جس کے بارے میں تین دن پہلے کی خبر میں آپ نے بھی پڑھا ہوگا کہ بہار کے ایک شہر میں پولیس کے افسروں اور سپاہیوں کو ہندوؤں نے مار مارکر لہولہان کردیا اور جب بہادر پولیس نے ہوائی فائر کئے تو ہندوؤں کا مشتعل مجمع انہیں مارتا ہوا دو کلومیٹر تک دوڑاتا رہا اور وہ بہادر بھاگتے رہے اور بھاگتے رہے۔ اگر کہیں دوڑانے والے مسلمان ہوتے تو ان میں سے زیادہ تر قبروں میں دفن ہوچکے ہوتے۔
آج 35 برس ہوگئے۔ کم عقل مسلمان انصاف کے لئے بھٹک رہے ہیں اور انہیں آج بھی توقع ہے کہ انہیں انصاف مل جائے گا اس لئے کہ دستور نام کی ایک کتاب جسے انتہائی شاطروں اور ماہروں نے لکھی ہے اس میں فریب دینے اور دنیا کو دکھانے کے لئے لکھ دیا ہے کہ ملک میں سب برابر ہیں۔
آج ایک لمبی چوڑی خبر 13 اگست کو مراد آباد کی عیدگاہ کو خون میں نہلانے اور مسلمانوں کو ان کا پیتل کا کاروبار ان سے چھین کر انہیں محتاج بنانے کی چھپی ہے اور دوسری چھوٹی سی خبر 1984 ء میں ہزاروں سکھوں کو مارنے کے بعد سونے چاندی اور ہیرے جواہرات سے ان کے زخم بھرنے اور اس وقت سے اب تک ہر سال کسی نہ کسی عنوان سے بھرنے کی ہے۔ یہ سکھوں کا غصہ کم کرنے کے لئے دس برس تک رہ رہ کر کانگریس کرتی رہی۔ اس لئے کہ سکھوں کو قتل کرانے کا الزام اسی پر تھا۔ پھر جب مودی سرکار آئی تو اس نے بھی ’’بازوئے شمشیر زن‘‘ سکھوں کی خوشی خریدنے کے لئے ہر متاثر خاندان کو پانچ پانچ لاکھ دینے کا اعلان کیا۔ اور اب دہلی صوبہ کے وزیر اعلیٰ کجریوال نے اعلان کیا ہے کہ مودی صاحب نے ڈنڈی ماری ہے اور سب کو اعلان کے مطابق نہیں دیا۔ اس لئے اب ہم اپنے بجٹ ان کو دیں گے جو محروم رہ گئے۔
جہاں تک کجریوال کا تعلق ہے وہ تو 35 برس پہلے اسکول میں پڑھ رہے ہوں گے اور یوں بھی وہ سردار منموہن سنگھ کی یا مودی صاحب کی طرح وزیر اعظم نہیں ہیں بلکہ کارپوریشن کے میئر سے تھوڑا بڑے وزیراعلیٰ ہیں۔ وہ اگر دہلی کے سکھوں کو اپنانا چاہ رہے ہیں تو وہ ضرور تقسیم کریں۔ کجریوال کے اقتدار کے دائرے میں مراد آباد نہیں آتا۔ اس وقت اُترپردیش کے وزیر اعلیٰ راجہ وی پی سنگھ تھے اور وزیر اعظم اندرا گاندھی تھیں جو خود تو مراد آباد کیا آتیں انہوں نے راجہ صاحب کو بھی نہیں جانے دیا۔
اس زمانہ میں قاضی جلیل عباسی صاحب اسٹیٹ منسٹر تھے۔ انہوں نے ہمیں فون کیا کہ کل ہمارے ساتھ مراد آباد چلو۔ مولانا مظفر حسین کچھوچھوی، ایم پی مولانا حبیب الرحمن نعمانی، ڈپٹی منسٹر بھی چل رہے ہیں۔ ہم نے عرض کردیا کہ آپ کو شہر میں جانے کون دے گا؟ قاضی صاحب نے فرمایا کہ مجھے وزیر اعلیٰ نے خود کہا ہے کہ مراد آباد جاکر حالات بہتر بنانے میں مدد کیجئے۔ ہم نے پھر بھی مخالفت کی لیکن ان کے اصرار سے مجبور ہوکر چل پڑے۔ لکھنؤ دہلی میل تین بجے رات میں مراد آباد پہونچ گئی۔ قاضی صاحب نے اپنے سکریٹری کو حکم دیا کہ ریسٹ ہاؤس میں بستر لگواؤ۔ انہوں نے واپس آکر جواب دیا کہ ہر بستر پر بی ایس ایف کے جوانوں کا قبضہ ہے۔ قاضی صاحب نے پھر ان سے کہا کہ اسٹیشن کے باہر دیکھو ڈی ایم نے گاڑیاں بھیجیں ہوں گی۔ وہ آدھے گھنٹے کے بعد آئے اور جواب دیا کہ وہاں تو رکشہ بھی نہیں ہے۔
پھر مولانا مظفر میاں نے قیادت اپنے ہاتھ میں لے لی اور جی آر پی میں بیٹھ کر ڈی ایم اور ایس پی کو فون پر فون کرتے رہے۔ گھر کیا تو جواب ملا باہر ہیں کوتوالی کیا تو جواب ملا گھر پر ہیں۔ یہاں تک کہ نماز پڑھ لی گئی۔ پوری اور چائے کا ناشتہ بھی کرلیا اور پھر ٹیلیفون کیا تو پھر وہی جواب۔ ’’باہر ہیں گھر پر ہیں۔‘‘ مولانا کو جلال آگیا۔ انہوں نے کوتوال سے کہا کہ میں مظفر حسین ایم پی، قاضی جلیل عباسی وزیر اور حبیب الرحمن نعمانی وزیر، حفیظ نعمانی صحافی اسٹیشن سے نکل کر پیدل کوتوالی آرہے ہیں۔ تم کرفیو کی خلاف ورزی میں ہم سب کو گرفتار کرکے دکھاؤ؟
مولانا کے ان تیوروں سے کوتوالی ہل گئی اور سر بس دس منٹ مولانا بس دس منٹ ہم آرہے ہیں کی آواز آئی۔ اور واقعی دس منٹ میں ایک گاڑی میں ایس ڈی ایم اور مسلح گارڈ اور دو کاریں ہم لوگوں کے لئے۔ پھر وہ ہم سب کو شہر سے سب سے دور پی ڈبلیو ڈی گیسٹ ہاؤس لے گئے اور خاطریں شروع ہوگئیں۔
قاضی صاحب نے کہا کہ ہم شہر میں جانا چاہتے ہیں۔ اہم لوگوں سے ملاقات کرکے ماحول کو ٹھیک کرنا ہے۔ انہوں نے تعجب سے کہا کہ شہر میں؟ اچھا ہم گاڑی بھیجتے ہیں اور پھر دوپہر کا کھانا ہوگیا۔ گاڑیاں آرہی ہیں۔ آرام کرلیجئے گاڑیاں آرہی ہیں۔ شام کی چائے پی لیں گاڑیاں آرہی ہیں۔ مولانا سمجھ گئے کہ بے وقوف بنا رہے ہیں۔ وہ حافظ صدیق ایم پی کے ساتھ ان کی گاڑی میں شہر چلے گئے اور دونوں وزیر اور ہم ایک گاڑی میں بٹھاکر اسٹیشن پہونچا دیئے گئے کہ حالات معمول پر آجائیں تو ہم آپ کو شہر لے چلیں گے۔ ہم نے جب قاضی صاحب کی طرف دیکھا تو انہوں نے فرمایا کہ وزیر ہونے کی حیثیت سے ہمارے اوپر دوسرے قسم کی ذمہ داری ہوتی ہے اور ہم نے جواب دیا کہ ہم اسی لئے آپ کو روک رہے تھے کہ شہر میں آپ کو جانے کون دے گا؟
مراد آباد سے واپس آکر ہم نے عزائم میں ایک مضمون لکھا تھا ’مراد آباد کارتوس میں بند ہے۔ وہ مضمون مولا نے خون جگر سے ایسا لکھوا دیا تھا کہ ہندوستان میں بھی کئی جگہ چھپا اور لندن سے نکلنے والے ایک اہم رسالے IMPACT (امپیکٹ) نے بھی بڑے اہتمام سے چھاپا تھا۔
ہم اس کے بعد اپنے طور پر پر بار بار گئے۔ ہمارے قریبی عزیز بھی وہاں تھے۔ اور دوست بھی تھے۔ ہم نے جو کچھ دیکھا اس کی وجہ سے بار بار لکھا کہ خدا کے لئے انصاف کی بھیک نہ مانگو۔ اس ملک میں تمہارے لئے نہ انصاف ہے اور نہ نقصان کا معاوضہ۔ آج 35 برس کے بعد یہ خبر پڑھ کر کہ ’شہیدوں کے وارث آج بھی انصاف کے لئے بھٹک رہے ہیں ان کی معصومیت پر پیار آیا کہ آخر وہ کیوں نہیں سمجھتے کہ دستور بھی ایسی ہی ردّی میں بکنے والی کتاب ہے جیسے جسٹس لبراہن کی بابری مسجد کی شہادت کی رپورٹ اور جسٹس سری کرشنا کی ممبئی میں دو ہزار مسلمانوں کے قتل کی رپورٹ اور قاتلوں کے نام اور مراد آباد، میرٹھ، بھاگل پور، جمشید پور اور سیکڑوں مسلم کش فسادات کی رپورٹیں۔
تین سال پہلے مراد آباد سنبھل کا ضلع تھا ہمیں وہاں کے حالات معلوم ہیں۔ وہاں یا میرٹھ میں یا علی گڑھ میں یا بھاگل پور میں یا ہر اس جگہ جہاں کی صنعت مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی۔ مسلمانوں کے ساتھ خون کی ہولی اسی لئے کھیلی ہے کہ وہ بھکاری ہوجائیں۔ اور یہ دیکھ کر اندرا گاندھی سے راہل گاندھی تک سب کا کلیجہ ٹھنڈا ہوگیا کہ اب ان شہری کے صنعت کار اور کاریگر رکشہ یا ٹیکسی چلا رہے ہیں۔
ہر سال 15 اگست آتی ہے اور ہر سال 13 اگست بھی آتی ہے۔ مراد آباد کے مسلمان کیا جشن آزادی منائیں جب وہ عیدالفطر کا جشن بھی نہ مناسکے۔ وہ 13 اگست صرف عیدگاہ میں تڑپتی لاشوں کی ہی سالگرہ نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے بھکاری ہونے اور درجنوں لڑکیوں کے بیوہ ہونے اور سیکڑوں بچوں کے یتیم ہونے کی بھی سالگرہ ہے اور مسلمانوں کے لئے اندرا گاندھی کی فرعونیت کی بھی سالگرہ ہے۔
بات ہم نے شروع کی تھی معاوضہ کی تو مسلمانوں کو یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ سکھ تعداد میں بہت کم ہیں لیکن وہ فوج میں بھی بہت بڑی تعداد میں ہیں پولیس میں بھی صرف پنجاب میں نہیں پورے ملک میں ہیں تلوار رکھنے کا انہیں مذہبی حق ہے کرپان تو عورتیں بھی رکھتی ہیں اور ہر صاحب حیثیت سکھ کے پاس کوئی نہ کوئی ہتھیار ہے۔ اگر ان کی تعداد کو دیکھا جائے تو 20 کروڑ مسلمانوں کے پاس اتنے نہیں ہوں گے جتنے مٹھی بھر سکھوں کے پاس ہیں۔ راجیو گاندھی اور سونیا نے انہیں اتنا دیا ہے جو شاید ہر کسی کو 25 لاکھ کے قریب مل چکے ہوں گے۔ اس کے بعد اب مودی بھی اور کجریوال بھی ان کو ہی دے رہے ہیں جبکہ گجرات کے قتل عام کے لئے وہ بھی نشانہ پر ہیں۔
میرٹھ کے گناہگار راجیو گاندھی تھے اور مراد آباد کی اندرا گاندھی۔ اگر انہیں معاوضہ ہی دینا ہوتا تو دونوں شہروں کو ماں بیٹے تباہ کیوں کرتے۔ ہم اپنے بھائیوں سے یہ کہیں گے کہ مرے پیارو صبر کرو بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ صرف اسی سے انصاف مانگو اور اسی سے معاوضہ جس نے کہا ہے۔ ’ویرزقہم من حیث لایحتسبُ’‘ وہ وہاں سے رزق دے گا جہاں سے وہم و گمان بھی نہیں ہوگا۔(یو این این)
جواب دیں