عورتوں پر زیادتی کیلئے گلوبلائزیشن ذمہ دار

قومی خواتین کمیشن کی ایک رپورٹ میں عورتوں پر دن بدن پڑھتی زیادتی کیلئے گلوبلائزیشن اور کھلی اقتصادیات کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس دور میں عورتوں کی خرید وفروخت کا بازار تیزی سے بڑھا ہے، جس کی وجہ سے ہندوستان میں سیاحوں کی سیکس سرگرمیاں بھی بڑھ رہی ہیں کمیشن نے پچھلے کچھ برسوں میں مردوں کے مقابلہ عورتوں کی آبادی کا تناسب کم ہونے اور عورتوں کے خلاف جرائم مثال کے طور پر عصمت دری، اغوا، چھیڑ چھاڑ وغیرہ کی وارداتیں بڑھنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا، کمیشن کا تجزیہ ہے کہ اس کی بنیادی وجہ اقتصادی طور پر متمول ہونے کیلئے دیہاتوں ، قصبوں اور چھوٹے شہروں سے کافی تعداد میں مواقع کی تلاش وجستجو میں عورتوں کی بڑے شہروں کی طرف آمد ہے، لڑکیوں کے تناسب میں کمی اور عالمیت (گلوبلائزیشن ) کی پالیسی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا ایک نئے قسم کا ماحول بھی ہے، جہاں عورتوں کو صرف استعمال کی شئے تصور کیا جارہا ہے۔ 
ہندوستان میں اقتصادی آزاد روی کے نافذ ہونے کے۲۲۔۲۴ سال بعد عورتوں کے تعلق سے گلوبلائزیشن اور کھلی اقتصادیات کے بارے میں کیا گیا یہ تبصرہ نہ صرف قابلِ غور بلکہ تشویشناک بھی ہے۔ قومی خواتین کمیشن کی مذکورہ رپورٹ میں گلوبلائزیشن کے اس دور میں آدیباسی خواتین کے جنسی استحصال، تامل ناڈو، آندھرا اور کرناٹک ریاستوں میں جسم فروشی کی بڑھتی لعنت نیز پورے ملک میں عورتوں کے خلاف جرائم کے گراف میں غیر معمولی اضافہ پر تشویش ظاہر کی گئی ہے، ہندوستان جسے جمہوری ملک میں جہاں درج فہرست ذات اور قبائل کے لوگوں کو سماجی تحفظ فراہم کرنے کیلئے انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کا انتظام ہے ، وہیں نوتشکیل آدیباسی اکثریت کے حامل جھارکھنڈ میں تقریباً ۵۰ فیصد نوکر پیشہ آدیباسی خواتین کے کام کرنے کے مقامات پر اپنے افسروں کے ہاتھوں جنسی استحصال کا شکار بننے کی خبریں مل رہی ہیں۔
کسی حد تک اس دعوے میں سچائی ہے کہ گذشتہ چند سالوں کے دوران خواتین کے طرز حیات میں تبدیلی آئی ہے اور انہوں نے مختلف شعبوں میں اپنی موجودگی کا ثبوت دیا ہے ، ان میں سیاسی وسماجی بیداری بھی آئی ہے، لیکن قومی خواتین کمیشن کی رپورٹ نے ان کی زندگی پر گلوبلائزیشن کے ہونے والے جن منفی اثرات کی نشاندہی کی ہے وہ اقتصادی آزار روی کے علم برداروں کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے ۔ درحقیقت گلوبلائزیشن یا کھلی اقتصادیات کو صرف اس نظریہ سے نہیں دیکھا جاسکتا کہ اس کے وسیلہ سے ٹیکنالوجی کا تبادلہ ہورہا ہے دنیا گلوبل گاؤں بن رہی ہے، کال سینٹر روزگار کے مواقع فراہم کررہے ہیں، ہندوستانی دوشیزائیں حسینۂ عالم کا خطاب حاصل کررہی ہیں، بلکہ اس کے اثرات ہندوستانی معاشرے یا عام خواتین پر کیا پڑرہے ہیں ، یہ بھی اندازہ لگانا چاہئے، گلوبلائزیشن کی اس ہوا سے عورت کا فائدہ ہورہا ہے یا نقصان، آج بازار کی جو معیشت وسعت اختیار کررہی ہے، اس میں عورت کا استعمال تو خوب ہورہا ہے کہیں اشتہارات کے ذریعہ ، کہیں مال فروخت کرنے والی کی حیثیت سے لیکن اس کا وقار واحترام دن بدن کم ہورہا ہے۔
دوسری طرف عورت پر ہونے والا خانگی ظلم وتشدد بھی بڑھ رہا ہے لیکن وہ بڑے اخبارات کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے سے قاصر ہے عام عورتیں تعلیم اور تغذیہ کی کمی کی شکار ہیں انہیں اپنے سماج اور خاندان سے خاطر خواہ مدد نہ ملنے سے وہ مختلف مظالم کو خاموشی سے سہہ لیتی ہیں اگر ہندوستان میں مستقبل کے معاشرہ کو بہتر بنانا ہے تو آج کی ماں اور اس کی لڑکیوں کی صحت اور تعلیم پر توجہ دینا پڑے گی کیونکہ اس کی گو دمیں پلنے والا بچہ خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان کل کا شہری اسے بنتا ہے۔

«
»

کیا ہندوستان فاشزم کے راستے پر جارہا ہے؟

مسلمان صحابۂ کرام کو نمونۂ عمل بنائیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے