر ایک بوگس فیصلہ تھا۔ معیشت کو داؤ پر لگا کر عوام کی نفسیات سے کھیلا گیا۔ اسی وقت سمجھ میں آ گیا تھا کہ یہ معیشت کی تاریخ کا سب سے زیادہ بوگس فیصلوں میں سے ایک ہے لیکن پھر کھیل کھیلا گیا۔ کہا گیا کہ دور رس نتائج ہوں گے۔ تین سال بعد ان دور رس نتائج کا پتہ نہیں ہے۔
اب تجزیہ نگاروں کو جھانسہ دیا جا رہا ہے کہ حکومت نے جو اصلاحات کیے ہیں ان کا نتیجہ آنے میں وقت لگے گا۔ پھر سے دور رس والی بوٹی پلا رہے ہیں، یہ کون سی اصلاحات ہیں جو پہلے معیشت کو صفر کی طرف لے جاتی ہیں اور وہاں سے اوپر آنے کا خواب دکھاتی ہیں۔ ساڑھے پانچ سال جملے بازی میں ہی گزر گئے، اس کا نقصان ایک نسل کو اٹھانا پڑا، جو گھر بیٹھا وہ کتنا پیچھے چلا گیا۔ حکومت کے پاس اقتصادی محاذ پرجملے بازی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ معیشت کاحال برا ہے۔ کبھی نہ کبھی توسب ٹھیک ہو ہی جاتا ہے لیکن ہر سہ ماہی کی رپورٹ بتا رہی ہے کہ یہ حکمرانوں سے سنبھل نہیں رہی ہے۔ یہ چند مسائل ایسے ہیں جو کسی بھی جمہوری ملک کی حکومت کے خاتمہ کا سبب بن سکتے ہیں مگرمودی حکومت بڑی ڈھٹائی سے ان مسائل پر عام کو الجھانے میں مصروف ہیں۔ 2014 سے اب تک یہی دیکھا گیا ہے کہ حکومت کی ناکامی کے خلاف چاروں طرف سے لوگ آواز اٹھانے لگیں تبھی کوئی ایسا شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے جس سے عوام الجھن کا شکارہو کرتمام مسائل بھول کرتازہ ایشو پر اپنا دھیان مرکوز کرلیتے ہیں جس سے حکومت کو آسانی سے اپنی منمانی کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔
اسی کڑی میں تازہ معاملہ شہریت ترمیمی بل کا اٹھایا جارہا ہے جو یقیناً ملک میں این آرسی کے دوروازے کھولے گا۔ مودی حکومت مسلسل ایسے قوانین کو ہوا دے رہی ہے جس سے اس کے سیاسی ایجنڈہ کی تکمیل ہوتی ہے۔ خاص طور پر اپنی دوسری میعاد میں مودی حکومت مخالف مسلم ایجنڈہ پر زیادہ زور ہے کیونکہ عوام معاشی سست روی اور روزگار کے شدید بحران سے ناراض ہے۔ انہیں بنیادی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹاتے ہوئے اپنے سیاسی استحکام کے لئے حکومت پورا زور لگائے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہریت ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش کرنے اور منظور کروانے کی کوشش تیز کردی گئی ہے۔ وزیر داخلہ و بی جے پی صدر امت شاہ اکثر کہتے رہے ہیں کہ شہریت ترمیمی بل کے ذریعہ پہلے ہندووں، سکھوں، عیسائیوں، پارسی اور جین برادری کے افراد کو ہندوستان کی شہریت دی جائے گی۔ اس طرح یہ واضح طور پر اعلان ہے کہ این آر سی ہو یا پھر شہریت ترمیمی بل ، یہ سب کچھ ہندو ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کے لئے مسلمانوں کے خلاف حکومت کے ایجنڈہ کا ایک حصہ ہے اور حکومت ہر قیمت پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ طلاق ثلاثہ کا مسئلہ ہو، یکساں سول کوڈ ہو یا پھر شہریت ترمیمی بل، حکومت صرف اور صرف ملک کی دوسری سب سے بڑی آبادی یعنی مسلمانوں کو ہی نشانہ بنا رہی ہے۔
امت شاہ اعلان کرتے ہیں کہ اس بل کے ذریعہ سوائے مسلمانوں کے ہر ایک کو شہریت دی جائے گی۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ حکومت مذہب کی اساس پر کام کر رہی ہے جبکہ ملک کے دستور اور قانون میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ایسا کرنا ملک کے دستور اور قانون سے مذاق کرنے اور کھلواڑ کرنے کے مترادف ہی ہے۔ اگر کہیں مسلمانوں کو ان کی معاشی اور سماجی و تعلیمی غربت کی اساس پر تحفظات کی بات کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ تحفظات مذہب کے نام پر نہیں دیئے جاسکتے۔ تاہم جب انہیں نشانہ بنانے کا منصوبہ ہوتا ہے تو خود حکومت مذہب کی اساس پر کام کرنے سے گریز نہیں کرتی۔ یہ حکومت کا دوہرا معیار ہے اور اس کے ذریعہ بی جے پی اپنے اور آر ایس ایس کے ایجنڈے کی تکمیل میں جٹی ہوئی ہے۔ ایسے وقت میں جب ملک انتہائی مشکل معاشی دورسے گزر رہا ہے، عوام کی قوت خرید کم ہوتی جا رہی ہے، روزگار کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں، صنعتیں بند ہو رہی ہیں، مجموعی گھریلو پیداوار کی شرح گھٹ گئی ہے۔ ایسے میں ان مسائل پر توجہ دینے کی بجائے حکومت صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے ایجنڈے پر گامزن ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت کو ملک کے مسائل سے یا پھر عوام کی پریشانیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ صرف سنگھ کے ایجنڈہ کی تکمیل ہی کو اپنا فریضہ سمجھنے لگی ہے۔
وزیرداخلہ ایک طرف 2014 تک باہر سے آنے والے غیر مسلموں کو شہریت دینے کی وکالت کر رہے ہیں اور دوسری طرف ان کی پارٹی کے لیڈران 1951 کو بنیاد بنا کر این آر سی بنانے کی بات کر رہے ہیں۔ یعنی این آر سی کی زد میں صرف اور صرف مسلمان ہی آئے گا جو کہ سراسر نا انصافی ہے۔ حکومت کہہ رہی ہے کہ شمال و مشرق کی جن ریاستوں کو دفعہ 371 کے تحت خصوصی درجہ حاصل ہے اس سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی، اسی طرح قبائلیوں کے حقوق کی بھی رعایت کی جائے گی تو اس کا مطلب ہے کہ اس بل سے صرف اور صرف مسلمانوں اور آسام کے لوگوں کو نقصان ہونے والا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مرکزی حکومت اس بل کو کسی بھی حال میں پارلیمنٹ سے پاس کروانا چاہ رہی ہے، اگر ایسا ہوا تو یہ ہندوستانی جمہوریت کے لئے ایک سیاہ دن کے طور پر یاد کیا جائے گا۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں