عورتوں کے حقوق قرآن اور سنت نبوی کی روشنی میں

عالمی یوم خواتین کے موقع پر ایک خاص پیشکش

نعیم الدین فیضی برکاتی، ریسرچ اسکالر

    اسلام دین فطرت ِانسانی کا مظہر ہے جس کی تعلیمات کے مطابق بنیادی حقوق کے لحاظ سے سب انسان برابر ہیں۔ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے اور تمام انسان آدم کی اولاد ہیں۔اس لحاظ سے اسلام میں جنس کی بنیاد پر عورت و مرد کی کوئی تفریق نہیں۔مگر تاریخ گواہ ہے کہ ایک عرصہ دراز سے عورت مظلوم چلی آرہی ہے۔یونان،مصر،عراق،چین،ہندوستان الغرض ہر قوم میں اور ہر خطہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی،جہاں عورتوں پر ظلم کے پہاڑ نہ توڑے گیے ہوں۔لوگ اسے اپنے عیش وعشرت کی غرض سے خرید وفروخت کرتے اور ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی بدتر سلوک کرتے تھے۔اہل عرب عورت کے وجود کو شرم وعار کا باعث تصور کر تے تھے اور لڑکیوں کو ززنددہ در گور کردیتے تھے۔ہندوستان میں شوہر کی چتا پر اس کی بیوہ کوبھی جلا دیا جاتا تھا۔واہیانہ مذاہب میں عورت کو گناہ کاسرچشمہ،معیصت کا دروازہ اور پاپ کا مجسمہ خیال کیا جاتا تھا۔دنیا کی اکثر تہذیبوں میں اس کی سماجی حیثیت نہیں تھی۔اسے حقیروذلیل نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔اس کو سیاسی اورسماجی حقوق سے محروم رکھا جاتا تھا۔عورت کو آزادی رائے کا حق تک نہیں تھا۔وہ باپ کی پھر شوہر کی اور اس کے بعد اولاد نرینہ کے تابع اور محکوم تھی۔اس کی کوئی اپنی مرضی نہیں تھی اور نہ ہی اسے کسی پر اقتدار حاصل تھا۔یہاں تک کہ اسے چارہ جوئی کا حق بھی حاصل نہیں تھا۔
    لیکن اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے عورت پر احسان عظیم کیااور اس کو ذلت ورسوائی کے عمیق گڑھوں سے نکالا۔جب کہ وہ اس کی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔اس کے وجود کو گوارا کرنے سے بھی انکار کیا جارہا تھا۔ایسے وقت میں جب نبی کریمﷺرحمۃ للعلمین بن کر تشریف لائے توجہاں پوری انسانیت کو ظلم و عدوان کی آگ سے بچایا وہیں عورت کو بھی اس بھیانک دلدل سے نکال کر اس زندہ دفن ہونے والی عورت کو بے پناہ حقوق عطا کیے اور قومی اور ملی زندگی میں ایک عورت کی کیاا ہمیت ہے، اس کو سامنے رکھ کر اس کی فطرت کے مطا بق اس کو ذمہ داریاں سونپیں۔
    مغربی تہذیب بھی عورت کو کچھ حقوق دیتی ہے،مگر عورت کی حیثیت سے نہیں،بلکہ یہ اس وقت اس کوعزت دیتی ہے جب وہ ایک مصنوعی مرد بن کر ذمہ داریوں کابوجھ اٹھانے پر تیار ہو جائے۔مگر نبی رحمتﷺ کا لایا ہوا دین اسلام عورت کی حیثیت سے ہی اسے ساری عزتیں اور حقوق دیتا ہے اوران کو انہیں ذمہ داریوں کا پابند کرتا ہے جو خود فطرت نے ان کے سپرد کی ہے۔
    عام طور پر کمزور کو اپنے حقوق پانے کے لیے کافی محنت و مشقت کر نی پڑتی ہے۔تب کہیں نخل تمنا پر ثمر کھلتا ہے اور ان کے جائز حقوق ملتے ہیں۔موجودہ دور کی بات کریں تو اس نے بہت احتجاج اور بحث و مباحثہ کے بعد کچھ بنیادی حقوق تسلیم کیے اور اس کو اس دور کا احسان مانا جاتا ہے۔حالاں کہ یہ احسان اسلام کا ہے۔ کیو ں کہ سب سے پہلے اسی نے عورت کووہ تمام حقوق دیے جس سے وہ مدت دراز سے محروم چلی آرہی تھی۔یہ حقوق اسلام نے اس لیے نہیں دیے کہ عورت ان کا مطالبہ کر رہی تھی۔بلکہ اس لیے دیے کہ یہ عورت کے فطری اور بنیادی حقوق تھے جو اسے ملنا ہی چاہئے تھے۔
عورتوں کو زندہ رہنے کا حق
    عورت کا جو حال عرب میں تھا تقریباًوہی پوری دنیا میں تھا۔عرب کے بعض قبائل لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے۔جس پر قرآن حکیم نے سخت تہدید کرتے ہوئے انہیں زنددہ رہنے کا حق دیا۔قرآن مجید میں ہے:
    ترجمہ:اس وقت کو یاد کرو جب اس لڑکی سے پوچھا جائے گاجسے زندہ دفن کر دیاگیاکہ کس جرم میں اسے قتل کیا گیا۔(سورہ تکویر)
اگر ایک طرف ان بے قصوروں کے ساتھ کی گئی ظلم و زیادتی پر جہنم کی وعید سنائی گئی تو دوسری طرف ان لوگوں کو جنت کی بشارت بھی دی گئی جن کا دامن اس ظلم سے پاک ہو اور لڑکیوں کے ساتھ وہی برتاؤ کریں جو لڑکوں کے ساتھ کرتے ہیں۔چنانچہ نبی کریمﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
    جس شخص کے یہاں لڑکی ہو اور اسے وہ زندہ در گور نہ کرے،نہ اس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرے اور نہ ہی اس پر اپنے لڑکوں کو ترجیح دے تو اللہ پاک اسے جنت میں داخل کرے گا۔
عورت بحیثیت انسان
    اسلام نے عورت پر سب سے بڑا حسان یہ کیا کہ عورت کی شخصیت کے بارے میں مرد وعورت دونوں کی سوچ اور ذہنیت کو تبدیل کر دیا۔انسان کے دل ودماغ میں عورت کا جو مقام و مرتبہ اور وقار ہے اس کو متعین کیا۔قرآن مجید میں ارشاد موجود ہے:
ترجمہ:اللہ نے تمہیں ایک انسان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو بنایا۔(سورہ نساء)
اس بنیاد پر انسان ہونے میں مر دوعورت سب برابر ہیں۔یہاں پر اس کی مردانگی قابل فخر نہیں ہے اور نہ ہی عورت کے لیے اس کی نسوانیت باعث عار۔مردووعورت دونوں انسان پر منحصر ہیں اور انسان کی حیثیت سے اپنی خلقت اور صفات کے لحاظ سے فطرت کا عظیم شاہکار ہے،جو اپنی خوبیوں اورخصوصیات کے اعتبار سے ساری کائنات میں ایک محترم اور بزرگ ترین مخلوق ہے۔
عورتوں کو تعلیم کا حق
    انسان کی ترقی کا دارومدار علم پر ہے۔کوئی بھی انسان یاقوم علم کے بغیر زندگی کے تگ ودو میں پیچھے رہ جاتا ہے۔اس کے باوجود تاریخ کا ایک طویل عرصہ ایسا گزرا ہے جس میں عورت کے لیے تعلیم کی اہمیت وضرورت کو نظر انداز کیا گیا اور اس کی ضرورت صرف مردوں کے لیے سمجھی گئی۔ان میں بھی جو خاص طبقہ سے تعلق رکھتے تھے صرف وہی علم حاصل کرتے تھے اورعورت تو علم سے بہت دور جہالت کی زندگی بسر کرتی تھی۔لیکن جب اسلام نے علم کوفرض قرار دیاتو مردوعورت دونوں کے لیے علم کے دروازے کھولے اور اس راہ میں جو بھی رکاوٹیں اور پابندیاں تھیں سب کو ختم کردیا۔اسلام نے لڑکیوں کی تعلیم کی طرف خاص توجہ دلائی اور اس کی ترغیب دی۔جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:
    علم کا حاصل کرنا ہر مردوعورت پر فرض ہے۔
    دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
    جس نے تین لڑکیوں کی پر ورش کی اور ان کی تعلیم و تربیت کی پھر ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے۔
    اسلام نے مردوعورت دونوں کوعبادت و شریعت کا پابند بنایا ہے جو کہ علم کے بغیرممکن نہیں۔علم کے بغیر عورت نہ تو اپنے حقوق کی حفاظت وصیانت کر سکتی ہے اور نہ ہی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کر سکتی ہے جو کہ اسلام نے اس پر عائد کی ہے۔اس لیے مرد کے ساتھ عورتوں کی تعلیم بھی نہایت ضروری ہے۔
عورتوں کے معاشرتی حقوق
    جس طرح دیگر معاشروں نے عورت کو کانٹے کی طرح زندگی کی رہ گزر سے مٹا نے کی کوشش کی اس کے بر عکس اسلامی معاشرہ نے بعض حالتوں میں اسے مردوں سے بھی زیادہ فوقیت اور عزت واحترام عطا کیا۔وہ مقدس ہستی جو پوری دنیا کے لیے رحمت بن کر تشریف لائی انہوں نے اس مظلوم طبقہ کو مزدہ جاں فزاسناتے ہوئے ارشاد فرمایا: 
    مجھے دنیا کی چیزوں میں سے عورت اور خوشبو پسند ہے اور میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔
    اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت سے بیزاری اور نفرت کوئی زہد و تقویٰ کی دلیل نہیں ہے۔انسان خدا کا محبوب اس وقت ہو سکتا ہے جب وہ اللہ کی تمام نعمتوں کی قدر کرے جن سے اس نے اپنے بندوں کو نوازا ہے۔
    ایک دوسری حدیث میں ہے کہ:
    دنیا تمام کی تمام سازوسامان ہے اور دنیا کی سب سے بہترین چیز نیک عورت ہے۔
آزادی رائے کا حق
    اسلام میں عورتوں کو آزادی رائے کا حق اتنا ہی ہے جتنا مردوں کو حاصل ہے خواہ وہ دینی معا ملہ ہو یادنیوی۔اس کی سب سے بڑی مثال وہ واقعہ ہے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ:
    تم لوگوں کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ عورتوں کی مہر زیادہ نہ باندھو،اگر مہر زیادہ باندھنا دنیا کے اعتبار سے بڑائی ہوتی اور عند اللہ تقویٰ کی بات ہوتی تو نبی کریم ﷺ اس کے زیادہ مستحق ہوتے۔(ترمذی)
    حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس تقریر پر ایک عورت نے بھری مجلس میں ٹوکا اور کہا کہ آپ یہ کیسے کہہ رہے ہیں،حالانکہ اللہ کا ارشاد ہے:
اور دیا ہے ان میں سے کسی ایک کو زیادہ سامان تو اس میں کچھ نہ لو۔
    جب خدا نے یہ جائز رکھا ہے کہ شوہر مہر میں ایک قنطار بھی دے سکتا ہے تو آپ منع کرنے والے کون ہوتے ہو۔ حضرت عمر نے یہ سن کر فرمایا تم سب ہم سے زیادہ علم والے ہو۔حالانکہ حضرت عمر کی گفتگو اولیت اور افضلیت میں تھی نہ کہ نفس جواز میں۔
    اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کو اپنی آزادی رائے کا پورا حق ہے۔اس آزادی رائے کا سر چشمہ خود آپ ﷺ کی ذات اقدس تھی کہ آپ کی تربیت اور صحبت نے ازواج مطہرات میں آزادی ضمیر کی روح پھونک دی تھی،جس کا اثر تمام عورتوں پر پڑتا تھا۔اللہ سب کو دین کی صحیح سمجھ نصیب کرے۔آمین  (یو این این)

«
»

دہلی فسادات میں کجریوال حکومت کا مایوس کن رول اور رویہ

پھر سے اْجڑی دِلّی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے