عوام اب کانگریس کے بارے میں سوچ رہے ہیں

حفیظ نعمانی

ملک میں ہونے والے الیکشن پورے ہوگئے اور ایک بات کھل کر سامنے آئی کہ ہندوستان کے عوام نے وزیرداخلہ امت شاہ کو پسند نہیں کیا۔ اور جہاں جہاں بی جے پی ہاری وہ امت شاہ کی وجہ سے ہی ہاری ہے۔ وزیراعظم اور وزیرداخلہ کا فرق اس سے دیکھا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ہریانہ کے وزیراعلیٰ منوہر لال کھٹر کو مبارکباد دی اور کہا کہ انہوں نے کوئی تجربہ نہ ہونے کے باوجود بہت اچھی حکومت کی۔ اور امت شاہ نے انہیں بری طرح پھٹکارا اور ایسے ہی دہلی بلایا جیسے نااہلوں کو کان گوشی کے لئے دربار میں بلایا جاتا ہے اور ان کے اس مزاج کی بناء پر عوام ان کو پسند نہیں کرتے۔
بی جے پی کی یہ عادت ہے کہ وہ ہار کو بھی جیت کہتی ہیں انہوں نے کرناٹک میں جب ان کو آٹھ سیٹیں کم ملی تھیں تب بھی جاکر جشن منایا تھا اور عوام کا شکریہ ادا کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو دوسرے کے بھرشٹاچار سے بہت تکلیف ہوتی ہے اور اپنا ہر قدم بھرشٹاچار میں رکھتے ہیں۔ اسی کرناٹک میں جب ان سے کچھ نہ بن سکا تو انہوں نے بھرشٹاچار کا سہارا لیا اور کانگریس کے ممبروں کو خریدا نہیں بلکہ ان سے کہا کہ تم استعفیٰ دے دو تاکہ حکومت اکثریت ٹھکرادے پھر اس کو گرادو۔ اور یہی ہوا کہ پندرہ ممبروں سے استعفے دلوادیئے بات دیکھنے کی یہ ہے کہ ان کو کتنا کتنا روپیہ دیا۔ ظاہر ہے یہ بات نہ مودی جی بتائیں گے نہ امت شاہ بتائیں گے اور نہ وہ ممبر بتائیں گے جنہوں نے غداری کی ہے۔ بس ایک کی زبان سے نکل گیا کہ اس نے آٹھ کروڑ کی گاڑی خریدی ہے جو سڑک پر آتے آتے گیارہ کروڑ کی ہوجائے گی اس کے بعد اگر کوئی کہے کہ ہندوستان کا سب سے بڑا بھرشٹاچار کرناٹک میں حکومت بنانے کے لئے مودی جی نے کیا ہے تو کیا غلط ہوگا؟ اتنا روپیہ صرف وزیراعظم دے سکتے ہیں۔
ہریانہ میں بھی چھ سیٹیں کم ہیں اور آزاد ممبر بھی ہیں جو کھڑے ہی اس لئے ہوتے ہیں کہ جیت گئے تو پھر جو من چاہے گا وہ لیں گے مودی جی ان کو خریدیں گے اور روپئے کا جہاں تک تعلق ہے تو وہ حکومت بنانے کے لئے گن کر نہیں دیئے جائیں گے بلکہ تول کر دیئے جائیں گے اب یہ آزاد ممبر کے اوپر ہے کہ وہ ایک کلو میں مان جائے یا پانچ کلو میں وہ جو مانگے گا اسے ملیں گے کیونکہ بادشاہ سلامت اپنے اقتدار سے ایک صوبہ کیا ایک ضلع بھی نہیں نکلنے دیں گے۔
مہاراشٹر اور ہریانہ کے انتخابات میں شاید کانگریس کے لیڈروں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ووٹ تو مودی جی کو ہی ملیں گے ہم لڑکر کیا کریں گے۔ ہر طرف سے شکایت آئی کہ نہ تو اُمیدواروں کو پیسے دیئے اور نہ ان کی مدد کے لئے لیڈر آئے۔ ہم نے بھی بس دو چار جگہ راہل گاندھی کو بولتے ہوئے دیکھا اور ایک بار ہریانہ میں غلام نبی آزاد بھی نظر آئے تھے جبکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ اپنی پوری طاقت لگادیتے اور بینک میں جتنے روپئے ہیں وہ سب پھونک دیتے اور صدر سونیا گاندھی کو اسی اعلان کے ساتھ لایا جاتا کہ وہ ایک ماں کی طرح آگئی ہیں تقریر نہیں کریں گی بس اپنے امیدواروں کو دعا دے کر چلی جائیں گی۔ اور راہل گاندھی، پرینکا گاندھی، سندھیا اور پائلٹ اور مدھیہ پردیش و راجستھان کے وزیراعلیٰ کو جھونک دیا جاتا تو دونوں صوبوں میں صرف کانگریس ہوتی۔ عوام نے جتنے ووٹ کانگریس کو دیئے ہیں اس کے ذریعہ ثابت کردیا کہ اب مودی اور امت شاہ سے دل بھر گیا اب پھر گاندھی جی کا چرخہ ہی چلے گا۔
پرینکا گاندھی نے کہا کہ وہ اترپردیش کی گیارہ سیٹوں پر ضمنی الیکشن میں اپنے اُمیدواروں کی مدد کررہی ہیں۔ اللہ جانے دونوں بھائی بہنوں کو کیا ہوگیا ہے کہ پورے ملک کو چھوڑکر صرف اُترپردیش سے سر پھوڑ رہے ہیں اور کوئی ان کو نہیں سمجھاتا کہ اگر ملک کے دوسرے صوبے کانگریس کے پاس آگئے تو اترپردیش خودبخود آجائے گا۔ وہ دونوں اترپردیش کو چھوڑکر پورے ہندوستان کو دیکھیں۔ ان کو اس سے اندازہ کرنا چاہئے کہ ہلدی لگی نہ پھٹکری ہریانہ میں 31  سیٹیں مل گئیں جب عوام میں یہ جوش تھا کہ انہوں نے بی جے پی کو ٹھکرا دیا تو وہ لیڈروں کے آنے سے کیوں نہ اتنے ووٹ دیتے کہ کانگریس کی حکومت آرام سے بن جاتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ احمد پٹیل یہ سمجھا دیں کہ یہ ضد چھوڑدیں کہ پہلے اترپردیش لیں گے پھر آگے بڑھیں گے اور یہ ہماری پیشین گوئی ہے کہ دس پندرہ برس اترپردیش انہیں نہیں ملے گا۔ اب اگر کانگریس کو بچانا ہے تو راہل گاندھی کو پھر صدر بنایا جائے اور وہ ہر لیڈر کو پابند کریں کہ معرکہ کے وقت وہ میدان میں آئیں اور پارٹی کا حق ادا کریں سلمان خورشید کی طرح رونا بند کریں۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

27اکتوبر2019(فکروخبر)
 

«
»

نبی اکرمؐ کی مکّی زندگی اور مصائب وآلام

انصاف کے مندر میں ایک تاریخی مسجد کا کیس کیا سچائی دیکھ پائے گااندھاقانون؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے